اوائل سرما کا ایک روشن اور چمکیلا دن تھا۔ دھند چھٹنے لگی تھی۔ نیلگوں آسمان تاحد نگاہ صاف تھا۔ شاہراہ ریشم پر ہماری بس رک چکی تھی اور باوجود کوشش کے سٹارٹ نہ ہونے پر ہم سب طالب علم نیچے اتر گئے اور ہر آنے والی گاڑی کی جانب ہم ایسے دیکھتے کہ اس سے زیادہ متبرک آج کچھ نہیں۔
ارد گرد برف کی دبیز تہہ جمی ہوئی تھی۔ سڑک کے کنارے نیچے نشیب میں تیس سے زائد گھر دِکھ رہے تھے۔ اس چھوٹی سی بستی کی چمنیوں سے نکلتا سیاہ دھواں، پراٹھوں اور توے پر بنتے آملیٹ کی مہک زندگی کی نوید سنا رہی تھی۔ ابھی میں اس ماحول کے سحر میں مکمل طور پر ڈوبنے ہی لگی تھی کہ اچانک سردار اشمل کی آواز نے میرے گرد بنتا وہ سحر توڑ ڈالا۔
“آج “جِن پروفیسر” کی پہلی کلاس ہے تو پیارو اپنی خیر منا لو”۔
اس کی بات سن کے جھرجھری سی آئی، موٹے عدسوں کے پار تیز چبھتی، پھنکارتی نگاہیں تصور میں ابھریں تو حلق میں کانٹے سے ابھرنے لگے۔
“کیا ہے اشمل ہم کوئی نرسری کے بچے ہیں جو ڈرا رہے ہو؟ ”
” بیٹا تم تو ان کی کلاس میں ویسے بھی کھڑی رہتی ہو، آج اک بار اور سہی” عقب سے بیک وقت کئی قہقہے ابھرے۔
“ہاں تو لیٹ ہوں گی، تو کھڑی ہوں گی” عقب سے پھر قہقہے بلند ہوئے اور میں سٹپٹائی… اور جواب دینے کے لیے منہ کھولا ہی تھا کہ سردار اشمل نے اپنی مختصر سی داڑھی سہلاتے ہوئے سب کو سامنے کی طرف متوجہ کیا جہاں ایک بس ہماری طرف ہی آرہی تھی۔
بس ہمارے قریب آ کر رکی اور ہم سب اس میں بیٹھ گئے۔ ہمارے یہاں کا سفر پنڈی، اسلام آباد کی طرح تکلیف دہ نہیں ہوتا۔ جگہ جگہ گاڑی نہیں رکتی۔ بس ایبٹ آباد کے قریب موڑ زرا خطرناک ہونے کی وجہ سے دل ڈرتا ہے مگر جب آپ مسلسل سفر کے عادی ہوں تو پھر اردگرد کے حسین مناظر آپ کو اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں۔
میں جس سیٹ پر بیٹھی تھی وہاں میرے ساتھ ہی ایک قانون کی طالبہ بھی بیٹھی تھی۔ جارجٹ کے دوپٹے میں ملبوس یہ کافی ماڈرن لڑکی لگ رہی تھی۔ اس نے انتہائی تیز مگر اچھے برانڈ کی خوشبو لگائی ہوئی تھی جو اس کے اعلیٰ ذوق کا پتہ دے رہی تھی۔ اس کے اچھے حلیے کے باوجود اس کی بے چینی صاف نظر آ رہی تھی۔ اس سے پہلے کہ میں اس سے کچھ پوچھتی وہ لڑکی میرے کندھے پر شدید دباؤ ڈالتے ہوئے پیچھے مڑی اور چیختے ہوئے بولی،
“تمھیں شرم نہیں آتی منہ پر داڑھی رکھی ہے اور حرکتیں دیکھو، تم کیا اپنی بیٹیوں کے ساتھ بھی ایسی حرکتیں کرتے ہو؟ ”
مخاطب شخص جھینپ گیا۔
لڑکی بولتی گئی اور میرے کندھے پر اس کے ہاتھ کا دباؤ بھی بڑھ گیا۔ اچانک گاڑی کے بریک چرچرائے اور گاڑی رک گئی، ڈرائیور مڑا ” کیا بات ہے “؟
ڈرائیور پٹھان تھا۔ پشتو میں انتہائی درشت لہجے میں بولا” بھائی صیب فوراً اترو، ایک منٹ کا دیر نہ ہو”
” ہم نے پیسہ دیا ہے، مفت میں نہیں بیٹھا”مخاطب شخص منمنایا
ڈرائیور کے منہ سے ایک موٹی سی گالی برآمد ہوئی
“اتر جلدی، چل ”
اب جو صاحب پیچھے کی سیٹ سے اٹھے وہ ادھیڑ عمر کے بابا جی تھے۔ سرخ خضاب سے تر بتر داڑھی، آنکھوں میں سرمہ اور ہاتھ میں تسبیح، دل بے تاب کو انھیں مزید تکنے کی ہمت نہ ہوئی۔ میں نے زور سے آنکھیں میچ لیں۔
دل ہی دل میں ان پر دو حرف بھیجے اور پھر میں عجیب یاسیت میں گھر گئی۔ میرے پہلو سے لگی لڑکی جو کافی خود اعتماد سی لگتی تھی اب اپنا سارا اعتماد کہیں کھو چکی تھی۔ اس کے بدن کی کپکپاہٹ اور دبی دبی سسکیاں مجھے بھگونے لگیں تھیں۔ میں اس کا دکھ سمجھ سکتی تھی۔
میں اور وہ ایک دوسرے سے بہت مختلف نظر آتے تھے۔ ہماری دنیائیں مختلف تھیں، سوچ مختلف تھی پہناوے مختلف تھے۔ ہم میں کچھ بھی تو مشترک نہ تھا سوائے ہماری جنس کے۔ اس پدرسری سماج میں لڑکی ہونا آسان نہیں ہے۔
بسوں، ویگنوں اور دیگر عوامی سواریوں میں اکثر لڑکیوں کے ساتھ ہی ایسا ہی ہوتا ہے۔ ہر باہر نکلنے والی عورت چاہے سٹوڈنٹ ہو یا آفس ورکر اسے لوگ اسی طرح عجیب نظروں سے دیکھتے ہیں۔
تعلیم زدہ اس معاشرے میں یقیناً تربیت کی کمی ہے۔ ہم اپنے مردوں کو عورت کی عزت کرنا سکھا ہی نہیں سکے۔ ہم نے اپنی بچیوں کو ایسے واقعات کے خلاف بولنا بھی نہیں سکھایا۔ اس پدرسری سماج میں جو ایک چیز ہم نے اپنے عورتوں کو سکھائی ہے، وہ ہے خاموش رہنا۔اس کے ساتھ کچھ بھی ہو اسے بس خاموشی سے اس سب کو برداشت کرنا ہے۔
ہمارے معاشرے کی ہر لڑکی جنسی تشدد کا نشانہ بنتی ہے۔ المیہ تو یہ ہے کہ ہم اس جنسی تشدد کو اب کوئی جرم بھی نہیں سمجھتے بلکہ ہمارے نزدیک یہ عورتوں کی ہی غلطی ہوتی ہے۔ اس معاشرے نے تو عورتوں کی مدد نہیں کرنی اب انہیں خود سوچنا چاہئیے کہ وہ کیسے جینا چاہتی ہیں، گھٹ کر یا اعتماد کے ساتھ؟
لڑکیوں پر فقرے کسنا، جسم چھونا، معنی خیز انداز میں گفتگو کرنا، گانے گا کر فحش اشارے کرنا، کہنی مارنا جیسی غلیظ حرکتیں چند لمحوں کو مرد کو تسکین تو دیتی ہیں مگر اس کا اس بے چاری لڑکی پر کیا اثر ہوتا ہے، اس کا بیان بھی ممکن نہیں۔
دوسروں کو قائل کرنے سے بھی پہلے خود کو قائل کرنا سیکھ لیں کہ اگر آپ کو کوئی ہراساں کر رہا ہے تو اس میں آپ کی کوئی غلطی نہیں ہے۔ اگر کوئی آُپ کو موردِ الزام ٹھہراتا ہے تو وہ بھی غلط ہے۔ ہمارے معاشرے کی عدالت میں بھی پہلے لڑکی کو ہی کٹہرے میں کھڑا کیا جاتا ہے۔ ضرور لڑکی کا لباس، بناؤ سنگھار ہی ایسا ہوگا جو دوسرے کو متوجہ کرنے کا باعث بنا، مگر ااس “دوسرے” کو اس حیوانی احساس سے بَری کر دینا ہمارے پدرسری سماج کی وہ روائیت ہے جس کے خلاف سوچنا بھی ممنوع ہے۔
لڑکیوں کو یہ یادرکھنا ہے کہ اگر کسی نے ہراساں کیا تو اس وقت شرم سے چپ ہو جانا مجرم کو مزید طاقتور کرنے کے مترادف ہے۔ اس ظلم کے خلاف بولیں تاکہ ان کی حوصلہ شکنی ہو۔ پبلک پلیس پر ایسا ہونے کی صورت میں اپنی بات کو پر اعتماد طریقے ، مضبوط لب ولہجے کے ساتھ باوقار انداز میں سامنے لائیں۔ مسکرائیے نہیں، نہ ہی شرمیلا انداز اختیار کریں کیونکہ آپ حق پر ہیں۔
ہمارے ہاں خواتین پختون معاشرے کی سخت گیر روایات کی وجہ سے بھی حرف شکایت زبان پر نہیں لاتیں کیونکہ اس میں خسارہ عورت کا ہی ہے۔
اب وقت آگیا ہے کہ ان روایات کو بدلا جائے ورنہ یہ ناسور بن جائے گا جو ہماری عورتوں کے لیے سانس لینا بھی مشکل بنا دے گا۔