28 جولائی کو سپریم کورٹ سے نااہلی کے بعد نواز شریف کو مسلم لیگ ن کا صدر بنانے کے لیے 2 اکتوبر 2017ء کو ’’الیکشنایکٹ 2017ء‘‘ کے ذریعے کی گئی ترمیم آئین کے ساتھ مذاق ہے، یہ ترمیم دستور کی شق 62 اور 63 سے متصادم ہے۔ اس ترمیم نے کسی بھی نااہل کے لیے سیاسی پارٹی کا سربراہ بننے کی راہ ہموار کردی ہے۔
اس ترمیم کے فوری بعد نواز شریف کا ’’بلامقابلہ‘‘ مسلم لیگ ن کا صدر منتخب ہونا کوئی حیرت کی بات نہیں تھی۔ پارلیمنٹ میں انتخابی اصلاحات کئی برسوں سے زیر بحث تھیں، اس کے بعد پارٹی کے دستور میں بھی جلد بازی کے ساتھ جس طرح صرف نواز شریف کے از سر نو انتخاب کے لیے ترمیم کی گئی، اس سے ذاتی مقاصد واضح ہوتے ہیں اور یہ بھی کہ پاکستان مسلم لیگ نواز کوئی سیاسی جماعت نہیں بلکہ ایک خاندان کی پارٹی ہے۔
پاکستان کے کئی نامور وکلا کے نزدیک پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے منظور ہونے والی ترمیم کو ’’پاناما گیٹ‘‘ کے مقدمے میں سپریم کورٹ کے متفقہ فیصلے کی توہین قرار نہیں دیا جاسکتا۔ مقننہ، منتظمہ اور عدلیہ آئین کے تین ستون ہیں جن کی حدود، اختیارات اور ذمے داریوں کا تعین آئین کی کئی متعلقہ شقوں میں کردیا گیا ہے اورانھی حدود میں رہتے ہوئے انھیں اپنے اپنے دائرۂ اختیار میں کام کرنا ہوتاہے۔ خاص طور پر منتظمہ اور قانون ساز ادارے ایسے قانون منظور کرنے کے پابند ہیں جن میں بظاہر آئین میں واضح کردہ بنیادی حقوق اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہ کی گئی ہو۔
آئین کے آرٹیکل 4، 5 (2)، 2 (a)، 37اور 38 کو ملا کر پڑھا جائے تو پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ کے لیے بھی یہی اصول واضح ہے۔ تہذیب یافتہ فکر کا بھی یہی تقاضا ہے کہ قوانین نیک نیتی اور خلوص کے ساتھ تشکیل دیے جائیں اور فرد واحد کے بجائے یکساں طور پر سبھی کے لیے ہوں۔ کیا پارلیمنٹ ایسے قوانین منظور کرسکتی ہے جو کسی کو احتساب کے مقابلے میں تحفظ فراہم کرے؟ یہ ترمیم، جو صرف نواز شریف کو راستہ فراہم کرنے کے لیے تھی، چاہے توہین عدالت کے زمرے میں آتی ہو یا نہیں، لیکن یہ پاکستانی عوام کے مفادات کے لیے نہیں کی گئی۔
پارٹی کے وفاداروں نے اسے ’’پاکستان میں جمہوریت کے لیے تاریخی دن‘‘ قرار دیا، یہ ان کے کھوکھلے طرز فکر کی نشانی ہے، دراصل یہ ملکی سیاست کا سیاہ ترین دن تھا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ جے آئی ٹی نے جو غیر معمولی شواہد جمع کیے، ان کی روشنی میں نواز شریف ان کے بچے اور داماد کے خلاف کیوں خاصا مضبوط ہے۔
یہ بات ناقابل یقین ہے کہ اعلیٰ عدلیہ دھمکیوں یا بلیک میلنگ کے سامنے بے بس ہوجائے گی، مریم جتنے چاہیں ٹویٹ کرتی رہیں، کارگر ثابت نہیں ہوں گی۔ گو کہ یہ متنازعہ ترمیم صرف نواز شریف کے لیے کی گئی لیکن اس کے بعد عدالتوں سے سزا یافتہ عذیر بلوچ اور گلو بٹ اور شدت پسند کردار بھی سیاسی جماعتوں کے سربراہ بن سکتے ہیں۔ اندازہ لگایا جاسکتا ہے قومی سیاسی ڈھانچے پر اس ترمیم کے کتنے تباہ کُن اثرات مرتب ہوں گے۔
لیبیا، عراق ، شام، یمن جیسی دیگر مثالیں ہمارے سامنے ہیں، یہ ترمیم داخلی سطح پر کشیدگی کی ویسی ہی فضا پیدا کرسکتی ہے جیسی کئی مسلم ممالک میں پیدا ہوچکی۔ یہ ملک کو انتشار کی نذر کرنے کے مترادف ہے۔ یہ بے یقینی کی ایسی فضا پیدا کرنے کی کوشش ہے جس کے بعد ’’آخری اقدام‘‘ کے سوا کوئی چارہ نہ رہے۔ خدانخواستہ ملک انتشار کی لپیٹ میں ہو تو صرف آئین بچائے رکھنے کے کیا معنی رہ جاتے ہیں؟
مسلم لیگ ن نے جو قانون سازی کی وہ نہ صرف جمہوری اصولوں کے منافی ہے بلکہ اس اقدام نے جمہوریت کے آدرش، معیارات اور بنیادی تصورات سے ان کے مخلص ہونے کے دعوؤں کی قلعی بھی کھول دی ہے۔ ایک ہفتے تک حزب اختلاف صرف لیپا پوتی کے لیے (بقول خورشید شاہ) اس بل کے خلاف احتجاج کرتی رہی۔ صدر مملکت نے بھی بجلی کی تیزی سے اس قانون پر مہر تصدیق لگادی، وہ اور کربھی کیا سکتے تھے۔
سپریم کورٹ سے نظر ثانی اپیل مسترد ہونے کے بعد نواز شریف اور ان کی جماعت کے لوگوں نے عدالتوں کے خلاف اعلان جنگ کردیا، معزز جج صاحبان اور جے آئی ٹی ارکان کے خلاف باتیں کی جا رہی ہیں۔ حقائق اور کہانیوں کو گڈ مڈ کرکے نہ صرف عدالتی احکامات سے روگردانی کی بلکہ جج صاحبان اور دیگر اداروں پر طعنہ زنی کی گئی۔ ہم دیکھ ہی چکے ہیں کہ 1998ء میں نواز شریف کے ساتھی کس طرح سپریم کورٹ پر حملہ آور ہوئے تھے۔ یہ رویہ اس بات کا ثبوت ہے کہ قانون کی حکمرانی ان کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتی۔
لڑائی پر آمادہ نواز شریف عوام کو سڑکوں پر لانے میں ناکام رہے۔ ’’مجھے کیوں نکالا؟‘‘ کا واویلا کرتے ہوئے وہ ماضی میں دو مرتبہ وزیر اعظم بینظیر کی حکومت گرانے اور بعد ازں 2012ء میں وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی نااہلی میں ادا کیا گیا اپنا متحرک کردار فراموش کرگئے۔ قانونی جنگ لڑنے کے بجائے سیاسی کھیل کھیلنے کا حربہ اب ان کے کام نہیں آئے گا۔
مسلم لیگ ن تواتر سے سازشوں کا تذکرہ کرتی ہے لیکن ان کی نوعیت اور سازشی کرداروں کے بارے میں صاف صاف کچھ نہیں کہا جاتا۔ اشاروں کنایوں اور سر توڑ کوششوںکے باوجود مسلم لیگ ن پاناما گیٹ میں نوازشریف کی نااہلی کے پیچھے فوج کا ہاتھ تلاش نہیں کر پائی۔ ان کی خوش قسمتی تھی کہ وہ 2013ء کے انتخابات میں دھاندلی اور ’’ڈان لیکس‘‘ سکینڈل میں بچ نکلے لیکن وہ فوج کے خلاف گھات لگائے بیٹھے رہے۔ زرداری کے برعکس نواز شریف قدرے معقول انسان ہیں۔ لیکن مریم کے بینظیر بننے کے عزائم انھیں اپنے مزاج کے خلاف رویہ اختیار کرنے پر مجبور کررہے ہیں۔
مریم نواز کی بیان بازی اور حالیہ ترمیم مل کر ملکی سیاست کو ’’انجام‘‘ کی طرف دھکیل رہی ہے، جس کا نتیجہ کچھ بھی نکل سکتا ہے۔ قومی اسمبلی میں تقریر سے ثابت ہوگیا کہ نواز شریف کیپٹن صفدر کی دامادی کے صحیح مستحق ہیں۔
جنرل قمر باجوہ نے تحمل کا مظاہرہ کیا ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے مارشل لاء کے امکان کو مسترد کردیا اور یہ بھی واضح کردیا کہ عسکری اور سول قیادت میں کشیدگی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ فوج کی ’’خاموشی‘‘ کے باوجود پی ایم ایل ن نے بے سبب اشتعال انگیزی کی کوشش کی۔
مسلم لیگ ن کی ’’فتح‘‘ کو چیلنج کرنے اور الیکشن ایکٹ 2017ء کو غیر قانونی وغیر آئینی قرارد دینے کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست دائر ہوچکی ہے۔ نا اہل فرد کی پارٹی قیادت کے خلاف مذمتی قرارداد سینیٹ میں منظور کی گئی۔ سپریم کورٹ کے معزز جج صاحبان ہی سرنگ کے کنارے روشنی دکھا سکتے ہیں، عوام پاکستان کو جس کا بے چینی سے انتظار ہے۔