نیروبی: ماحول دوست افراد کے لیے اچھی خبر یہ ہے کہ لگ بھگ 200 ممالک نے یہ وعدہ کیا ہے کہ وہ سمندروں میں پلاسٹک پھینکنے کے عمل کو ہر ممکن طور پر روکنے کی کوشش کریں گے۔

اس کے علاوہ سمندری پرندوں کے پیٹ سے بھی پلاسٹک ملا ہے جبکہ چھوٹی مچھلیوں تک میں پلاسٹک ذرات دیکھے گئے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام کے مطابق اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو 2050 تک سمندروں میں پلاسٹک کی مقدار جانوروں سے زیادہ ہوجائے گی۔
یواین ای پی کے مطابق ہر سال سمندروں میں 80 لاکھ ٹن پلاسٹک بوتلوں، تھیلیوں اور فاضل مواد کی صورت میں سمندر کے حوالے کیا جارہا ہے۔ یہ پلاسٹک سمندری مخلوق کی خوراک کا حصہ بن کر ان پر تباہ کن اثرات مرتب کررہے ہیں۔
اس موقع پر ناروے کے وزیرِ ماحولیات وڈر ہیلگیسن نے کہا کہ ’ معاہدے میں بہت سخت ہدایات دی گئی ہیں اور اس معاہدے کے بعد ہم اگلے 18 ماہ میں اسے بہتر بنا کر بین الاقوامی طور پر ایک قانون کی حیثیت دے سکیں گے۔ ‘ یہ قرارداد ناروے نے ہی پیش کی ہے جس کی توثیق اقوامِ متحدہ نے کی ہے۔
ناروے کے وزیر وڈر نے مزید کہا کہ اس سال ایک نایاب قسم کی وھیل ساحل پر آگئی اور وہ مرنے کے قریب تھی ۔ اس کے پیٹ سے پلاسٹک کے 30 بیگ برآمد ہوئے تھے۔ اس موقع پر یو این ای پی کے سربراہ ایرک سولہائیم نے کہا کہ اس وقت چین دنیا بھر میں پلاسٹک پیدا کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ سولہائیم چاہتے ہیں کہ ایک جانب تو حکومت بعض اشیا پر پابندی لگائیں اور دوسری جانب پیکنگ کے انداز کو بدلا جائے۔
سولہائیم نے مزید کہا کہ اس ضمن میں چین نے نہایت اہم اقدامات اٹھانے کا عندیہ دیا ہے اور وہ پلاسٹک آلودگی دور کرنے کی ہر ممکن کوشش کررہا ہے۔ اس موقع پر ہمیں عہد کرنا چاہیے کہ جن اشیا کی ضرورت نہ ہو ان سے جان چھڑائی جائے۔ اس کی ایک مثال بالی کے ساحلوں پر دیکھی گئی جہاں پلاسٹک کا ایک بڑا ڈھیر مشروب پینے کی نلکیوں پر مشتمل تھا۔
معاہدے کے رو سے تمام ممالک اس بات پر متفق ہوگئے ہیں کہ وہ سمندروں میں پھینکے جانے والے پلاسٹک پر کڑی نظر رکھیں گے۔ جبکہ بعض ممالک نے پلاسٹک تھیلیوں پر پابندی کا وعدہ کیا ہے۔











