پاکستان بلاشبہ اس وقت اپنی تاریخ کے انتہائی نازک دور سے گزر رہا ہے۔ نازک دور تو اس سے پہلے بھی آتے رہے ہیں، جن میں سانحہ مشرقی پاکستان اہم ترین ہے۔ لیکن اس وقت ہم جس دورسے گزر رہے ہیں، اس میں بقایا پاکستان ہے اور ہمارے پاس کھونے کو کچھ نہیں۔ سابقہ چالیس سالہ دور وہ دور تھا جس میں ہمارے حکمران طبقات نے اپنے محدود اور وقتی فائدے کے لیے وہ پالیسیاں اپنائیں جس نے پاکستان اور پاکستانی قوم کو ایسا نقصان پہنچایا جس کی تلافی آیندہ کئی نسلوں تک ممکن نہیں ہے۔ وہ پاکستان جہاں امن تھا‘ رواداری برداشت تھی‘ اس پاکستان سے ہم ہاتھ دھو بیٹھے۔ اس کی جگہ شدت پسندی، مذہبی جنونیت اور دہشتگردی نے لے لی ہے۔ اب ہمارے تعلیمی اداروں سے سائنس دان، تخلیق کار، شاعر و ادیب نہیں بلکہ انتہا پسند نکلتے ہیں۔
ٹرمپ کی دھمکیاں ہوں یا برکس اعلامیہ پوری دنیا نے ہمارے گرد گھیرا تنگ کر دیا ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ گھیرا تنگ سے تنگ تر ہوتا جا ئے گا۔ ہمارے وزیر خارجہ امریکی وزیر خارجہ سے ملاقات کے لیے امریکا جا چکے ہیں۔ جب وہ امریکی وزیر خارجہ سے ملاقات کر رہے تھے عین اس سے پہلے امریکی وزیر دفاع نے بیان دیا کہ پاکستان کے خلاف ایکشن سے پہلے پاکستان کو ایک آخری موقع دیا جائے گا کہ وہ اپنے معاملات درست کر لے۔
بقول پاکستانی وزیر خارجہ کے اپنا گھر درست کرنے کا یہ آخری موقع ہے جس کے بعد پاکستان کا نان نیٹو اتحادی کا درجہ ختم کر دیا جائے گا۔ معاشی پابندیاں الگ سے لگیں گی۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے مالی ا مداد کے حصول پر پابندی ہو گی۔ یعنی پاکستان کا عالمی بائیکاٹ اور عالمی تنہائی۔
اس عالمی صورت حال کے نتیجے میں بھارت کا سر کڑاہی میں اور انگلیاں گھی میں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں ہوا۔ کیا ہمارے ذمے داران سو رہے تھے۔ یہ سب کچھ اچانک سے تو نہیں ہو گیا۔ بھارت ان سب کے لیے مدتوں سے کوششیں کر رہا تھا۔ آخر کار اس کی کوششیں رنگ لائیں اور اس کو وہ سب کچھ حاصل ہو گیا، جس کا وہ ایک عرصے سے متمنی تھا۔
ہماری وزارت خارجہ کیا کر رہی ہے اس کا اندازہ اس سے لگائیں کہ ہماری اقوام متحدہ میں مستقل مندوب ملیحہ لودھی صاحبہ جب جنرل اسمبلی سے خطاب کر رہی تھیں تو انھوں نے بھارتی مظالم کی تصویر کشی کے لیے دنیا کو اس لڑکی کی تصویر دکھائی جس کا تعلق فلسطین میں ہونے والے اسرائیلی ظلم و ستم سے تھا۔ بیرون ملک سفارت خانوں اور اہلکاروں پر عوام کے خون پسینے کی کمائی کے اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں۔ لیکن ہمارے سفارتکاروں کی کارکردگی سب کے سامنے ہے۔
ادھر پاکستانی وزیر خارجہ خواجہ آصف نے امریکی ہم منصب ریکس ٹلرسن سے واشنگٹن میں ملاقات کی جس میں امریکی وزیر خارجہ نے اعتراف کیا کہ پاکستان قابل اعتماد پارٹنر ہے جب کہ پاکستان میں استحکام کے خواہاں ہیں۔ پاکستان میں طویل المدتی استحکام انتہائی اہم ہے۔
امریکی وزیر خارجہ کا کہنا انتہائی اہم ہے کہ امریکا نے صرف پاکستانی حکومت بلکہ تمام اداروں سے اچھے تعلقات چاہتا ہے۔ اس کے بعد انھوں نے پاکستان میں طویل المدتی استحکام بات کرتے ہوئے پاکستانی حکومت کے مستقبل کے حوالے سے خدشات کا بھی ذکر کیا۔ پاکستانی فوج کے بغیر امریکا افغانستان میں سب کچھ ہار جائے گا۔
جب امریکی وزیر خارجہ کہتے ہیں کہ خطے میں دیر پا امن کے لیے پاکستان کا کردار اہم ہے تو وہ ایک بہت بڑی سچائی کی طرف اشارہ کر رہے ہوتے ہیں کہ افغانستان میں امریکا جنگ ہارتا ہے تو ایک طرف اس کی 16 سال کی محنت برباد ہو جائے گی تو دوسری طرف وہ ہزاروں ارب ڈالر بھی ضایع ہو جائیں گے۔
واشنگٹن میں ہی خواجہ آصف نے یو ایس انسٹیٹوٹ آف پیس کے زیر اہتمام منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے امریکی وزیر دفاع نے کہا کہ جب ہمیں کوئی کہتا ہے کہ یہ آخری موقع ہے تو یہ ہمیں قابل قبول نہیں۔ آخری موقع پہلا موقع یا دوسرا موقع بولنے دیں انھیں۔ اگر وہ ہمارے ساتھ اس طرح بات کریں گے تو یہ ہمارے لیے قابل قبول نہیں۔ پاکستانی وزیر خارجہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ اب وقت ہے کہ افغان پناہ گزین واپس افغانستان جائیں اور یہ امریکا کی ذمے داری ہے کہ وہ ان کو واپس ان کے شہروں میں بسائے کیونکہ یہ امریکا کی جنگ تھی جس کی وجہ سے وہ پاکستان میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے تھے۔
خواجہ آصف نے حقانی نیٹ ورک اور حافظ سعید کو بوجھ قرار دینے کے بیان پر قائم رہتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہم اس بوجھ سے ایک رات میں پیچھا نہیں چھڑا سکتے کیونکہ وہ بہت عرصے سے یہاں پر ہیں۔ ہمیں ان سے یہ کہنے کے لیے وقت درکار ہے کہ وہ اپنا بوریا بستر سمیٹ لیں۔ خواجہ آصف نے یہ بھی تسلیم کیا کہ 2014ء تک پاکستان نے دہشتگردوں کے خلاف اپنی پوزیشن میں نرمی کا مظاہرہ کیا تھا کیونکہ اسے امریکا پر یقین نہیں تھا کہ وہ افغان جنگ جیتنے کے بعد کیا کرے گا۔
پاکستانی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ انھوں نے گزشتہ ایک ماہ کے دوران مشاہدہ کیا ہے کہ امریکا صرف اور صرف پاکستان میں دہشتگردوں کے محفوظ ٹھکانوں کے الزام پر اپنی توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔ یہ وہ چیز ہے جو خود امریکا کو افغانستان میں حاصل نہیں ہو سکی۔ انھوں نے کہا کہ اگر کچھ وقت کے لیے تسلیم کر لیں اور پاکستان میں دہشتگردوں کے ٹھکانے ہیں تو پھر وہ کون لوگ ہیں جو منشیات کی تجارت میں ملوث ہیں۔ کابل میں کرپشن میں ملوث ہیں‘ طالبان کو ہتھیار بیچ رہے ہیں‘ علاقے دہشتگردوں کے ہاتھوں گنوا رہے ہیں‘ اور داعش کو افغانستان لا رہے ہیں۔
پاکستانی وزیر خارجہ نے انتباہ کیا کہ اگر امریکا کی یہی پالیسی جاری رہی تو ویتنام کی طرح افغان جنگ بھی ہار جائے گا۔پاکستان کے وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف دورہ امریکا کے دوران لگی لپٹی کے بغیر غیر سفارتی زبان استعمال کر کے امریکا کو اس کا چہرہ دکھایا۔ ضروری ہے کہ ہم ماضی کی غلطیوں کا ازالہ کرتے اور اپنے گھر کی صفائی کو ترجیح دیتے ہوئے صرف اور صرف پاکستان کے مفادات کو پہلے نمبر پر رکھیں۔ جب کہ ہم ماضی میں کئی دہائیوں تک امریکی مفادات کو ترجیح دیتے رہے۔ یہاں تک کہ عالمی تنہائی ہمارا مقدر بن گئی۔
اکتوبر کا تیسرا اور چوتھا ہفتہ واضح کرے گا کہ پاک امریکا تعلقات کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا اور اس دفعہ یہ بات بھی واضح ہو گی کہ کیا اس دفعہ موسم کی تبدیلی دوسرے موسموں کی تبدیلی کا بھی باعث ہو گی؟