جیسے ہی ربیع الاوّل شریف کے ماہِ مقدس کا آغاز ہوتا ہے تو عاشقانِ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم خوشی سے جھوم اُٹھتے ہیں اور اِس پورے ماہِ مقدس کو انتہائی عقیدت و احترام اور شایانِ شان طریقے سے مناتے ہیں۔
گھر گھر محافلِ جشنِ عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا انعقاد ہوتا ہے۔ گلیوں اور بازاروں کو دلہن کی طرح سجا دیا جاتا ہے۔ مساجد اور بلند بالا عمارات پہ چراغاں کے خوب صورت مناظر فرحت آنگیں نظارے پیش کرتے ہیں۔
درود و سلام کی بے مثل اور خوب صورت صدائیں سماعتوں سے ٹکرا کر کانوں میں رس گھولتی ہیں۔ گھر گھر صدقات و خیرات اور لنگر کا وسیع اہتمام و انتظام کیا جاتا ہے۔ چھوٹے اور بڑے تعلیمی اداروں میں تقاریر اور نعت خوانی کے مقابلے ہوتے ہیں۔ پوری دنیا میں سرکاری و غیر سرکاری سطح پر ’’سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم‘‘ کے موضوع پر سیمینارز اور تقریبات منعقد کی جاتی ہیں۔ پرنٹ میڈیا خصوصی ایڈیشنز شایع کرنے اور الیکٹرانک میڈیا خصوصی نشریات پیش کرنے کا اہتمام کرتا ہے۔ شکرانے کے نوافل ادا کیے جاتے ہیں اور ایک دوسرے کو خوشی کے اس موقع پر مبارک باد دینے کا عظیم سلسلہ چل نکلتا ہے۔
یہ سارے اہتمام و انتظامات کس لیے ہوتے ہیں۔۔ ؟ اس لیے کہ اسی ماہ مقدس میں پروردگارِ عالم نے حضور سیدِعالمؐ، سرورِکائناتؐ، فخرِموجوداتؐ، ہادی و رحمتِ عالمؐ، آقائے نامدارؐ، حبیبِ خدا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اس دنیا میں مبعوث فرما کر امتِ مسلمہ پر ایک بہت بڑا احسان فرمایا۔
خدا وند ِقدوس نے واضح ارشاد فرمایا، مفہوم:
’’ اے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم! آپ فرما دیں کہ جب تم پر اللہ کا فضل اور اُس کی رحمت ہو تو، خوش ہوا کرو، تمہارا خوشیاں منانا اس سے بہتر ہے، جو تم اپنے لیے جمع کیے رکھتے ہو۔‘‘
ربِ کائنات نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’پس! یاد کرو تم اللہ کی نعمتیں، تاکہ تم فلاح پاؤ۔‘‘
کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے بڑھ کر بھی کوئی نعمت کوئی فضل اور کوئی احسان ہوسکتا ہے؟ یقینا نہیں ! حضور پُرنور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حیاتِ پاک کا ہر ایک لمحہ نہ صرف امتِ مسلمہ، بل کہ پوری انسانیت کے لیے مینارۂ نور کی حیثیت رکھتا ہے۔ گویا رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اس دنیا میں آمد ایک بہت بڑا انقلاب تھا، اور ایسا عظیم انقلاب کہ جس کے انتظار میں یہ سسکتی بِلکتی انسانیت صدیوں تڑپتی اور ترستی رہی کہ کوئی عظیم راہ نما، کوئی عظیم ہستی، کوئی عظیم مسیحا اس دنیا میں تشریف لائے اور ہماری بے مقصد اور اندھیروں میں ڈوبی ہوئی زندگی کو روشنی بخش دے۔ ہمیں بے راہ روی سے ہٹا کر صراطِ مستقیم پہ چلا دے۔ اللہ رب العزت کا پتا دے۔ دلوں پہ لگے زنگ کو اتار دے اور گردآلود روح کو نکھار دے۔
آخر کار ربِ کائنات کو انسانیت پر ترس آیا اور ذاتِ باری تعالیٰ نے12ربیع الاول کی صبح سعادت کو وہ نور عطا فرمایا کہ جس کی تابندہ کرنوں سے پوری کائنات جگمگا اُٹھی، اور جس کی خوش بو سے سارا عالم معطر ہوگیا۔ محبتوں کے بے مثل پھول کِھل اُٹھے۔ خلوص و پیار کے چراغ روشن ہوگئے۔ چاند، سورج اور ستاروں کو ضوفشائی نصیب ہوئی۔ دریاؤں اور سمندروں کو روانی ملی۔ خوش بُو کو پاکیزہ احساس ملا۔ تہذیب و تمدن پر نکھار آیا۔
بزمِ کونین سجانے کے لیے آپؐ آئے
شمعٔ توحید جلانے کے لیے آپؐ آئے
ایک پیغام جو، ہر دل میں اُجالا کردے
ساری دنیا کو سنانے کے لیے آپؐ آئے
یہ ایک مسلمہ تاریخی حقیقت ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے خاص فضل و کرم سے آقائے نامدار، حبیبِ خدا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے جو عظیم انقلاب برپا کیا، وہ ہمہ پہلو اور ہمہ گیر انقلاب تھا۔ یہ عقائد و افکار اور سیرت و کردار میں انقلاب تھا۔ معاشرت اور معیشت میں انقلاب تھا۔ قانون اور سیاست میں انقلاب تھا۔ تعلیم و تربیت میں انقلاب تھا۔ اخلاق و عبادات میں انقلاب تھا۔ اخلاص و ایثار اور محبت و پیار میں انقلاب تھا۔ مساوات و احساسات میں انقلاب تھا۔ انسانی زندگی کا کوئی ایسا گوشہ اور کوئی شعبہ ایسا نہ تھا کہ جس کے لیے حضور سیدِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے راہ نما اور زریں اصول عطا نہ فرمائے ہوں۔
رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذاتِ مقدس کے کیا کہنے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی اطاعت کو اپنے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اطاعت سے مشروط کردیا۔ اور اپنی محبت کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی محبت سے لازم و ملزوم ٹھہرایا، تاکہ لوگ کوچۂ سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے فیض یاب ہو کر مجھ تک پہنچیں، مجھ تک رسائی حاصل کریں۔ یعنی بارگاہِ خداوندِ قدوس میں حاضر ہونے سے پہلے اتباع سنت کا خوب صورت لباس زیب تن کرنا بے حد ضروری ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا اس دنیا میں تشریف لانا ایک مقصد کے تحت ہی تو تھا، خدائے واحد کی ذاتِ کریمی کا ارشادِ پاک ہے، مفہوم: ’’وہ رسولؐ، اللہ کی آیاتِ مقدس کی تلاوت فرما کے انہیں سناتے، اُن کا تزکیہ فرماتے اور اُنہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں حالاں کہ اِس سے پہلے یہی لوگ صریح گم راہیوں میں پڑے ہوئے تھے۔،،
آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بعثت سے قبل کا نقشہ، حضرت جعفر طیار رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے شاہِ حبش نجاشی کے دربار میں خطاب کرتے ہوئے یوں پیش کیا، مفہوم:
’’ ہم بے دین اور کم علم تھے، بتوں کی پرستش کرتے، مردار کھاتے اور بے حیائی کے دل دادہ تھے، اپنے بھائیوں پر ظلم ڈھاتے اور ہمسایوں کو تکلیف پہنچاتے تھے، ہم میں سے طاقت ور، کم زور پر ظلم و ستم کیا کرتا تھا، ہم میں انسانیت نام کی کوئی چیز نہ تھی اور مہمان داری کا نام و نشان نہ تھا، کوئی قائدہ اور قانون نہ تھا۔ کہ اچانک ہم میں سے ایک پاکیزہ انسان کو اللہ رب العزت نے آخری پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بنا کر مبعوث فرمایا۔ جس کے حسب، نسب، سچائی، امانت، پاک دامنی، دیانت داری، تقویٰ و طہارت، ہم دردی و پاکیزگی کو ہم خوب جانتے ہیں۔
اُس درِیتیمؐ نے ہم کو بتایا کہ ہم سب کا پروردگار بس ایک اللہ ہے، اُس کا کوئی شریک نہیں اور وہ ماں، باپ اور اولاد سے مُبرا ہے، وہ اللہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ ہی رہے گا، وہی سب کا خالق و مالک اور رازق ہے، نفع و نقصان اُس کے ہاتھ میں ہے، یہ بت کسی بھی چیز کے مالک نہیں ہیں، ایک اللہ تعالیٰ کی ذاتِ کریمی ہی حاجت روا اور مشکل کشا ہے۔ اِس کے ساتھ حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ہمیں یہ بھی ہدایات فرمائیں کہ ہمیشہ سچ بولا کرو، اپنا وعدہ پورا کیا کرو، تمام گناہوں سے الگ رہو، آپس میں صلۂ رحمی کرو، ہمسایوں کے ساتھ اچھا سلوک کرو، حرام باتوں سے بچو، خون ریزی اور یتیم کے مال کھانے سے دور رہو، کسی کا ناحق مال نہ کھاؤ۔ اِسی طرح پاک دامن عورتوں پر تہمت لگانے سے منع کیا اور ساتھ ہی نماز پڑھنے کا حکم بھی دیا، روزے رکھنے اور زکوٰۃ ادا کرنے کی تاکید فرمائی، مہمان نوازی کا درس دیا۔ ہم سب اُن پر ایمان لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اتباع کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر دل و جان سے فدا ہوئے۔،،
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے مقدس ارشاداتِ عالیہ حکمت و بصیرت کے ان بیش قیمت اور انمول موتیوں اور ہیروں پر مشتمل ہیں، جن سے زندگی کے نئے اُفق اور نئی راہوں کا سراغ ملتا ہے۔ اور انسان میں بھرپور جذبۂ عمل بیدار ہوتا ہے۔ پھر ان پر مستزاد یہ کہ ھادیٔ عالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ان ارشاداتِ مقدسہ پر ہی اکتفا نہیں فرمایا، بل کہ اپنے حسن عمل، سیرت و کردار اور اپنے اسوۂ حسنہ سے پوری عالمِ انسانیت کے لیے ایک دائمی اور عملی نمونہ پیش فرمایا۔ جیسا کہ ربِ کریم عزوجل نے ارشاد فرمایا، مفہوم:
’’ درحقیقت تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی زندگی میں ایک بہترین نمونہ ہے۔،،
آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے سچی اور حقیقی محبت اِس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ ہم سب آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ارشاداتِ گرامی کی روشنی میں ربِ غفور کی طرف سے عطا کردہ اپنی زندگی کے شب و روز گزاریں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہم سب کو اسلام میں پورا داخل ہونے کی توفیق عطا فرمائے، اور صغیرہ، کبیرہ گناہوں کو اپنے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے صدقے معاف فرمائے۔ آمین