counter easy hit

امن اور خوشحالی

آج دنیا کو جن بے شمار سنگین مسائل کا سامنا ہے ان میں دو اہم ترین مسائل امن اور خوشحالی سرفہرست ہیں۔ آج آپ جس طرف نظر ڈالیں یہ دونوں مسائل اپنا حل مانگتے نظر آئیںگے۔ دنیا کا حکمران طبقہ ان مسائل کو حل کرنے کے لیے جو غیر منطقی، غیر دانشمندانہ کوششیں کرتا نظر آرہا ہے، اس سے یہ مسائل حل ہونے کے بجائے ان کی سنگینی میں اضافہ ہوتا نظر آرہاہے۔ عالمی مالیاتی اداروں سے پسماندہ ملکوں کو دی جانے والی امداد عموماً قرض ہوتی ہے جسے بھاری سود سمیت واپس کرنا پڑتا ہے اگر کوئی ادارہ یا ملک واقعی امداد دیتا ہے تو یہ امداد ہر ملک کی رشوت خور اشرافیہ عوام تک پہنچنے نہیں دیتی۔ اوپر ہی اوپر اُچک لیتی ہے۔ آج شمالی کوریا اور امریکا، چین اور جاپان اور بھارت ایک دوسرے سے متصادم نظر آتے ہیں۔

دوسری عالمی جنگ کے بعد جنگ سے پیدا ہونے والی تباہ کاریوں سے خوفزدہ ملکوں نے امن کے قیام کے لیے جو ادارہ اقوام متحدہ کے نام سے قائم کیا تھا وہ اب بڑی طاقتوں کا باجگزار بنا ہوا نظر آتا ہے۔ امن کے لیے اس کی کوششیں اس لیے ناکام ہوتی نظر آرہی ہیں کہ بڑی طاقتوں کا حکمران طبقہ اپنے قومی مفادات کے نام پر اقوام متحدہ کی کوششوں پر پانی پھیرتا نظر آرہا ہے۔ اس حوالے سے سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ یہ تمام متحارب ممالک ایٹمی ہتھیاروں کے مالک ہیں اور اپنے مخالف ملکوں کو ایٹمی ہتھیار استعمال کرنے کی کھلی دھمکیاں دیتے نظر آرہے ہیں، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ تو یہ فرما رہے ہیں کہ شمالی کوریا کو ایٹمی ہتھیار بنانے سے روکنے کا ہمارے پاس اس کے سوا کوئی آپشن نہیں ہے کہ ہم شمالی کوریا کے خلاف ایٹمی ہتھیار استعمال کریں۔

اس دھمکی کے علاوہ امریکا شمالی کوریا پر ایسی سخت اقتصادی پابندیاں لگا رہا ہے کہ شمالی کوریا یا تو ان پابندیوں کو قبول کرلے یا پھر امریکا کے ایٹمی ہتھیاروں کا جواب ایٹمی ہتھیاروں سے دینے کے لیے تیار رہے اور شمالی کوریا اس دوسرے آپشن کو استعمال کرنے کے لیے تیار ہے، یہ خطرناک صورتحال اس وقت تک برقرار رہے گی جب تک اس مسئلے کا کوئی منطقی حل تلاش نہ کرلیا جائے۔

اس حوالے سے سیاست دانوں کی احمقانہ کوششیں نہ ماضی میں کامیاب ہوئیں نہ حال میں کامیاب ہورہی ہیں نہ مستقبل میں کامیاب ہوسکتی  ہیں کہ سیاست دان قومی مفادات کی زنجیروں میں بندھے ہوئے ہیں جو سرمایہ دارانہ نظام کا بخشا ہوا تحفہ قومی مفادات کے فلسفے کی شکل میں دنیا کے سارے ملکوں کا اثاثہ بنا ہوا ہے اور دنیا کا سیاست دان طبقہ قومی مفادات کو اس قدر مقدس سمجھتا ہے کہ اس کے لیے وہ ایٹمی ہتھیار استعمال کرنے کے لیے تیار رہتا ہے۔ سیاست دانوں کا اس حوالے سے کوئی آفاقی وژن نہیں ہوتا۔

دنیا کی اجتماعی بد قسمتی یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کے سرپرستوں نے حکومتیں چلانے اور فیصلے کرنے کا اختیار صرف سیاست دانوں کو دیا ہے اور حکومتیں چلانے اور اختیارات استعمال کرنے کے لیے اس طبقے نے پوری منصوبہ بندی کے ساتھ جمہوریت کا وہ نظام دنیا کے سر پر مسلط کیا ہے جو صرف اور صرف سرمایہ دارانہ نظام کے تحفظ کی ذمے داری ادا کرتا ہے۔ یہ بات طے ہے کہ دنیا میں امن قائم کرنے کی ذمے داری سیاست دان کبھی پوری نہیں کرسکتے، پھر کیا ہونا چاہیے؟

اس کیا ہونا چاہیے کے سوال کا جواب یہ ہے کہ حکمران اور فیصلے کرنے کا اختیار ان لوگوں کو ملنا چاہیے جو قومی مفادات کے ساتھ ساتھ عالمی مفادات اور امن کو اپنی ترجیحات میں شامل کرسکیں۔ اس کے لیے ایسے آفاقی وژن رکھنے والوں کی ضرورت ہے جو قومی مفادات کو عالمی مفادات کے ساتھ جوڑنے اور عالمی سطح پر امن کی اہمیت اور ضرورت کا ادراک رکھتے ہوں، دنیا میں دانشور، مفکر، اہل فکر، اہل قلم ہی وہ طبقات ہیں جو آفاقی وژن رکھتے ہیں اور دنیا میں امن کی اہمیت کا ادراک رکھتے ہیں۔ اصولاً اور ضرورتاً قانون ساز اداروں میں ان کی موجودگی ضروری ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آفاقی وژن رکھنے لوگ قانون ساز اداروں میں کیسے پہنچیں؟ یہی وجہ سوال ہے جس پر اہل فکر، اہل دانش کو غور کرنا چاہیے۔

جنگوں کو روکنے کی بے شمار کوششیں کی جاتی رہیں لیکن سیاست دان جنگوں کو روک نہیں سکے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سیاست دان جنگوں کے اصل ماخذ پر نظر ڈالنے کی زحمت نہیں کرتے۔ گھر کی لڑائی سے لے کر عالمی جنگوں تک ہر جگہ کسی نہ کسی شکل میں ہتھیار ہی استعمال ہوتے ہیں۔ ہتھیاروں کی صنعت میں سرمایہ داروں نے کھربوں ڈالر لگا رکھے ہیں اور اربوں ڈالر کا منافع کما رہے ہیں، سرمایہ دارانہ نظام جن بیساکھیوں پر کھڑا ہوا ہے ان میں سب سے بڑی بیساکھی ہتھیاروں کی تجارت ہے۔

سرمایہ کار کبھی نہیں چاہے گا کہ اس کی سب سے زیادہ منافع بخش صنعت کا خاتمہ ہوجائے لیکن حقیقت یہ ہے کہ جنگوں کو روکنے اور ختم کرنے کا منطقی طریقہ یہی ہے کہ ہتھیاروں کی تیاری اور تجارت پر پابندی لگادی جائے۔ سرمایہ کار خاص طور پر ہتھیاروں کی صنعت کا سرمایہ کار ہتھیاروں کی ڈیمانڈ پیدا کرنے کے لیے لاکھوں ڈالر خرچ کرکے ایسے دلالوں کی خدمات حاصل کرتا ہے جو علاقائی جنگوں کی راہ ہموار کرتے ہیں اور علاقائی جنگوں کی حوصلہ افزائی میں سیاست دان یعنی حکمران طبقہ سب سے زیادہ اہم کردار ادا کرتا ہے اور یہ کردار اگرچہ قوم و ملک کے نام پر ادا کیا جاتا ہے لیکن حکمران طبقہ یہ کردار بلا معاوضہ ادا نہیں کرتا بلکہ لاکھوں، کروڑوں ڈالر کِک بیک یا رشوت کی شکل میں لے کر یہ ذمے داری ادا کرتا ہے۔

اس حوالے سے ایک اور المناک حقیقت یہ ہے کہ ہر ملک خواہ وہ ترقی یافتہ ہو یا پسماندہ ملکی سالمیت کے تحفظ کے لیے ہتھیار کے ساتھ ایک بھاری فوج بھی رکھتا ہے۔ دنیا میں یقینی امن کا اہتمام کیا جائے تو ہتھیاروں کے ساتھ فوج بھی غیر ضروری ہوجاتی ہے اور امن دشمن عناصر کے لیے امن تباہ کرنے کا موقع باقی رہ جاتا ہے، اس حوالے سے یہ اقدام کیا جاسکتا ہے کہ ہر ملک میں اقوام متحدہ کی نگرانی میں اتنی فوجی نفری رکھی جائے جو امن دشمن عناصر سے نمٹ سکے۔ جس کی کمانڈ اور کنٹرول اقوام متحدہ کے پاس ہو، ویسے تو جب ہتھیار عوام کی پہنچ سے باہر ہوںگے تو لڑائی اور جنگوں کا باب ہی ختم ہوجائے گا لیکن کسی بھی غیر متوقع صورتحال سے نمٹنے کے لیے اقوام متحدہ کی مختصر فوج موجود رہے گی۔ اس حوالے سے یہ اقدام بھی ضروری ہے کہ موجودہ بڑے طاقتوں کی اسیر اقوام متحدہ کی جگہ ایک ایسی اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل تشکیل دی جائے جو بڑی طاقتوں کے کنٹرول سے مکمل آزاد ہو اور اس کا دفتر امریکا کے بجائے کسی ایشیائی ملک میں ہو۔

اب رہا دوسرا سوال عوام کی خوشحالی کا سو تو جب ہر ملک دفاع کے شعبے سے آزاد ہوجائے گا تو دفاع کے نام پر خرچ کی جانے والی بھاری رقوم بچ جائے گی جو عوام کی خوشحالی کے کام آئے گی۔ اس حوالے سے اس ظالمانہ حقیقت کا ادراک ضروری ہے کہ عوام کی بد حالی کی بڑی وجہ چند ہاتھوں میں قومی دولت کے 80 فی صد حصے کا ارتکاز ہے۔ حیرت اور شرم کی بات یہ ہے کہ اربوں ڈالر رقم کے مالک اس قدر بھاری سرمائے کو استعمال بھی نہیں کرسکتے یہ اربوں کی دولت فالتو پڑی رہتی ہے صرف اس پر مٹھی بھر اشرافیہ کا قبضہ رہتا ہے یہ ظلم، یہ نا انصافی تو انسانی تاریخ کے ساتھ ساتھ چل رہی ہے لیکن اس میں حیرت انگیز اضافہ دنیا میں سرمایہ دارانہ نظام کے متعارف ہونے کے بعد ہوا ہے اور باضابطہ طبقاتی تقسیم عمل میں آئی ہے۔

دولت کا ارتکاز صرف اور صرف ایک صورت میں ختم ہوسکتا ہے وہ یہ کہ نجی ملکیت کے حق کو انسانی لازمی ضرورتوں تک محدود کردیا جائے۔ دولت جمع کرنے کی ہوس نچلی سطح سے لے کر اعلیٰ سطح تک اس سرمایہ دارانہ نظام میں پاگل پن کی حد تک موجود ہوتی ہے اگر نجی ملکیت کے حق کو محدود کرکے ارتکاز زر کی ہر صورت کو ختم کردیا جائے تو منی ریس خود بخود ختم ہوجائے گی۔ اس پر تفصیلی غور کے لیے یہ مختصر کالم کافی نہیں ہم نے یہاں ایک سرسری جائزہ پیش کیا ہے جس پر تفصیلی گفتگو کی جاسکتی ہے۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website