لاہور(ویب ڈیسک)ذیابیطس تاحیات ساتھ رہنے والے ایسی طبی حالت ہے جو ہر سال لاکھوں افراد کو ہلاک کرتی ہے جبکہ یہ کسی کو بھی لاحق ہو سکتی ہے اوریہ ایسی بیماریہے جو اس وقت پیدا ہوتی ہے جب جسم اپنے اندر موجود شکر (گلوکوز) کو حل کر کے خون میں شامل نہیں کر پاتا اس کی پیچیدگی کی وجہ سے دل کے دورے، فالج، نابینا پن، گردے ناکارہ ہونے اور پاؤں اور ٹانگیں کٹنے کا خطرہ پیدا ہو سکتا ہے۔یہ تیزی سے بڑھتا ہوا مسئلہ ہے اور ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں 42 کروڑ 22 لاکھ افراد اس کا شکار ہیں۔ عالمی ادارۂ صحت کے مطابق یہ تعداد 40 سال پہلے کے مقابلے میں چار گنا ہے۔صرف پاکستان میں ہر سال ذیابیطس کے مرض کے باعث تقریباً ڈیڑھ سے دو لاکھ افراد معذور ہو جاتے ہیں۔ ایک حالیہ تحقیق کے مطابق پاکستان میں ہر چار میں سے ایک فرد ذیابیطس کے مرض میں مبتلا ہے اور یہ تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔یہی نہیں بلکہ ذیابیطس پاکستان میں ہلاکتوں کی آٹھویں بڑی وجہ بھی ہے اور 2005 کے مقابلے میں اس سے متاثرہ افراد کی ہلاکتوں میں 50 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ان خطرات کے باوجود ذیابیطس کا شکار فیصد لوگوں کو اس بات کا علم نہیں کہ روز مرہ کے معمولات میں تبدیلی کئی معاملات میں بہتری لا سکتی ہے۔ذیابیطس کی وجہ کیا ہے؟جب ہم کھانا کھاتے ہیں تو ہمارا جسم نشاستے (کاربوہائیڈریٹس) کو شکر (گلوکوز) میں تبدیل کر دیتا ہے، جس کے بعد لبلبے (پینکریاز) میں پیدا ہونے والا ہارمون انسولین ہمارے جسم کے خلیوں کو
ہدایت دیتا ہے کہ وہ توانائی کے حصول کے لیے اس شکر کو جذب کریں۔ذیابیطس تب لاحق ہوتا ہے جب انسولین مناسب مقدار میں پیدا نہیں ہوتی یا کام نہیں کرتی، اس کی وجہ سے شکر ہمارے خون میں جمع ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ذیابیطس کی کئی اقسام ہیں۔ ٹائپ ون ذیابیطس میں لبلبہ انسولین بنانا بند کر دیتا ہے جس کی وجہ سے شکر خون کے بہاؤ میں جمع ہونا شروع ہو جاتی ہے۔سائنسدان یہ تو نہیں جانتے کہ اس کی اصل وجہ کیا ہے لیکن ان کا خیال ہے کہ شاید ایسا جینیاتی اثر کی وجہ سے ہوتا ہے یا کسی وائرل انفیکشن کی وجہ سے کہ لبلبے میں انسولین بنانے والے خلیے خراب ہو جاتے ہیں۔ ذیابیطس کے مریضوں کا دس فیصد ٹائپ ون کا شکار ہیں۔ٹائپ 2 ذیابیطس میں لبلبہ یا تو ضرورت کے مطابق انسولین نہیں بناتا یا جو بناتا ہے وہ ٹھیک طریقے سے کام نہیں کرتی۔انسولین ہمارے جسم میں شکر کو توانائی میں منتقل کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہایسا عموماً درمیانی اور بڑی عمر کے لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ تاہم یہ مرض کم عمر کے زیادہ وزن والے افراد، سست طرزِ زندگی اپنانے والے اور کسی خاص نسل سے تعلق رکھنے والے افراد خصوصاً جنوبی ایشیائی افراد
کو بھی لاحق بھی ہو سکتا ہے۔کچھ حاملہ خواتین کو دورانِ زچگی ذیابیطس ہو جاتا ہے جب ان کا جسم ان کے اور بچے کے لیے کافی انسولین نہیں بنا پاتا۔مختلف مطالعوں کے مختلف اندازوں کے مطابق چھ سے 16 فیصد خواتین کو دورانِ حمل ذیابیطس ہو جاتا ہے۔ انھیں ایسے میں غذا اور ورزش کے ذریعے شوگر لیول کو کنٹرول کرنا ہوتا ہے، تاکہ اسے ٹائپ ٹو انسولین میں بدلنے سے روکا جا سکے۔اب لوگوں کو خون میں گلوکوز کی بڑھی ہوئی سطح کے بارے میں تشخیص کر کے انھیں ذیابیطس ہونے کے خطرے سے آگاہ کیا جا سکتا ہے۔ٹائپ ٹو ذیابیطس کے خطرے کا شکار افراد 40 سال سے زائد عمر کے ہوتے ہیں (جنوبی ایشائی افراد 25 سال کی عمر تک)۔ ان کے والدین یا بہن بھائیوں میں سے کسی کو ذیابیطس ہوتا ہے، ان کا وزن زیادہ ہوتا ہے یا وہ موٹاپے کا شکار ہوتے ہیں، ان میں زیادہ تعداد جنوبی ایشیائی مالک کے لوگوں کی، چینی باشندوں کی، جزائر عرب الہند اور سیاہ فام افریقیوں کی ہے۔کیا میں ذیابیطس سے بچ سکتا ہوں؟ذیابیطس کا زیادہ تر انحصار جینیاتی اور ماحولیاتی عوامل پر ہوتا ہے لیکن آپ صحت مند غذا اور چست طرزِ زندگی سے اپنے خون میں شکر
کو مناسب سطح پر رکھ سکتے ہیں۔پروسیس کیے گئے میٹھے کھانوں اور مشروبات سے پرہیز اور سفید روٹی اور پاستا کی جگہ خالص آٹے کا استعمال پہلا مرحلہ ہے۔ریفائنڈ چینی اور اناج غذائیت کے اعتبار سے کم ہوتے ہیں کیونکہ ان میں سے وٹامن سے بھرپور حصہ نکال دیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر سفید آٹا، سفید روٹی، سفید چاول، سفید پاستا، بیکری کی اشیا، سوڈا والے مشروبات، مٹھائیاں اور ناشتے کے میٹھے سیریل۔صحت مند غذاؤں میں سبزیاں، پھل، بیج، اناج شامل ہیں۔ اس میں صحت مند تیل، میوے اور اومیگا تھری والے مچھلی کے تیل بھی شامل ہیں۔یہ ضروری ہے کہ وقفے وقفے سے کھایا جائے اور بھوک مٹنے پر ہاتھ روک لیا جائے۔جسمانی ورزش بھی خون میں شوگر کے تناسب کو کم کرنے میں مدد دیتی ہے۔ برطانیہ میں این ایچ ایس تجویز کرتا ہے کہ ہفتے مںی کم از کم ڈھائی گھنے ایروبکس کرنا یا تیز چہل قدمی یا سیڑھیاں چڑھنا مفید ہے۔میں پیچیدگیاں کیا ہیں؟خون میں شوگر کی زیادہ مقدار خون کی شریانوں کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔اگر خون کا جسم میں بہاؤ ٹھیک نہ ہو تو یہ ان اعضا تک نہیں پہنچ پاتا جہاں اس کی ضرورت ہوتی ہے اس کی وجہ سے اعصاب کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے درد اور احساس ختم ہو جاتا ہے، بینائی جا سکتی ہے اور پیروں میں انفیکشن ہو سکتا ہے۔عالمی ادارۂ صحت کا کہنا ہے کہ نابینا پن، گردوں کی ناکارہ ہونے، دل کے دورے، فالج اور پاؤں کٹنے کی بڑی وجہ ذیابیطس ہی ہے۔ذیابیطس کا مرض نابینا پن، گردوں کی ناکارہ ہونے، دل کے دورے، فالج اور پاؤں کٹنے کا باعث بن سکتا ہے۔سنہ 2016 میں ایک اندازے کے مطابق 16 لاکھ افراد براہ راست ذیابیطس کی وجہ سے ہلاک ہوئے۔کتنے لوگ ذیابیطس کا شکار ہیں؟عالمی ادارۂ صحت کے مطابق 1980 میں ذیابیطس کا شکار افراد کی تعداد دس کروڑ 80 لاکھ تھی جو 2014 میں بڑھ کر 42 کروڑ 22 لاکھ ہو گئی۔1980 میں دنیا بھر کے 18 سال سے زاید عمر کے بالغ افراد کا پانچ فیصد ذیابیطس کا شکار تھا جبکہ سنہ 2014 میں یہ تعداد 8.5 فیصد تک جا پہنچی ہے۔ذیابیطس کی بین الاقوامی فاؤنڈیشن کے اندازوں کے مطابق اس کیفیت کا شکار 80 فیصد بالغ افراد درمیانی عمر کے ہیں، ان کا تعلق کم آمدنی والے ممالک سے ہے اور جہاں کھانے پینے کی عادادت تیزی سے تبدیل ہوتی ہیں۔ترقی یافتہ ملکوں میں اس کا ذمہ دار غربت اور سستے پروسیسڈ کھانوں کو قرار دیا جاتا ہے۔