9/11 امریکا کی تاریخ کا دہشتگردی کا بدترین واقعہ تھا، جس کا سِرا کسی نہ کسی طرح مسلمانوں سے جوڑا گیا اور پھر جو کچھ ہوا وہ سب نے دیکھا۔ عراق میں کس طرح امریکا کا نزلہ گرا اور اس کے چھینٹے افغانستان اور کچھ پاکستان میں بھی پڑے۔
یہ دہشتگردی کی بڑی واردات تھی، اتنے برسوں میں کئی بڑے بڑے محققین کی رپورٹس آچکی ہیں، جس میں یہ بھی دعوے کیے گئے ہیں کہ یہ دہشتگردی کی کارروائی دراصل امریکا کی جانب سے ہی تھی اور سبب تھا کہ کسی طرح مسلمان ممالک کو آنکھیں دکھانے اور اپنے پیروں تلے روندنے کا موقع ملے اور وہ موقع انھوں نے خوب لیا۔
اس سلسلے میں چالاک، سمجھدار، ہوشیار امریکی، جو ہر معاملے میں نمبر ون بننے کا دعویٰ کرتے ہیں، اتنا بڑا ہاتھی کھلی آنکھوں سے گزرتے دیکھتے ہیں، ان کے ریڈار اندھے ہوجاتے ہیں اور پتہ ہی نہیں چلتاکہ کہاں سے ہوائی جہاز اغوا ہوئے اور مکھی کی طرح اتنے چھوٹے سے ہوگئے اور ٹوئن ٹاورز سے ٹکرا گئے۔ کھیل شروع بھی کیا، ختم بھی ہوا اور دنیا بھر کے شاعروں کو پتہ ہی نہ چلا کہ اس بلیو وہیل گیم کی کہانی کے مصنف و ہدایت کار وہی تو تھے۔
ستمبر 2017ء کی رات ساڑھے دس بجے کے قریب عیش و عشرت کے حوالے سے مشہور امریکی شہر لاس ویگاس کے ایک عالیشان ہوٹل کی بتیسویں فلور پر جب کہ بیس بائیس ہزار کے قریب شائقین مشہور سنگر جیسن ایلڈن کے فن کو بڑے ذوق و شوق سے دیکھ رہے تھے جو ہاروسٹ فیسٹیول کے سلسلے میں منعقد کیا گیا تھا کہ اچانک ایک جانب سے تڑاتڑ گولیوں کی آوازیں ابھرتی ہیں۔ محسوس یہ ہورہا تھا کہ جدید طرز کی خودکار رائفل سے برآمد ہورہی ہیں اور مجمعے میں ایک شور مچ جاتا ہے۔ اس ہڑبونگ میں لوگ گرتے پڑتے راہ فرار کی جگہیں تلاش کرتے ہیں، لیکن مارنے والی گولی کسی کی شکل و صورت دیکھے بنا پار ہوتی جاتی ہے۔
مینڈیلے بے میوزک کنسرٹس کے حوالے سے خاصی خوبصورتی سے تعمیر کیے گئے اس حصے میں چھپنے کی جگہ ہی کیا تھی کہ یہ ایک کھلی فضا میں تھا۔ اسٹیج پر کچھ دیر پہلے اپنی خوبصورت آواز کے جلوے بکھیرتے جیسن ایلڈن جس سے فرمائش کرنے والے پاپ پاپ کے نعرے لگارہے تھے، فوری طور پر فرار ہوگئے تھے۔
اس افراتفری اور ہڑبونگ میں فائرنگ کرنے والے نے اپنا کام دکھایا اور اس کے رائفل کی ایک گولی خود اس کے بھی کام آئی اور وہ اس دنیا سے کوچ کرگیا۔ اس چونسٹھ سالہ شخص کے ذہن میں ایسا کیا تھا کہ اس نے چند ہی منٹوں میں بیس بائیس ہزار کے مجمعے پر فائر کھول دیا، جس سے اٹھاون کے قریب لوگ اپنی جان سے گئے، جب کہ پانچ سو سے زائد افراد شدید زخمی ہوئے۔ کیا وہ مسلمان تھا؟ کیا وہ شدت پسند تھا؟ کیا اس کا تعلق کسی مسلمان ملک سے تھا؟ کیا وہ حال ہی میں مسلمان ہوا تھا؟
ان تمام سوالوں کے جوابات ڈھونڈنے سے پہلے ذرا بات ہوجائے بینجمن ہاسکنز پیڈک کی، جو 60ء کی دہائی میں بینک ڈکیتی کرنے والا سیریل مجرم تھا اور 1969ء میں این بی آئی کی اشتہاری فہرست میں اس کا نام تھا۔
ایک برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق اس نے بیس برس جیل میں کاٹے تھے اور پھر یہ فرار ہوگیا تھا، اسی بینجمن پیڈک کا بیٹا یعنی اسٹیفن پیڈک، گو اپنے باپ کی طرح عادی مجرم تو نہ تھا اور نہ ہی اس کے ریکارڈ میں ایسی کوئی قابل اعتراض باتیں شامل تھیں، البتہ یہ جوئے کھیلنے کا شوقین تھا، لائسنس یافتہ پائلٹ بھی تھا، اس کے اپنے دو طیارے بھی تھے۔
یہ میوزک کنسرٹس دیکھنے کا بھی شوقین تھا، اس نے اٹھائیس ستمبر کو مینڈلے بے ہوٹل میں دو کمروں کا شاندر سویٹ بک کروایا تھا اور اس گھناؤنے جرم کو انجام دینے کے بعد جب اس نے خود کو بھی جہنم رسید کرلیا تو پولیس کی تفتیشی ٹیم نے اس کے کمرے کا معائنہ کیا، جہاں سے انھیں انیس کے قریب ہتھیار برآمد ہوئے جس میں رائفلز اور پستولیں شامل تھیں۔ پولیس نے اپنی اس شاندار کارکردگی کو سر انجام دینے کے بعد اپنا دائرہ کار مزید وسیع کیا تو موصوف کے گھر سے بھی ہتھیار برآمد ہوئے اور ایسے کیمیکل بھی ملے جو بم بنانے کے کام آتے ہیں۔
ذرا سوچیے 9/11 کے واقعے میں بھی پولیس اور انٹیلی جنس ایف بی آئی کو کچھ پتہ نہ چلا تھا کہ طیارے کس نے ہائی جیک کیے، کہاں سے کیے اور کہاں کا سفر ہے۔ کچھ اسی طرح اسٹیفن نے ہتھیار کس طرح ہوٹل کے کمرے میں منتقل کیے اور کیوں کیے؟ یہ مانا کہ اسٹیفن ایک سمجھدار شخص تھا، جواری تھا، اسی لیے اس نے اپنے اسلحے کا لائسنس بنوا رکھا تھا، لیکن ذرا سوچیے کہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی شخص اپنے ہمراہ پالتو شیر لے کر گھومے اور اس سے کوئی پوچھ گچھ بھی نہ کرے۔
یہ بھی ممکن ہے کہ شیر گوشت نہیں دودھ پیتا ہو، کیک اور ٹافیاں کھاتا ہو۔ اس کے مالک کو اچھی طرح سے علم ہے کہ اگر وہ زور سے چھینکتا بھی ہے تو اس کا پالتو شیر لرز جاتا ہے، لیکن جناب! کسی چلتے پھرتے معصوم سے اجنبی کو کیا خبر کہ اس کا پالتو شیر اتنا ہی مودب ہے، وہ تو اسے شیر ہی سمجھے گا ناں۔
اسٹیفن کے بھائی ایرک کا یہی کہنا ہے کہ اسے نہیں معلوم کہ اس کے بھائی نے ایسا کیوں اور کیسے کیا ہے، اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ اسے اسٹیفن کی جانب سے آخری ایک ٹیکسٹ ملا تھا جس میں اس نے لکھا تھا کہ اس نے ڈھائی لاکھ ڈالر کیسینو میں جیتے ہیں۔ اسٹیفن کا ماضی میں اور حالیہ بھی کسی طرح سے مذہبی شدت پسندی کا رجحان نہیں دیکھا گیا، وہ خاموش طبع انسان تھا، البتہ داعش نے فوری طور پر اس بڑے درجے کی ہلاکت کا طوق اپنے گلے میں ڈالنے کی کوشش کی ہے، گویا اسلام سے جوڑنے کی کوشش کی ہے۔
یہاں میرے پیارے آقا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری خطبے کی ایک خوبصورت بات ضرور یاد کروادیں ’’اے لوگو! میرا خیال یہ ہے کہ میں اس اجتماع میں تم سے پھر کبھی نہیں مل سکوںگا، یاد رکھنا تمہارا خون، تمہارا مال اور تمہاری عزت ایک دوسرے کے لیے حرام (یعنی باعث حرمت وتقدس) ہے، وہ وقت دور نہ سمجھنا جب تمہیں اپنے ہر عمل کا حساب اللہ کی بارگاہ میں دینا ہے‘‘۔
اللہ ہم سب کو نیک عمل کی توفیق دے۔ (آمین)