لاہور ( ویب ڈیسک ) (ن)لیگ کے جن قائدین پر امتحانات آئے ا ور وہ مصیبتوں کا شکار ہوئے ان میں خواجہ برادران بھی سرفہرست ہیں۔ن لیگ کے دو ہی خاندان ایسے ہیں جو کہ جیلوں میں ہیں ان میں سے ایک تو شریف خاندان بذات خود اور دوسرا خواجہ برادران ہیں۔ تاہم اب خواجہ سعد رفیق بھی پھٹ پڑے ہیں۔سینئر تجزیہ کار محمد علی درانی نے نجی ٹی وی چینل پر گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ خواجہ سعد رفیق آج کل اپنی پارٹی قیادت سے ناراض نظر آتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ جب وہ حکومت میں تھے تب انہیں وفاقی وزیر ریلوے بنایا گیا تھا لیکن جب ن لیگ زیرعتاب آئی تو مختلف پارٹی کارکنوں کو بڑی وزارتوں پر بٹھایا گیا اور کچھ نے تو وزیراعظم بننے کاموقع بھی حاصل کیا مگرخواجہ سعد رفیق کو باوجود کوشش کے وزارت ریلوے کے علاوہ اور کوئی عہدہ نہ دیا گیا۔ تاہم جب الیکشن آئے تو انہوں نے ایم پی اے کا الیکشن جیتا مگر اسے نہ قائد حزب اختلاف بنایا گیااور نہ کوئی اور عہدہ ملا اور اس کے بعد جب انہوں نے ایم این اے کا الیکشن جیتا تو اس میں بھی انہیں کسی قسم کی فیور نہیں دی گئی۔ اب جب وہ مختلف مقدمات میں جیل میں ہیں اور ن لیگ نے کچن کیبنٹ کے تحت پارٹی عہدوں کا فیصلہ کیا تواس میں بھی خواجہ سعد رفیق کو یکسر نظرانداز کیا گیا ہے جس پر وہ اپنی قیادت سے نالاں ہیں۔ سینئر تجزیہ کار محمد علی درانی کا کہنا تھا کہ ذرائع کے مطاق اب خواجہ سعد رفیق ہوا کا رخ پلٹنے کا انتظار کر رہے ہیں۔ایک تو وہ اس بات کا انتظار کر رہے ہیں کہ آج شام کو سابق وزیراعظم نواز شریف کو جیل چھوڑنے والے جلوس میں کس قدر لوگ آئیں گے اور دوسراوہ پارٹی کے اندر پارٹی بنانے کا منصوبہ بھی بنا رہے ہیں۔ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ جیل سے باہر آنے کے بعد خواجہ سعد رفیق ن لیگ میں فارورڈ بلاک بھی بنا ڈالیں گے۔کیونکہ وہ ورکر آدمی ہیں اور ان کے ساتھ ن لیگ کے کافی ارکان بھی حمایت کرنے کو تیار ہیں۔تاہم یہ طے ہے کہ اس وقت خواجہ سعد رفیق ن لیگ نہیں چھوڑنا چاہتے وہ پارٹی میں ہی رہنا چاہتے ہیں مگر اپنے غصہ کا اظہار کرنے کے لیے وہ کچھ بھی کر گزریں گے۔اب دیکھتے ہیں کہ جیل سے باہر آنے کے بعد خواجہ سعد رفیق فارورڈ بلاک بناتے ہیں یا پھر پارٹی قیادت کے فیصلوں کا ہی ساتھ دیتے ہیں۔ دوسری جانب سینئر صحافی ارشاد عارف کا کہنا تھا کہ سعد رفیق کو پہلی بار یہ بےچینی کیوں ہو رہی ہے ایک وقت تھا جب ن لیگ کے 36 نائب صدر تھے۔ارشاد عارف کا کہنا تھا کہ ایک بار ایسا بھی ہوا تھا جب سعد رفیق کی بنیادی رکنیت ختم کر دی گئی تھی۔سعد رفیق کو یاد ہو گا کہ پہلے انہیں پنجاب کے جنرل سیکرٹری کے عہدے سے ہٹایا گیا تھا پھر پارٹی رکنیت معطل کر دی گئی تھی۔مجھے تب جاوید ہاشمی کا فون آیا انہوں نے بتایا کہ سعد رفیق کی رکنیت معطل ہونے لگی ہے اور اس کا نوٹیفیکشن جاری ہونے لگا ہے۔جس کے بعد سعد رفیق نے مرحوم مجید نظامی سے بات کی اور نظامی صاحب نے شہباز شریف کو فون کیا کہ لاہور میں صرف سعد رفیق ہی ہیں جو پارٹی کو لے کر چل رہے ہیں۔