لاہور (ویب ڈیسک) اس کی کتاب میں لکھا ہے: اللہ کی رضا سے کتنے ہی چھوٹے لشکر کتنے ہی بڑے لشکروں پر غلبہ پاگئے ۔ عالمی ضمیر اور دوست ممالک سے وابستہ امیدیں دم توڑسکتی ہیں ،جو امید مالک سے وابستہ ہو، وہ کبھی نہیں ٹوٹتی ۔’’وہی اللہ ہے کہ اس کے سو اکوئی معبود نہیں ۔ نامور کالم نگار ہارون الرشید اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔وہ بادشاہ، پاک ذات، سلامتی والا، امن دینے والا ، نگہبان، غالب، زبردست ، بے پناہ عظمت والا!‘‘ مایوسی کا کیا سوال، مسلمان کبھی مایوس نہیں ہو سکتا۔ انسان کو پیدا ہی آزمائش کے لیے کیا گیا ۔ آدمی پھلتا پھولتا ہی اس وقت ہے ، جب وہ چیلنج کے مقابل کھڑا ہو جائے ۔ ہر تاریخ ساز کامیابی ابتلا سے شروع ہوتی اورقابلِ رشک فتوحات پہ تمام ہوتی ہے ۔ نیم تعلیم یافتہ مگر غو ر و فکر کے خوگر ابرہام لنکن کو جو امریکہ ملا تھا، اس کا ورثہ غلامی ، قتل و غارت اور الحاد تھا ۔ آج امریکی تاریخ میں وہ اخلاقی عظمت کا سب سے بڑا استعارہ ہے ۔ پانچ کروڑ ریڈ انڈینز کو امریکیوں نے قتل کر ڈالا تھا۔ ایک پورا براعظم بے گناہ انسانوں کے لہو سے سرخ تھا ۔ بیشتر بحری جہازوں میں مر گئے۔ جو باقی بچے ، وہ غلام بنا لیے گئے ۔ پہلی بار لنکن نے جب کالوں کو آزاد کرنے کی بات کی تو اس کا مذاق اڑایا گیا۔ایک آسودہ امریکی خاندان درجن بھر کالوں کے بغیر کیسے بسر کر سکتاہے ۔ ایک غلام کھانا پکاتا ،دوسرا گھر کی صفائی کرتا اور تیسرا مویشیوں کی دیکھ بھال کرتاہے ۔ ان شاہانہ تیوروں کو ترک کیسے کر دیا جائے ۔ صدر کی تجویز، کانگریس نے مسترد کر دی تو اس نے کہا :جتنے کوڑے تم ان کی پیٹھوں پر برسائو گے، ایک دن اتنی ہی جانیں بدلے میں نذرکرنا ہوں گی۔ ڈٹا رہا تو آخر کار اپنا مقصود اس نے پالیا ۔ ایک ڈیڑھ صدی کی مسافت کے بعد بالاخر امریکہ دنیا کاتاجدار بنا ۔ یہ الگ بات کہ آخر کار گھمنڈ نے اسے آلیا ۔ صدر جارج بش سینئرنے اعلان کیا کہ دنیا کو ایک نئے نظام کی ضرورت ہے ۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہ کرّہ ء ارض کی تقدیر اس کا خالق نہیں بلکہ کوئی عالمی طاقت طے کرتی ہے ۔ یہ امریکہ کے زوال کا آغاز تھا۔ چین عالمی طاقت بن کے ابھرنے لگا۔ اللہ کی آخری کتاب میں لکھا ہے : کسی قوم کو ہم اس وقت پکڑتے ہیں ، جب اپنی معیشت پر اسے ناز ہو جاتا ہے ۔ اچھے اور برے وقت اقوام پہ آتے ہیں ۔ ملک لمیٹڈ کمپنیاں نہیں ہوتے کہ دیوالیہ ہو جائیں۔۔ آدمی میں بقا(survival)کی جبلت اتنی طاقتور ہے کہ طوفان جتنا شدید ہو ، زندہ رہنے کی خواہش اتنی ہی بڑھتی جاتی ہے ۔ برطانوی سلطنت میں سورج غروب نہ ہوتا تھا لیکن پھر ہٹلر نے اسے ادھیڑ کے رکھ دیا ۔ سینکڑوں طیارے فضا میں نمودار ہوتے اور لندن پہ بموں کی بارش کر دیتے ۔ دوسری عالمگیر جنگ شروع ہونے سے پہلے برطانوی وزیرِ اعظم چیمبرلین نے ہٹلر کو آسودہ رکھنے کی کوشش کی ۔ تین باروزیرِ اعظم منتخب ہونے والے نواز شریف کی طرح جو قصاب مودی کے سامنے جھکا رہا ۔ کسی قدر ذہنی تحفظ کے ساتھ ہی سہی ، بعد میں عمران خاں نے بھی یہ راستہ اختیار کرنے کی کوشش کی۔ نتیجہ سامنے ہے ۔ ہم ایک طوفان کے مقابل ہیں اور اس کا سامنا کرنے کے سوا ، تمام راستے بند ہیں ۔ کراچی میں داخل ہونے کے تین فضائی راستے بند کر دیے گئے ہیں۔ کہہ دیا گیا کہ کوئی ہوائی جہاز 26ہزار فٹ کی بلندی سے نیچے نہ آئے ۔ کیا یہ دفاعی تیاریوں کا حصہ ہے ؟ کہا نہیں جا سکتا ۔ یہ تو مگر آشکار ہے کہ سپاہی اور سازو سامان ہر اس مقام پرپہنچا دیے گئے ہوں گے ، جہاں پہنچانے چاہئیں ۔ کیا پاکستانی فوج ممکنہ بھارتی حملے کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہے ؟ گلبرگ لاہور کے ایک وسیع و عریض مکان میں سنہری بالوں والا ایک آدمی رہتا ہے ۔ نام اس کا عمر فاروق ہے لیکن سب جاننے والے اسے گولڈی کہتے ہیں ۔ اپنی خود نوشت میں عمران خاں نے لکھا ہے : گولڈی میرا سب سے پرانا اور سب سے اچھا دوست ہے وہ ایک سادہ سا آدمی ہے ، بالکل ہی سادہ ۔ عشاء کی نماز پڑھ کر سو جاتا ہے اور فجر کی اذان سے بہت پہلے جاگ اٹھتا ہے ۔ کسی اجتماعی کام کے لیے روپے کی ضرورت آپڑے تو چار آدمیوں سے گزارش کرتا ہوں ۔ ڈاکٹر امجد ثاقب، ہارون خواجہ ،گولڈی اور شوکت پراچہ۔ کبھی کبھی چوہدری منیر سے بھی ۔ ان پانچوں کی مشترکہ خصوصیت یہ ہے کہ روپے پیسے کے باب میں ’’نہیں ‘‘ کا لفظ ان کی لغت میں نہیں ۔ زندگی کا ایک بڑا بھید اللہ کے آخری رسولؐ نے تین لفظوں میں بیان کیا تھا: الغنا غن النفس ۔ غنی و ہ ہے ، جو دل کا غنی ہو ۔ بخل سے جس نے نجات پا لی ہو ۔ رزق کمایا نہیں ، عطا کیا جاتاہے ۔مسلمان کی تین بنیادی شرائط میں سے یہ ہے کہ وہ اپنے مال میں سے دوسروں پر خرچ کرے ۔ اپنے اصحابؓ سے اللہ کے آخری رسولؐ نے سوال کیا : وہ کون سا دینا رہے ، ہزاردینار پہ جو بھاری ہے ؟ پھر ارشاد کیا اگر کسی کے پاس دو دینار ہو ں اور ان میں سے ایک اللہ کی راہ میں دے ڈالے۔ گولڈی سے میں نے پوچھا کہ بھوک اور بیماری سے بلکتے کشمیریوں کے لیے اگر ایک فنڈ قائم کیا جائے، کسی طرح ان تک پہنچانے کا کوئی راستہ نکل آئے تو کیا ایک کروڑ روپے دینے کے لیے تم تیار ہو ؟ ہمیشہ کی دوستانہ بے تکلفی سے اس نے کہا :دس لاکھ روپے تم دے سکتے ہو ، وہ اپنے ساتھ لے آنا ۔ ایک کروڑ روپے جس قدر جلد ممکن ہوا ، میں دے دوں گا ۔ گولڈی کے ساتھ یہ میرا پیمان ہے ۔ میرا احساس یہ ہے کہ کسی عالمی، غیر سیاسی تنظیم کو خوراک اور دوائوں کے قحط کا شکار کشمیریوں کی مدد کے لیے عالمی برادری آمادہ کر سکتی ہے ، مثلاً ریڈ کراس۔ مغرب میں بنیادی انسانی حقوق یعنی زندہ رہنے ، کھانے پینے اور آزادی سے حرکت کر نے کا تصور عقیدے کا درجہ رکھتاہے ۔ مسلمانوں سے مغرب کے حکمرانوں کو کد سہی ، عام آدمی میں مگر خیر کا جذبہ ہوتا ہے ۔ یہی وہ لوگ تھے ، عراق پر امریکی یلغار کے ہنگام لاکھوں کی تعداد میں جو سڑکوں پر نکلے تھے ۔ کیا تاریخِ انسان میں سب سے بڑے فوجی اجتماع کے مقابل لاچار کشمیریوں کے لیے انہیں متحرک کیا جا سکتاہے ؟ کوشش تو بہرحال کرنی ہی چاہئیے ۔ ایک ایک صفحے کے اشتہارات دنیا کے ممتاز اخباروں میں چھپوانے چاہئیں اور ہر وہ دوسری کوشش بھی جو ممکن ہو ۔ اسلحی برتری بھارت کو حاصل ہے مگر اس کی فوج کا ایک بڑا حصہ مقبوضہ کشمیر اور آزادی کی دوسری تحریکوں کے مقابلے میں ملوث ہے ۔ آخری تجزیے میں اس کی عددی بالاتری بے معنی ہے ۔ ایک مسلمان کا جذبہ ء شہادت ایسی چیز ہے ، جس کا مقابلہ ’’آوا گون ‘‘ والے نہیں کر سکتے ۔ جنگ سے اللہ کی پناہ مانگنی چاہئیے۔ اس لیے کہ جدید جنگ بڑی ہولناک چیز ہے ، سپاہی کم، بے گناہ اس سے زیادہ مرتے ہیں مگر جنگ وہی قوم ٹال سکتی ہے، سر ہتھیلی پہ رکھنے کے لیے جس کے فرزند تیار ہوں ۔ سید ابو الاعلیٰ مودودی نے کہاتھا اور تاریخ اس کی تصدیق کرتی ہے کہ اللہ نے اپنی یہ دنیا بزدلوں اور نامردوں کے لیے نہیں بنائی ہے ۔ فیصلہ ہونا ہے تو ہو رہے ۔ افراد یا اقوام، اپنی تقدیر ہم خود نہیں لکھتے۔یہ اس کے فیصلے ہیں ، جس کی مرضی کے بغیر ایمازون کے جنگلات کا ایک پتہ بھی حرکت نہیں کرتا۔ اس کی کتاب میں لکھا ہے: اللہ کی رضا سے کتنے ہی چھوٹے لشکر کتنے ہی بڑے لشکروں پر غلبہ پاگئے ۔ عالمی ضمیر اور دوست ممالک سے وابستہ امیدیں دم توڑسکتی ہیں ،جو امید مالک سے وابستہ ہو، وہ کبھی نہیں ٹوٹتی ۔’’وہی اللہ ہے کہ اس کے سو اکوئی معبود نہیں ۔ وہ بادشاہ، پاک ذات، سلامتی والا، امن دینے والا ، نگہبان، غالب، زبردست ، بے پناہ عظمت والا!‘‘ مایوسی کا کیا سوال، مسلمان کبھی مایوس نہیں ہو سکتا۔