counter easy hit

راولپنڈی میں دیسی کشتی کا تاریخی اکھاڑہ… قصہ گاما پہلوان، اور آم کا تاریخی درخت

.راولپنڈی دیسی کشتی کا تاریخی اکھاڑہ…قصہ گاما پہلوان،اور آم کا تاریخی درخت
Rawalpindi historical ring of desi boat.... Gama pehlwan story, and historical tree of Mango.راولپنڈی: (اصغر علی مبارک) راولپنڈی کا دیسی کشتی کا تاریخی اکھاڑہ داد پہلوان 1920سے قائم ھے جو قیام پاکستان سے فن پہلوانی کی خدمت کر رھا یہ 1952کا ذکر ھے جب داد پہلوان نے رستم راولپنڈی کا اعزاز جیتا اسکے بعد اکھاڑہ کسی نہ کسی طور پر آباد رھا .چند روز قبل ایک آم درخت کٹتے دیکھا تو پنڈی پریس کلب سے ملحق اکھاڑے میں جا پونچا جہاں پر بلتستان کے ٹھیکیدار نے معذرت خوانہ انداز میں بتایا کہ بلتستان میں آم کے درخت نہیں ھوتے اس لئے لا علمی میں درخت کٹ گیا ،اس بحث و تکرار میں معلوم ھوا کہ یہ ایک سو سال پرانا آم کا درخت تھا جو دیسی کشتیوں کے اکلوتا اکھاڑا کے وقت سے تھا جس پر آم بھی لگتے تھے تاریخی اکھاڑہ داد پہلوان میں دنیا کے نامی گرامی پہلوان اترے اور آم کے درخت تلے بیٹھ کر اس فن کو فروغ دینے کی باتیں کرتے ،آم کے درخت نے کمپنی باغ میں دو وزیراعظموں کی شہادت دیکھی ،اور آج ایک ٹھکیدار کی لاعلمی سے شہید ھو مجھے احساس ہوا کہ بلکل اسی طرح روایتی کھیل بھی نام نہاد کھیلوں کے ٹھکیداروں کے ہاتھوں تباہ برباد ھو رھے ھیں ،تاھم تاریخی اکھاڑہ داد پہلوان کے انچارچ محمّد سعد کا کہنا ھے کہ دیسی کشتی کے فن کی ترقی کے لئے مو جودہ حکومت مثالی اقدامات کررہی ہے انہوں نے بتایا کہ تاریخی اکھاڑہ داد پہلوان کی آرئش و تزین کے لئے ایم این اے ملک ابرار احمد ،حنیف عباسی،شکیل اعوان نے خصوصی فنڈز جاری کروا کر اس فن کو پھر سے زندہ کردیا ہے انہوں نے بتایا کہ قیام پاکستان سے پہلوان الله داد پہلوان رستم راول پنڈی 1952، رمضان پہلوان، امجد قادری پہلوان، خلیفہ وریام پہلوان اس تاریخی اکھاڑہ داد پہلوان 1920 سے سرپرستی کرتے رھے انکے مشن کو کمیٹی اکھاڑہ سرپرست اعلی الله بخش پہلوان، رمضان خان پہلوان خلیفہ، ریاست پہلوان، ملک مقصود عالم پہلوان، ملک جاوید ،شیخ جاوید، حاجی الفت پہلوان کی بھرپور کوششوں سے اکھاڑہ داد پہلوان کا مشن جاری و ساری ہے جس سے اپ گریڈشن کا عمل شروع ھوا، دیسی کشتی اب بھی نوجوان نسل کے دلچسپ دیگر کھیلوں میں سے ایک ہے،،، قارئین محترم تقریبآ ،چالیس برس پہلے انوکی اور جھارا پہلوان کا رنگ میں گھمسان کا رن پڑا تھا۔ لیکن اس کے بعد دونوں میں ہوئی دوستی کی شروعات ہوئی۔

 

چند سال قبل کورین پہلوان انوکی پاکستان آ ہے تو وہ سیدھا پہلوان بھولو پہلوان کی قبر پر گے یہ درست ھے کہ بھولو اور جھارا پہلوان کی موت کے بعد پاکستان میں دیسی کشتی بھی دفن ہوگئی آج جھارا پہلوان دنیا میں نہیں مگر انوکی نے دوستی کا حق ادا کر دیا۔ جھارا کے بھتیجے ہارون پہلوان کو انوکی چند سال پہلے جاپان لے گیا تھا جس کو اس نے جدید اور دیسی کشتی کا پہلوان بنا دیا ہے۔ ہارون پہلوان اب رنگ میں اترنے کو تیار ہے۔ جھارا کے اہلخانہ آج انوکی WhatsApp Image 2018-01-23 at 2.10.28 AM WhatsApp Image 2018-01-23 at 2.10.27 AM WhatsApp Image 2018-01-23 at 2.10.18 AM WhatsApp Image 2018-01-23 at 2.10.17 AM WhatsApp Image 2018-01-23 at 2.10.16 AM (1) WhatsApp Image 2018-01-23 at 2.10.16 AM WhatsApp Image 2018-01-23 at 2.10.15 AM WhatsApp Image 2018-01-23 at 2.10.15 AM (1) WhatsApp Image 2018-01-23 at 2.10.14 AM WhatsApp Image 2018-01-23 at 2.10.14 AM (1) WhatsApp Image 2018-01-23 at 2.10.13 AM WhatsApp Image 2018-01-23 at 2.10.13 AM (1)کے بہت مشکور نظر آتے ہیں کیوں کہ انہوں نے انکے خاندان کو ایک بہترین پہلوان دیا ہے۔ وہ ہارون پہلوان کی تیاری سے مطمئن ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ہارون رواں سال پاکستان کی جانب سے جونیئر سطح کے مقابلے کھیل سکتا ہے۔گزشتہ سال لاہور میں ہونے والا شیر پنجاب دنگل کا ٹائٹل ڈیرہ غازی خان کے پہلوان عمیر نے اپنے نام کر لیا لیکن ہارون کو ابھی منظرعام پر پیش نہ کیا گیا۔ رستم زماں گاماں پہلوان دنگل کیلئے ہر جوڑ پر شائقین کا جوش و خروش قابل دید تھا، ٹائٹل فائٹ ڈیرہ غازیخان کے عمیر پہلوان اور فخر لاہور مالو پہلوان کے درمیان ہوئی،دونوں پہلوانوں میں 17 منٹ تک کانٹے دار مقابلہ جاری رہا، بالآخر ڈی جی خاں کے پہلوان نے فخر لاہور کو چت کرکے شیر پنجاب کا ٹائٹل جیت لیا۔ پنجاب اسٹیڈیم میں آج مجموعی طور پر 20 جوڑ پڑے، نمایاں دنگل شہوار پہلوان اور بلال پہلوان نے جیتے، جبکہ تاری پہلوان اور گنگا پہلوان کے درمیان مقابلہ برابر رہا۔ اس میں کوئی شک نہی کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کی ہدایت پر دیگر کھیلوں کی طرح دیسی کشتی کو بھی پروموٹ کیا جا رہا ہے، پہلوانوں کا مطلبہ رہا ہے کہ دنگل جیتنے والے پہلوانوں کو عالمی مقابلوں میں بھیجا جائے مزید یہ کہ دنگل تین سال کی بجائے ہر سال ہونا چاہیے تاکہ دیسی کشتیاں پاپولر ہو سکیں ،قارئین محترم … پاکستان کے پہلوان آج بھی اکھاڑے میں گاما کا نام لے کر داخل ہوتے ہیں جس کا عملی مظاہرہ متعدد بار دیکھنے کو ملا، پاکستان میں فن پہلوانی کےعروج و زوال کا قصہ اتنا ہی پرانا ہے جتنا خود پاکستان پرانا ہے، تقسیم ہند کے بعد پاکستان میں دیسی کشتی کے فن کو پنجاب کی دھرتی نے خاص جلا بخشی اور پاکستان کے دو شہروں لاہور اور گوجرانوالہ اِس فن کے گڑھ قرار پائے۔گوجرانوالہ کو تو پہلوانوں کا شہر بھی کہا گیا اور اس کی یہ عرفیت آج بھی برقرار ہے۔ دیسی کشتی کے معدوم ہوتے ہوئے اِس روایتی کھیل و فن پر ابھی تک سرکاری ، غیر سرکاری سطح پر کوئی خاص سرپرستی نظر نہی آتی ،دیسی کشتی کے پہلوانوں کو خطاب کے ساتھ گرز دینے کی روایت تقریباً 400 سال پرانی ہے۔ برصغیر میں فنِ پہلوانی مغلوں کی آمد کے ساتھ وارد ہوا اور جلد ہی اس نے عوام میں مقبولیت حاصل کرلی۔ تقسیم کے بعد پاکستان میں پہلوانی کا مرکز لاہور بنا، جہاں تقریباً 600 اکھاڑے تھے جہاں دس ہزار کے قریب نوجوان تربیت حاصل کیاکرتے تھے۔ ان نوجوانوں کو تربیت دینے والے نام ور پہلوان اور خلیفے ہوا کرتے تھے۔ پہلوانوں کی تربیت اوائل عمر سے ہی شروع ہو جاتی اور 20 سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے نوجوان اپنی مضبوط جسامت سے پہلوان معلوم ہوتا۔ ان پہلوانوں کو دن میں کم ازکم پانچ گھنٹے کسرت کرائی جاتی جو بالعموم سہ پہر تین بجے شروع ہوتی اور بعدازاں دو گھنٹے انہیں اکھاڑے میں زور کرنا ہوتا تھا۔ اگرچہ پوری دنیا میں کشتی کا انداز بدل چکا ہے اور آج امریکا اور مغرب میں فری سٹائل ریسلنگ کا دور دورہ ہے تاہم آج بھی بڑے بوڑھے دیسی کشتی میں کشش محسوس کرتے ہیں۔برصغیر کے صدیوں پرانے روایتی کھیلوں میں دیسی کشتی کو آج بھی ایک خاص مقام حاصل ہے مگر یہ کھیل جس تیزی کے ساتھ زوال پذیر ہے اس کو دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ بہت جلد ناپید ہو جائے گا حال آں کہ اس کھیل کو نسل در نسل منتقل ہونے والا فن کہا جاتا ہے۔ پاکستان میں ایک عرصے سے روایتی کشتی کے اکھاڑے ویران ہو رہے ہیں،کیوں کہ موجودہ عہد میں دیسی کشتی کا کھیل بہت منہگا ہو چکا ہے۔ایک پہلوان کی روزانہ کی خوراک ایک ہزار سے دو ہزار تک ھے ،کیوں کہ پہلوان بننے کے لیے بہت زیادہ خوراک کی ضرورت ہوتی ہے اور منہگائی کے سبب یہ شوق اب عام آدمی کے بس کی بات نہیں، پھر اس کھیل کو دوسرے کھیلوں کی طرح سرکاری سر پرستی بھی حاصل نہیں‘‘۔ پاکستان میں یہ کھیل اب بھی کافی مقبول ہے تاہم مٹی کے اکھاڑے سے زیادہ اب یہ میٹ پر لڑی جاتی ہے، دیسی کشتی اب صرف چند شہروں تک محدود ہو چکی ہے‘‘جن میں راولپنڈی ،لاہور ،گوجرانوالہ شامل ھیں ، حکومتی سر پرستی نہ ہونے کی وجہ سے اب تو پاکستانی پہلوانوں کا تاب ناک ماضی بھی لوگوں کی یادوں سے مٹتا جا رہا ہے۔ وہ اکھاڑے جو ہزاروں کا مجمع کھینچتے تھے، اب ویران ہوتے جا رھے ہیں۔ 1991 میں 31 سال کی عمر میں جھارا کے انتقال کے ساتھ ہی بھولو خاندان کی میراث بھی گْم ہوگئی کیوں کہ ان کے چھوٹے بھائی عابد نے پہلوانی کے تاریک مستقبل کو دیکھتے ہوئے تجارت شروع کردی۔ بھولو خاندان 1850 سے فن پہلوانی میں نام ور تھا۔ بھولو خاندان کی دھاک بٹھانے والی نسل کو اس خاندان کی گولڈن جنریشن کہا جا تا رھا ، جن میں بھولو برادران، اعظم، اسلم، اکرم اور گوگا شامل تھے۔ یہ عظیم پہلوان مینار پاکستان کے سامنے حضرت گنج بخش ہجویری کے مزار کے عقب میں واقع اکھاڑے میں کسرت اور تیاری کیا کرتے اور عالمی سطح پر چیمپیئن تسلیم کیے جاتے تھے۔ پاکستان میں کْشتی کے حوالے سے اس معروف خاندان کا اکھاڑا اس فن کے نام ور پہلوان پیدا کرتا رہا تاہم بعد ازاں اکھاڑا ویران ہو گیا ۔ بھولو برادران برگد کے صدیوں پرانے ایک درخت کے نیچے دفن ہیں، جو ان کے سابق اکھاڑے کے کنارے کھڑا ہے۔ صفائی کرنے والے کارکن قبرستان کی صفائی تو کرتے ہیں مگر کچا اکھاڑا اور اس کے قریب ہی ورزش کے لیے بنائے گئے جِم اور چھوٹے سے اجاڑ باغیچے پر ہر وقت ایک پراسرار خاموشی طاری رہتی ہے۔ بھولو پہلوان نے 1953 میں امریکی پہلوان تھیز لوھ اور بھارتی پہلوان دارا سنگھ کو چیلنج کیا تھا تاہم اس وقت کے عالمی چیمپیئن دونوں پہلوانوں نے ان کا چیلنج قبول نہیں کیا۔ انہوں نے 1967 میں عالمی سطح پر بھولو کی جانب سے یہ چیلنج دیا کہ جو کوئی بھی انہیں ہرائے گا وہ انہیں پانچ ہزار برطانوی پاؤنڈ انعام دیں گے، اسی برس انہوں نے اینگلو فرنچ ہیوی ویٹ چیمپئن پیری ہنری کو لندن میں پچھاڑ کر ورلڈ ہیوی ویٹ کا ٹائٹل جیتا۔،پاکستان نے دنیا کے چند عظیم ترین پیدا کیے جن کے سرخیل بھولو برادران رھے ہیں۔ انہوں نے دیسی کشتی کے میدان میں اپنی کام یابیوں کے جھنڈے گاڑے ہیں۔ بھولو پہلوان شاید دنیا کے بہترین پہلوان تھے۔ پھر بھولو پہلوان کے بھائی اسلم پہلوان، اعظم پہلوان چیمپیئن آف فار ایسٹ، اکرم پہلوان چیمپیئن آف مڈل ایسٹ اینڈ سنگاپور اور ان کے سب سے چھوٹے بھائی گوگا پہلوان آل ایشیئن چیمپیئن خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ بھولو برادران کے بڑے مخالف پہلوانوں کا تعلق پاکستان اور بھارت سے ہی تھا۔ ان میں حاجی افضل پہلوان اور بھولا گاڈی پہلوان خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ بھولو برادران نے جن غیر ملکی پہلوانوں کو شکست دی ان میں مایہ ناز برطانوی ریسلر برٹ اسیراتی، کینیڈا کے جارج گورڈیانکو اور پال واشن (بْچر)، مسٹر یونیورس ارل مینارڈ اور آسٹریلوی ریسلر رائے ہیفرنان خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔گوگا پہلوان نے ہی بھارتی چیمپیئن گنپت اندراکر کو 55 منٹ کے مقابلے میں شکست دی تھی۔ دیگر نام ور پہلوانوں میں یونس گوجرانوالیہ، یاسین شریف، حاجی افضل، ازل پہلوان فرزند گونگا پہلوان اور کالا پہلوان قابلِ ذکر ہیں، اس وقت تک زمانہ ہی بدل چکا ھے کشتی اکھاڑے سے میٹ پر پہنچ چکی ھے ، کشتی کا جو مزہ کھلی فضا، ڈھول کی تھاپ اور دیسی اکھاڑے میں آتا ہے، وہ بند ہال نما کمروں میں ھرگز نہیں ھے پاکستان میں دیسی کشتیوں کے زوال کے ذمہ دار حکمران ھیں اگر حکمران دیسی کشتی کی سرپرستی نہ چھوڑتے تو آج بھولو پہلوان، جھارا پہلوان کا نعم البدل ھوتا، دلچسپ حقیقت یہ ھے کہ پرو ریسلنگ کے ا نٹرنیشنل ریسلرزنے گزشتہ سال دورہ پاکستان میں دیسی کشتی کے اکھاڑوں کا دورہ کیااورپاکستانی پہلوانوں کی ۔پروفیشنل ریسلرزسے اکھاڑے میں دیسی پہلوانوں سے ملاقات کیں ۔ انٹرنیشنل ریسلرز نے دیسی کشتی کے پاکستانی استادوں سے تکنیک سیکھنے کی کوشش کی ۔ میرا تعلق پہلوانوں کے شہر گوجرانوالہ سے ھے جہاں میرے نانا دادا کے خاندان قیام پاکستان سے مقیم تھے گوجرانوالہ پاکستان کا ساتواں بڑا شہر ہے، پہلوانوں کا شہر کہلاتاہے۔ آزادی کے بعد تمام نام ور پہلوانوں کا قیام گوجرانوالہ میں رہا
گوجرانوالہ شہر میں پہلوان جوکبھی دِن بھر کسرت اور کشتی کرتا تھا، دودھ مکھن سے جان بناتا اور ڈنڑ پیل کر چھاتی تھپتھپاتا اور شام پڑے شعر و سخن اور رقص و موسیقی کی آغوش میں مزاج کو سرشار رکھتا مگر اب پہلوانوں کی اولادیں لنگوٹے چھوڑ، رنگلی ٹائیاں باندھے اکاؤنٹینسی اور آئی ٹی پڑھنے میں لگے ہیں۔ دست و بازو کی طاقت کو پروان چڑھانے والی کسرت، تن سازی اور جسمانی ریاضتوں کی ثقافت نے پنجاب کے روایتی چکنے اور لحمیاتی کھانوں کی روایت کو گوجرانوالہ میں ایک منفرد انداز بخشا تھا۔ دودھ، گھی، گوشت، مکھن اورخشک میووں سے بنے دَم دار کھاجے اور مشروب یہاں کی خاص شناخت تھے۔
تیز مصالحوں کو یہاں بہت بعد میں شرفِ قبولیت ملا لیکن اب یہ ہر ڈھابے کے باورچیوں کی ترکیب میں شامل ہیں۔ بھنے ہوئے بٹیر، چِڑے اور مرغ تیار کرنے اور کھانے کھلانے میں یہاں کے باسیوں کے ذوق پر اہلِ لاہور تک رشک کرتے ہیں۔ دَنگل اور اکھاڑوں میں یہ شہر لاہور کے پہلوانوں کے لیے برابر کی ٹکر رکھتا ہے۔ اس کھیل میں لاہور اور امرتسر اس کے روایتی حریف رہے ہیں لیکن پہلوانوں کا شہر کہلانے کا اعزاز اسی شہر کے حصے میں آیا۔روایتی پہلوان چوں کہ بچپن ہی سے لنگوٹ باندھ کر صبح شام اکھاڑے میں ڈنڈ بیٹھکوں اور داؤ پیچ کے شغل میں رہتے تھے، اس لیے یہ کام سماجی طور پر ایک طرح کے تیاگ کا کام سمجھا جاتا رہا ہے۔ یہ ہی وجہ تھی کہ پہلوانوں کی اکثریت جسمانی طور پر جتنی قوی اور ناقابلِ تسخیر ہوتی، ان کی باطنی شخصیت اتنی ہی کھری اور سادہ ہوتی تھی۔ گوجرانوالہ کے ایک ڈھابے میں بٹیر کھاتے ہوئے ایک جدید وضع کے نوجوان سے جب‘‘پہلوانوں کے شہر’’ کا ذکر چھیڑا تووہ بے زار ہو کر کہنے لگا ’’یہاں اب ماضی جیسے بڑے پہلوان پیدا نہیں ہوتے اور پہلوان تو دوسرے شہروں میں بھی رہے ہیں، اسے صرف انسانوں کا شہر کہا جائے، پہلوانوں کا نہیں‘‘۔یہ میری خوش قسمتی تھی کہ زمانہ طالب علمی میں مونٹریال اولمپک کے گولڈ میڈلسٹ انٹرنشنل پہلوان جناب سراج الدین عرف ساجھا پہلوان کی شاگردی میں تین سال موغلپورہ لاہور انکی خدمت کا شرف حاصل رھا اور انکے بیٹے کو ہرانے کا اعزاز حاصل ھوا جناب سراج الدین عرف ساجھا پہلوان درویش صفت اسی سالہ بزرگ پہلوان کا بچپن، جوانی، بھارت سے پاکستان ہجرت، پاکستان میں پہلوانی کے فروغ کے لیے ان کی کوششوں اور بڑھاپے میں دنگل کے منصف کی حیثیت سے فرائض پر مشتمل رہا انکا کہنا ھے کہ دیسی گھی کے بجائے سرسوں کا تیل خوراک کا حصہ ہوتا تھا ہمیشہ چھوٹے گوشت کا قیمہ استعمال کیا، کسرت کے دوران ہمیشہ کچا دودھ پیتا اور اُس زمانے میں ہرا قہوہ روزمرہ خوراک کا لازمی جزوتھا،انکا کہنا تھا کہ آج کے بچوں کو پہلوانی کا علم ہی نہیں کہ یہ فن ہے کیا؟ یہ فن خدا سے قرب کا سب سے اعلیٰ اور صحت مند ذریعہ ہے۔ دیسی کشتی کا خالص اور کھرا پہلوان تو ولایت کے مرتبے پر فائز ہوتا ہے، وہ طاقت کا پہاڑ بن کر عجز اور انکساری کا پتلا بن جاتا ہے، جب وہ اپنے لنگوٹ کی حفاظت کرتے ہوئے اپنے اندر نفس امارہ کو مارتا ہے تو کسی ولی اللہ سے کم نہیں ہوتا، جب غصہ اُس کے سامنے سر جھکا دیتا ہے تو اُس جیسا کوئی بہادر نہیں ہوتا، جب پہلوان خاتون کے احترام کو ہر حال میں اپنے اوپر لازم قرار دے دیتا ہے تو وہ خدا کے اسرار ’’عورت‘‘ سے بھی مکمل واقف ہو جاتا ہے، جب وہ پو پھٹنے سے قبل اٹھ کر اکھاڑے میں اترنے سے قبل خدا کے حضور سجدہ ریز ہوتا ہے اور توبہ کرتا ہے تو اس کی یہ توبہ فوراً قبول ہو جاتی ہے، یہ راز کی بات ہے۔ سچے اور کھرے پہلوان کی توبہ ہمیشہ قبول ہوتی ہے، یہ فن صرف کھانے پینے اور ورزش کرنے کا نام نہیں، یہ اللہ کے سامنے خود کو مٹانے کا نام ہے۔
اُس زمانے میں اکھاڑے خلیفوں کی زیر نگرانی چلا کرتے تھے، پہلوانی امور کے یہ ماہر جن کو عرف عام میں ’’خلیفہ جی‘‘ کہا جاتا تھا، وہ لوگ ہوتے تھے جن کے دم سے یہ فن اب تک زندہ رہا ۔ خلیفہ ایک ٹائٹل ہوتا ہے، جو پہلوانوں کی خوراک، ہڈیوں کی نشوونما، ہڈیوں کو جوڑنے، پہلوانوں کو لاحق بیماریوں کی دیسی ادویات تیار کرنے، کشتی کی تیاریوں کے مختلف مراحل، اکھاڑے کی مٹی اور کسرت کے اوزار کی تیاری، لنگوٹ کی حفاظت (جنس مخالف)، شیخی بگھارنے کی عادت سے چھٹکارا اور غصے پر قابو پانے کی عادت کے خاتمے کے ہنر سے واقفیت ، کن ٹوٹے ، بدمعاشوں اور چور اچکوں کو قابو میں رکھے اور خواتین کو دیکھ کر نظروں کو جھکائے رکھنے جیسے اخلاق سکھاتا تھا۔ خلیفہ کا لقب اُس شخص کو دیا جاتا تھا، جس کی بات پہلوان ٹال نہیں سکتے تھے اور اُسے باپ کادرجہ دیتے تھے۔ خلیفہ ہی نئے پہلوان کو کسی بڑے پہلوان کا شاگرد بنانے کی رسم ادا کرتا تھا، گو وہ خود پہلوان نہیں ہوتا مگر ’’پہلوان گر‘‘ ضرور ہوتا ہے۔،رستمِ زمان غلام حسین عرف گاما پہلوان ولد عزیز بخش پہلوان نے نو سال سے کم عمر میں 400 پہلوانوں کے مقابلہ میں رستمِ ہند کا اعزاز 1887 – 1886میں جیتا، لندن 1910 میں دنیا بھر کے 200 سے زیادہ پہلوانوں کو ہرا دینے کے بعدگاما پہلوان نے “رستمِ زمان” یعنی ورلڈ چیمپین کا اعزاز حاصل کیا، گاما پہلوان نے مقابلوں سے پہلے اعلان کیا تھا کہ جو بھی پہلوان میرے مقابلے میں آئے گا اسے 5 منٹ میں چت کروں گا، گاما کو پہلے اس مقابلے میں شرکت کی اجازت نہیں اس بنیاد پر نہیں ملی کہ وہ مقابلہ ہیوی ویٹ کا تھا اور گاما کا وزن ان مقررہ حدود سےکم تھا. لندن کے فائینل میچ میں ہارنے والے امریکی پہلوان زبسکو کی 17 سال کی تیاری کے بعد گاما کو دوبارہ مقابلہ کیا مگر گاما پہلوان کی فتح رھی ، گاما کی جیت پر ملکہ وکٹوریہ نے ا فخریہ بیان دیا کہ “ گاما پہلوان ہے تو ہماری ہی نو آبادی کا”اس وقت مقابلے میں دنیا کے نامی گرامی پہلوانوں کا کہنا کہ گاما جادوگر پہلوان ھے -دل کے دورے سے پہلے تک 77 سال کی عمر میں لاہور سے پوری دنیا کے پہلوانوں گاما پہلوان چلینج کیا ،لیکن کسی کی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا ،تاھم امریکی باکسر جو لویس Joe Lewis نے کہا کہ باکسنگ کرنی ہے تو میں مقابلہ کے لیے تیار ہوں- گاما کا جواب تھا کہ تم اپنا ہنر دکھاؤ اور میں اپنا، مقابلہ کر لیتے ہیں، اس کے بعد جو لویس کی طرف سے بھی جواب نہ آیا ،،، اپنی وفات تک گاما ناقابلِ شکست رہا، اس نے زندگی میں اتنے مقابلے لڑے کہ خود بھی گنتی نہ کر سکا، سوائے گوجرانوالہ کے رحیم بخش پہلوان کے جس سے تین مقابلے برابر رہے مگر چوتھے اور آخری مقابلے میں گاما انہیں زیر کرنے میں کامیاب ہوسکا، ساری زندگی گاما نے رحیم بخش کی طاقت، بہادری عظمت اور فن کا اعتراف کیا، جو اس کی انکساری کا ثبوت ہے-اس خاندان کا ایک اور عظیم نام گاماں کے چھوٹے بھائی امام بخش پہلوان کا بیٹا رستمِ زمان بھولو پہلوان تھے ، جس نے 1967 میں لندن کے ایمپائیر پول ویملے سٹیڈیم میں فرانس کے ہیوی ویٹ چیمپین ہنری پیجری لٹ کو تیسرے راؤنڈ میں ناک آؤٹ کر کے رستمِ زمان کا اعزاز حاصل کیا تھا-آج ہمارے وطن میں کوئی بھی نہ گاما کے نام سے واقف ہے اور نہ ہی اس کے کام سے،عظیم پہلوان غلام محمد (گاما)اور امام بخش پہلوان بر صغیر کے شہرۂ آفاق گاما پہلوان1880 میں امرتسر میں پیدا ہوئے، قدیم فنِ پہلوانی کے پاس بانوں سے تھے۔ 15 اکتوبر 1910 کو انہیں جنوبی ایشیائی سطح پر ورلڈ ہیوی ویٹ چیمپئن شپ کے اعزاز سے نوازا گیا۔ پہلوانی کی تاریخ میں وہ واحد پہلوان ہیں جنہیں 50 سال سے زیادہ عرصہ پر محیط کیریئر میں کوئی بھی چِت نہیں کر سکا۔ گاما کا تعلق کشمیری بٹ خاندان سے تھا۔غیر منقسم ہندوستان میں ریاست ’’دتیا‘‘ کے حکم ران بھوانی سنگھ نے نوجوان گاما اور ان کے بھائی امام بخش کی سرپرستی کی۔ گاما کو اصل شہرت اس وقت ملی جب انہوں نے 19 سال کی عمر میں 7 فٹ بلند قامت انڈین ریسلنگ چیمپیئن رحیم بخش سلطانی والا کو چیلنج کیا، جو خود بھی گوجرانوالہ کا بٹ تھا جب کہ گاما محض 5 فٹ 7 انچ قد کا حامل تھا۔ یقین تھا کہ وہ گاما کو سیکنڈوں میں چت کردے گا لیکن تھا وہ ادھیڑ عمر اس کا مقابل گاما نوجوان تھا اور بے انتہا دم خم رکھتا تھا سو مقابلہ برابر رہا۔ 1910 تک سوائے رحیم بخش کے وہ ہندوستان کے تمام نامی گرامی پہلوانوں کو شکست دے چکے تھے۔بعد ازاں مغربی پہلوانوں کا مقابلہ کرنے وہ اپنے بھائی کے ساتھ بحری جہاز کے ذریعے انگلستان پہنچے، ان کا پہلا مقابلہ امریکی پہلوان بنجامین رولر عرف ’’ڈوک‘‘ سے ہوا جسے اِنہوں نے پہلی بار ایک منٹ 20 سیکنڈ میں اور دوسری بار 9 منٹ 10 سیکنڈ میں زیر کیا۔ دوسرا مقابلہ اسٹینی سیلس زبسکو سے 17 ستمبر 1910 کو ہوا جسے شکست دے کر گاما نے نہ صرف 250 پاؤنڈ کی انعامی رقم اور ’’جون بُل بیلٹ‘‘ جیتی بل کہ ’’رستمِ زماں‘‘ یا ورلڈ چیمپئن کا خطاب بھی حاصل کیا۔ انگلستان کے دورے میں انہوں نے یورپی چیمپیئن سوئٹزرلینڈ کے جویان لیم، عالمی چیمپیئن سوئیڈن کے جیس پیٹرسن اور فرانس کے مورس ڈیریاز کو بھی شکست سے دوچار کیا۔ قیامِ پاکستان کے بعد وہ لاہور چلے آئے جہاں انہوں نے اپنے بھائی امام بخش اور بھتیجوں بھولو برادران کے ساتھ باقی زندگی گزاری۔گاما پہلوان 21 مئی 1960 کو لاہور میں انتقال کر گئے، وزیر اعظم نواز شریف کی اہلیہ بیگم کلثوم نواز رشتے میں گاما پہلوان کی نواسی ہیں۔ گاما کے والد عزیز بخش پہلوان اپنے زمانے کے بہت نام ور پہلوان تھے، ان کی وفات کے وقت گاما پانچ سال کا تھا۔ گامے نے اپنے ماموؤں کے پاس پہلوانی کی تربیت حاصل کی۔ ریاست جودھ پور کے راجا نے ایک عظیم الشان کسرتی مقابلے کا انعقاد کیا جس میں شرکت کے لیے گامے کا چھوٹا ماموں بوٹا پہلوان تیاری کرنے لگا، گاما بھی ان کے ساتھ چلا گیا۔وہاں پہنچ کر گاما نے مقابلے میں شرکت کی ضد کی، مختصر یہ کہ کافی بحث و مباحثہ کے بعد بوٹے پہلوان نے یہ سوچ کر کہ یتیم بچہ رنجیدہ نہ ہو جائے، ریاست کے راجا سے گامے کی شرکت کی سفارش کی، دربار میں موجود ہر شخص یہ سن کر ہنسا، بوٹے پہلوان نے بتایا کہ یہ عزیز بخش کا بیٹا ہے اور شاید مقابلے میں شرکت سے اس کا حوصلہ بڑھے اور آئندہ ایک اچھا پہلوان بنے۔ راجا نے، خود عزیز بخش کا پرستار تھا، اس بات پر گامے کو اجازت دے دی۔ اس مقابلے میں شرکت کے لیے ہندوستان کے گوشے گوشے سے 400 پہلوان آئے ہوئے تھے، مقابلہ دیکھنے کے لیے عوام بھی دور دور سے پہنچے تھے۔ مقابلہ کی پہلی اور آخری شرط یہ تھی کہ جو پہلوان سب سے زیادہ ’’بیٹھکیں‘‘ لگائے گا، جیت جائے گا۔کھیل شروع ہوا، ہر پہلوان نے اپنے دم خم کا خوب مظاہرہ کیا، تھک جانے والے پہلوان کو صرف چند منٹ دم لینے کو دیے جاتے، آہستہ آہستہ پہلوان مقابلہ سے نکلنے لگے، 200 پہلوانوں کے مقابلہ سے نکل جانے کے بعد یہ محسوس کیا گیا کہ ایک بچہ اکھاڑے سے نکل جانے والوں میں شامل نہ تھا، جوں جوں وقت گزرتا گیا، پہلوانوں کی تعداد میں کمی آتی گئی، اس طرح 300 پہلوان میدان سے باہر ہوگئے لیکن وہ بچہ (گاما) اب بھی بیٹھکیں لگا رہا تھا۔ اب سب کی نظر گاما پر مرکوز ہوگئی، ہر طرف سے آفرین کی صدائیں بلند ہورہی تھیں۔آخرکار چودہ پندرہ پہلوان رہ گئے تو راجا نے مقابلہ روکنے کا حکم دے دیا اور آگے بڑھ کر گامے کو سینے سے لگا لیا۔گامے کی اس فتح پر ہندوستان بھر کے اکھاڑوں میں، راجاؤں کے درباروں میں گامے کے چرچے ہونے لگے۔ یہاں سے گامے کی شہرت کا آفتاب طلوع ہوا۔ اس مقابلہ کے بعد کم عمر گامے کے جسم کے پٹھے اور رگیں ایسی کھنچیں کہ کئی ہفتے چارپائی سے اٹھ نہ پایا لیکن جب اْٹھا تو یوں کہ دنیا دیکھتی رہ گئی۔ امام بخش پہلوان ، رستم ہند (1887-1977 )رستم زمان گاما پہلوان کے چھوٹے بھائی تھے۔ انھوں نے لاہور میں کالیا پہلوان اور الٰہ آباد میں حسین بخش ملتانیا جیسے مشہور پہلوانوں کو پچھاڑا اور برصغیر کے طول و عرض میں کئی تاریخی کشتیوں میں کام یابی حاصل کی۔اسطرح منظور حسین عرف بھولو پہلوان بھولو کا اصل نام منظور احمد تھا۔ 1927 میں بھارت کے شہر امرتسر میں پیدا ہوئے۔ رستم ہند امام بخش کے بڑے بیٹے اور رستم زماں گامے پہلوان کے بھتیجے تھے۔ والد اور چچا کی نگرانی میں کشتی کی ترتیت حاصل کی۔ 1994 میں یونس پہلوان کو ہرا کر ’’رستم پاکستان ‘‘ کا اعزاز حاصل کیا اور اس وقت سے روایتی گرز جو اکھاڑے کی بادشاہت کا نشان ہوتا ہے، بھولو پہلوان کی تحویل میں رہا۔ گامے کے انتقال کے بعد انہوں نے دنیا بھر کے پہلوانوں کو کشتی لڑنے کا چیلنج دیا لیکن جن پہلوانوں نے ان کا چیلنج قبول کیا ان سے کہا گیا کہ صرف وہی شخص ان سے کشتی لڑ سکتا ہے جو پہلے ان کے پانچوں بھائیوں کو باری باری پچھاڑ ے گا چناں چہ دنیا کا کوئی بھی پہلوان بھولو سے مقابلے کا اعزاز حاصل نہ کرسکا۔دسمبر 1963 میں ان کو گامے کا جانشین مقرر کیا گیا۔ ان کو گامے کا گرز، سونے کی پیٹی اور زری پگڑی دی گئی۔ گرز 1922 میں گامے کو ایڈورڈ ہشتم نے پیش کیا تھا۔ 1976 میں بھولو پہلوان نے اپنے بھائیوں کے ہم راہ انگلستان کا دورہ کیا اوروہاں کئی غیر ملکی پہلوانوں کو ہرا کر پاکستان کا نام روشن کیا۔ انگلستان سے واپسی پر صدر ایوب نے بھولو برادران کو دو لاکھ روپے انعام دیا۔ 10 ستمبر 1976 کو کراچی میں انہیں سونے کا تاج پہنایا گیا۔ 8 مارچ 1985 میں انتقال ہوا۔ گاما پہلوان 1910 میں ایک کشتی جیتے اور ورلڈ چیمپئین کہلائے۔ لندن ٹائمز نے انہیں سکھ چیمپئین لکھا کیوں کہ وہ مہاراجہ پٹیالہ کے درباری پہلوان تھے۔ دربار اس زمانے میں علوم و فنون کی باقاعدہ سرپرستی کرتے تھے اور کسی بھی فن کا ماہر بڑا قابل احترام سمجھا جاتا تھا۔ یہ فری سٹائل کشتی تھی، جیتنے والا پوری دنیا کا رستم کہلانا تھا۔ پہلے دن جب کشتی شروع ہوئی تو گاما اور زبسکو دو گھنٹے چونتیس منٹ تک اکھاڑے میں لڑتے رہے لیکن ہار جیت کا فیصلہ کچھ نہ ہوا۔ کشتی ملتوی کر دی گئی، ہفتے کے روز دوبارہ مقابلہ ہونا تھا۔ گاما کا وزن اور جسامت زبسکو سے اچھی خاصی کم تھی، ہر دیکھنے والے نے یہ بات خاص طور پر محسوس کی لیکن ان کے داؤ پیچ پر کسی کو شک نہیں تھا۔ زبسکو جو اپنی جگہ خود نامی گرامی پہلوان تھا کشتی کے دونوں دن زیادہ تر وقت دفاعی داؤ پیچ کرتا رہا۔ اور پھر یہ کشتی آخر کار گاما نے جیت لی۔ گاما اب ورلڈ چیمپئین تھے اور ان کے نام کا ڈنکا چار اطراف بجتا تھا لیکن گاما عاجزی اور انکساری کا پیکر تھے۔ ان کے بارے میں تفصیل جاننی ہو تو خواجہ شفیع دہلوی مرحوم نے ایک کتاب ان پر لکھی، حکیم سعید مرحوم نے ذاتی دلچسپی سے نہایت خوب صورت چھاپی، اسے ڈھونڈیے اور پڑھیے۔دیسی کشتی اور کسرت کا شوق کبھی میراث ہوا کرتا تھا۔ صبح تڑکے یار لوگ گھر سے نکل کر اکھاڑے یا کسی باغ کے ایک مخصوص کونے میں چلے جاتے، لنگر لنگوٹ کسا اور ورزش کرنا شروع ہو گئے۔ کوئی ڈنٹر پیل رہا ہے، کہیں بیٹھکیں لگ رہی ہیں، کوئی مگدر گھما رہا ہے، جو اس سب کا شوقین نہیں ہے اس نے سیدھے سبھاؤ اینٹوں اور سیمینٹ کو گھی کے دو ڈبوں میں بھرا، درمیان میں لوہے کا پائپ لگایا، ویٹ لفٹنگ کا بہترین سامان تیار کیا ، کام شروع، ورزش کی آسان ترین قسم یہ ہوتی تھی۔ گاما پہلوان کا نام نئی نسل کے لوگ کم ہی جانتے ہیں لیکن 1910 میں ورلڈ چیمپئین بننے والے گاما نے کم وبیش ستر اسی برس تک عوام کے دلوں پر حکومت کی۔ گاما سے پہلے اور ان کے بعد، کشتی کے مقابلے ہوتے رہے، ایک سے ایک پہلوان آئے لیکن جو شہرت اور عزت گاما پہلوان کے نصیب میں آئی، وہ کسی اور کو نہیں ملی۔تاریخ دانوں کے مطابق ہندوستان میں کشتی کا فن آریہ نسل کے لوگ لے کر آئے۔ مصر میں دریائے نیل کے آس پاس کھنڈرات میں پہلوانوں کے جو مناظر نقش ملتے ہیں ان کے داؤ پیچ تقریباً وہی ہیں جو آج بھی استعمال ہوتے ہیں۔ کشتی کا ذکر وید اور رامائن میں بھی ملتا ہے۔ پہلے راجے مہاراجے سرپرستی کرتے تھے، پھر مغلوں کا دور آیا، اس میں بادشاہ بنفس نفیس دنگل دیکھنے جایا کرتے اور جیتنے والوں کو اچھے انعام سے نوازا جاتا تھا۔بہادر شاہ ظفر بھی پہلوانوں کی سرپرستی کرتے تھے۔ استاد سکھدیو نامی ایک پہلوان ان کے دربار میں ہوتے تھے۔ سکھدیو کی طاقت کا عالم یہ مشہور تھا کہ اگر ہاتھی کو دم سے پکڑ لیتے تو وہ آگے حرکت نہیں کر سکتا تھا۔ اٹھارہ سو ستاون کی جنگ سے کچھ عرصہ پہلے سکھدیو بہادر شاہ کے دربار میں پیش ہوئے اور کہنے لگے کہ حضور پورے شہر میں اعلان کروا دیجیے۔ فلاں دن میں لال قلعے کے جھروکے تلے حاضر ہوں گا، جس کسی میں دم ہے، آئے اور مجھ سے کشتی لڑ لے، اگر کوئی نہیں آیا تو میں سمجھ لوں گا کہ اب لڑنے والے باقی نہیں رہے، نہ کوئی دم خم ٹکر لینے والوں میں ہے، تو میں یہ فن ہمیشہ کے لیے چھوڑ دوں گا۔وہ دن آ گیا، سکھدیو حسب وعدہ حاضر تھے۔ یہ چاروں طرف لوگوں کا میلہ لگا ہوا ہے، بادشاہ سلامت خود اوپر بیٹھے جھروکوں سے نظارہ کر رہے ہیں۔ سکھدیو للکار رہے ہیں کہ بھئی کوئی ہے شیر نر جو مقابلے میں آئے، اپنی طاقت کا مظاہرہ کر رہے ہیں، وزن اٹھاتے ہیں، دوسرے پہلوانی کرتب دکھاتے ہیں لیکن سب لوگ بس دور دور سے دیکھتے ہیں، قریب کوئی نہیں آتا۔ سکھدیو پہلوان سے مقابلہ کسی کے بس میں نہیں تھا۔سکھدیو آہستہ قدموں سے چلتے ہوئے گئے اور بادشاہ جہاں بیٹھے تھے وہاں عین نیچے کھڑے ہو گئے۔ سر جھکایا اور کہا، ”جہاں پناہ، اب اذن رخصت دیجیے، سکھدیو سے کوئی نہیں لڑنا چاہتا۔ “ لنگوٹ کھولی، کپڑے بدلے اور وعدے کے مطابق زندگی بھر کشتی نہیں لڑی۔ آج کل جسےسپورٹس مین سپرٹ کہا جاتا ہے اسے پہلے وضع داری کہتے تھے۔ جب کشتی سیکھنے کوئی بھی پٹھا میدان میں اترتا تھا تو لنگوٹ کا پکا رہنے کے ساتھ ساتھ اس بات کی بھی تعلیم دی جاتی تھی کہ طاقت کا استعمال کبھی غلط نہیں ہو گا۔ خاندانی پہلوان گلی محلوں سے گذرتے ہوئے نظریں تک نیچی رکھتے تھے۔ بلکہ اپنے علاقے کی حفاظت کا ذمہ بھی ان کا ہوتا تھا۔ شہر میں کوئی جلوس نکلتا، بھلے محرم کا ہو یا رام لیلا ہو یا کوئی بھی کسی بھی مذہب کا اکٹھ ہو، اس کے گرد انہیں کا گھیرا ہوتا تھا۔ یوں سمجھیے پہلوان اپنی ثقافتی روایات اور اخلاقی قدروں کے امین سمجھے جاتے تھے۔ کوئی پہلوان اگر لنگوٹ کا ڈھیلا نکلتا، صحت خراب کرنے والی حرکات میں مبتلا ہو جاتا، نشے کی طرف راغب ہوتا یا بدمعاشی کے گھمنڈ میں گھر جاتا تو اکھاڑے کے باقی لوگ اس سے آہستہ آہستہ قطع تعلق کر لیتے تھے۔ پہلوانی ایک پورا فن تھا جو انسان کو فیل تن (ہاتھی کے جیسا دیو ہیکل) بنانے کے ساتھ ساتھ انکساری اور انسانیت کی تعلیم بھی دیتا تھا۔گورے آئے تو زمانہ بدلتا گیا۔ دوسرے کھیلوں کو دیسی کھیلوں سے زیادہ اہمیت دی گئی۔ فٹ بال، ہاکی، کرکٹ میں جینٹلمین پیدا ہونے لگے اور پہلوانی کے ہاتھ فقط کن ٹٹے رہ گئے۔ کانوں کی اوپر والی ہڈی بہت نازک ہوتی ہے۔ دیسی کشتی میں اگر دوسرا پہلوان کان مروڑ دے اور ہڈی ٹوٹ جائے تو اس وقت درد کی وجہ سے کشتی جیتنا ممکن نہیں رہتا اور خواہ مخواہ اچھا بھلا بہادر لڑیاّ خاک چاٹنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ تو پہلوان خود اپنے کانوں کی اوپر والی ہڈی تڑوا لیتے تھے جس کی وجہ سے کان موٹے نظر آنا شروع ہو جاتے۔ جو کان نیچے سے لو کے نزدیک ہمارے آپ کے جیسا ہو اور اوپر سے ایک دم موٹا اور نرم سا دکھے، کوئی ہڈی یا بناوٹ نظر نہ آئے، وہ کان ٹوٹا ہوا ہوتا ہے اور عموماً پرانے پہلوانوں کے کان ایسے ہی ہوتے تھے۔ اسی زمانے میں کچھ لوگ ایویں رعب داب کے چکر میں کان تڑوا کر پہلوان نظر آنا چاہتے یا کسی ریٹائر پہلوان کو بدمعاشی مقصود ہوتی اور وہ ہر ایک سے الجھتا پھرتا تو وہ لوگ کن ٹوٹے کہلاتے تھے۔ ضرورت اس امر کی ھے کہ دیسی پہلوانی کو ترقی دینے کے لئے حکومت سرکاری سطح پرسرپرستی کرے تاکہ یہ فن پھر فروغ و ترقی کرسکے ،،