کیا لبنان سعودی عرب اور ایران کے درمیان نیا محاذ جنگ بننے جا رہا ہے۔؟یہ وہ سوال ہے جو آج کل عالمی میڈیا کی زینت بنا ہوا ہے۔ اس سوال کے پیچھے حالیہ دنوں میں ہونے والے وہ مختلف واقعات ہیں جو یکے بعد دیگرے رونما ہوئے ہیں ، ان میں یمن سے ریاض پر ہونے والا میزائیل حملہ،سعودی عرب میں ہونے والی اقتدار کی نئی جنگ اور لبنانی وزیراعظم سعد حریری کا اپنے عہدے سے استعفی دینا جس کا اعلان انہوں نے اپنے سعودی عرب کے دورے کے دوران کیا۔
یوں تو ایران اور سعودی عرب کے درمیان جنگ خلیج فارس سمیت کسی بھی جگہ ہو سکتی ہے لیکن اس وقت ان دونوں ملکوں کے درمیان ’’فالٹ لائن‘‘ لبنان ہے۔
سعودی عرب اور خطے میں اس کے نئے حلیف اسرائیل دونوں کو ہی ایران کے اس علاقے میں بڑھتے ہوئے کردار پر تشویش ہے۔ سعودی عرب عراق اور شام میں ایران کے ہاتھوں ہونے والی اپنی سبکی پر رنجیدہ ہے جبکہ اسرائیل لبنان میں حزب اللہ کی سرپرستی کرنے پر ایران سے نالاں ہے۔
ٹرمپ کے حالیہ دورہ سعودی عرب اور اسرائیل کے دوران ریاض اور یروشلم کی حکومتوں نے امریکی حکومت کو ایران کے اس نئے کردار سے اپنی پریشانی سے آگاہ کیا۔ٹرمپ انتظامیہ پہلے ہی سے ایران سے نالاں ہے۔اسے اوبامہ انتظامیہ اور ایران کے درمیان ہونےنیوکلئیر معاہدہ پر سخت تحفظات ہیں۔
امریکہ کو بھی ایران کا اس خطے میں نیا کردار ایک آنکھ نہیں بھاتا۔اگر امریکہ ایران کے خلاف کوئی فوجی ایکشن لیتا ہے تو اس پر سب سے زیادہ خوشی سعودی عرب کو ہوگی جو اپنے اندرونی مسائل اور یمن کی جنگ میں الجھا ہو اہے۔ ایران کے خلاف امریکی جنگ اسرائیل اور اس کے امریکہ میں موجود حامیوں کو بھی خوش کرے گی۔ امریکہ کی ایران کے خلاف جنگ امریکہ کے لئے تو خطرناک ثابت ہو سکتی ہے لیکن اس سے ایران کی موجودہ حکومت کے کمزور ہونے کا کوئی امکان نہیں۔ اس جنگ سے ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات بہتر ہونے کی بجائے مزید خراب ہوں گے۔
2003ء میں امریکہ کے عراق کے حملے کے بعد سے ایران کا اپنے پڑوسی ملکوں عراق اور شام کی سیاست میں کردار بہت اہمیت حاصل کر گیا ہے اور وہ اس جنگ کے بعد سے اس خطے میں ایک اہم ’’پاور بروکر‘‘ کے طور پر سامنے آیا ہے۔
جب سے محمد بن سلمان سعودی حکومت میں نئے ولی عہدمقرر ہوئے ہیں تب سے سعودی حکومت ایران کے خلاف سخت موقف اپنائے ہوئے ہے۔ سعودی حکومت نے ایرانی حمایت یافتہ بشارالاسد کی حکومت ہٹانے خلاف اس کی اپوزیشن کی کھل کر حمایت کی،لیکن دونوں ممالک کے درمیان اصل مقابلہ یمن میں ہو رہا ہے۔ یمن میں سعودی فضائیہ ایرانی حمایت یافتہ حوثی باغیوں کے فوجی ٹھکانوں پر زور دار بمباری کر رہی ہے لیکن ابھی تک وہ حوثی باغیوں کو اقتدار سے ہٹانے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ ریاض پر حوثی باغیوں کی طرف سے ہونے والا میزائیل حملہ اسی سعودی بمباری کا جواب تھا۔
اگرچہ سعودی عرب نے خطے کے کئی ممالک میں اپنی عسکری قوت دکھائی ہے لیکن اس سے ایران اور اس کے اس خطے میں موجود حلیفوں کو کوئی پریشانی نہیں۔
شام میں اسد حکومت جسے روس اور ایران کی مدد حاصل تھی سعودی حمایت یافتہ اپوزیشن کو شکست دی۔عراق میں عراقی حکومت نے ایرانی حمایت یافتہ شیعہ ملیشیا کی مدد سے داعش اور کرد وں کے خلاف جنگ جیتی۔ عراقی حکومت اگرچہ ایرانی حلیف نہیں لیکن اس نے داعش اور کرد وں کا مقابلہ کرنے کے لئے اپنے عربی ہمسائیوں کی بجائے ایران پر بھروسہ کیا۔
ان حالا ت میں سعودی حکومت کے پاس کوئی اور چوائس نہیں کہ وہ ایران کو شکست دینے کے لبنان میں موجود ایرانی حمایت یافتہ حزب اللہ کے خلاف جنگ میں اسرائیل کی مدد کرے۔ دونوں ممالک کے درمیان خفیہ تعلقات وروابط کا سلسلہ کافی عرصے سے جاری ہے۔ حالیہ دنوں میں اسرائیلی فوجی سربراہ کا ایک بیان بھی سامنے آیا ہے جس میں اسرائیل کی فوج کے سربراہ نے کہا کہ اسرائیل سعودی عرب کے ساتھ خفیہ معلومات کے تبادلے کے لیے تیار ہے کیونکہ دونوں ممالک کا مشترکہ مفاد ایران کو روکنے سے وابستہ ہے۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ امریکہ میں صدر ٹرمپ کی ایران پر دباؤ بڑھانے کے انتخابی وعدے پر کامیابی نے مشرق وسطی میں نئی سیاسی صف بندی اور اتحاد بنانے کا موقع فراہم کیا ہے۔
اسرائیل کے شہر تل ابیب میں ہونے والے اس انٹرویو میں انہوں نے مزید کہا کہ ایران کے خطرے کا سامنا کرنے کے لیے ایک مفصل دفاعی منصوبہ تیار کیا جانا چاہیے اور وہ معتدل عرب ریاستوں کو دفاعی ماہرات اور خفیہ معلومات فراہم کرنے کو تیار ہیں۔
اگر سعودی حکومت اسرائیل کی حزب اللہ کے خلاف جنگ کی صورت میں کوئی ایڈوینچر کرتی ہے تو اس کے سخت نتائج برآمد ہوں گے۔ اسرائیل حزب اللہ کے مقابل عسکری برتری رکھتا ہے اور اس کا اینٹی میزائیل پروگرام بھی کافی جدید ہے لیکن حزب اللہ کے پاس یہ صلاحیت ہے کہ وہ اسرائیل کو کئی مقامات پر نقصان پہنچا سکتی ہے۔ ماضی قریب میں بھی حزب اللہ نے اسرائیلی جارحیت کا ڈھٹ کر مقابلہ کیا۔ اگر ایسی کوئی جنگ لبنان میں چھڑتی ہے تو ہمیشہ کی طرح اس کا سب سے زیادہ نقصان لبنانی عوام کو اٹھانا ہوگا۔
یہ بھی ممکن ہے کہ ایران بھی اس جنگ میں کود پڑے جس سے خلیج فارس کے مختلف ممالک میں بڑے پیمانے پر نقصانات کا اندیشہ ہے کیونکہ اس طرح کی کوئی بھی جنگ صرف ایران اور سعودی عرب میں ہی نہیں بلکہ اس علاقے کے کم وبیش سبھی ملکوں میں معاشی تباہی لائے گی، دنیا بھر کے ممالک توانائی کے بحران کا شکار ہوں گے اور عالمی معیشت جو پہلے سے ہی مندی کا شکار ہے مزید ابتری کا شکار ہوگی۔
اس سے پہلے کہ ایسی کوئی جنگ تیسری عالمی جنگ کی صورت اختیار کرے روس اور چین کو آگے بڑھ کر امریکہ کو اس بات پر آمادہ کرنا ہوگا کہ وہ اسرائیل اور سعودی عرب کو کسی بھی ایڈوینچر سے روکے اور وہ ایران سے اپنے معاملات جنگ کے میدان میں نہیں بلکہ مزاکرات کی میز پر حل کریں۔