بھارت میں مودی کی قیادت میں ایک اتحادی حکومت بننا پاکستان کے لیئے کس قدر اہم اور ضروری ہے یہ چھولے دیکر پاس ہوئے میٹرک پاس اور انٹر فیل دانشوروں کو سمجھ نہیں آنی۔ اگر مودی کی حکومت بنتی ہے اور اسے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا سہارا لینا پڑتا ہے تو واقعی اس سے خطے کی سیاست پر شدید اثر ہوگا اور اہم مسائل بلخصوص مسئلہ کشمیر کے لیئے رہیں ہموار ہوں گی۔ ہمیں انٹلیکچوئیل بھارتیہ سرکار سے خطرہ ہے, اگر مودی جیسی ان انٹلیکچول سرکار کے آغاز سے ہماری طرف ایک انٹلیکچوئیل حکومت ہوتی جو اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ایک صفحے پر ہوتی موجودہ حکومت کی طرح تو اس وقت خطے کے حالات تو اور ہوتے ہی پر پاکستان کے حالات بھی بہتر ہوتے۔ مودی کا ماضی داغدار ہے جس پر سب سے زیادہ خون کے چھینٹے مسلمانوں کے ہیں کیونکہ ساری دنیا جانتی ہے مودی ایک نسل پرست اور ایک مذہبی انتہا پسند سیاستدان ہے۔ جو کسی بھی وقت پوری دنیا میں جنگ کا طبل بجا سکتا ہے اور پاکستان کے لئے مودی جیسا خر دماغ پڑوسی حکمران کسی نعمت سے کم نہیں ہوگا۔ کسی کو سمجھ نہیں آئی تو اس طرح سمجھ لیں کہ عمران خان کی حکومت کو آئے ابھی ایک سال نہیں ہوا اور مودی سرکار کو پے در پے شدید قسم کے عالمی سفارتی سیاسی جھٹکے مل چکے ہیں۔ جس کی اس کو قطعی توقع نہیں تھی اگر نواز شریف رہتا لیکن اب منزل اس کے لیے بہت مشکل ہو گئی ہے جس کی خاطر اس نے اتنے پاپڑ بیلے تھے۔ عمران خان گفتگو میں احتیاط کا دامن چھوڑ دیتا ہو گا اور اس میں بہت سی خامیاں بھی ہیں لیکن میری ذاتی رائے میں اس وقت عمران خان پاکستان کے حق میں خارجہ سطح پر پاور پلے کھیل رہا ہے, مطلب مجھے خان کی پاکستان کی عالمی ساکھ اور طاقت کے لیئے تگ و دو پر قطعی شک نہیں۔ باقی بات کریں عمران خان کے کل کے بیان کو لے کر کہ عمران خان کا کہنا ہے کہ جہادی تنظیمیں پاک فوج نے بنائی اور یہ کہ کشمیر کا مسئلہ مودی کی حکومت میں ہی کسی حل کی طرف جا سکتا ہے تو مجھے قطعی ان دونوں باتوں پر کوئی اعتراض ہے اور نہ ہی کوئی اختلاف ہے۔ اول تو عمران خان نے جہادی تنظیموں کا پس منظر جو بیان کیا ہے وہ انیس سو اسی کی دہائی کا ہے، جس وقت پاک فوج موجودہ صورتحال سے کافی پیچھے تھی مطلب دفاعی حوالے سے بات کی جائے تو اس وقت پاک فوج جذبے میں تو بہت شاندار اور طاقتور فوج تھی، لیکن دفاعی صلاحیتوں میں اسلحہ کی بنیاد پر اتنی طاقتور نہیں تھی اور عددی برتری صرف کام نہیں آتی کہ ہم کسی بیرونی محاذ پر فوج کو بھی جھونک دیں اور وہ دفاع کے لیے سرحدوں پر بھی موجود رہے۔ یہ ناممکن بات ہے لہذا جہادی تنظیمیں اس وقت کی ضرورت تھیں، انہیں بنایا گیا، ان سے کام لیا گیا اور جب ضرورت ختم ہو گئی تو انہیں فلاحی کاموں کے لیے ایک محدود دائرہ کار میں رہتے ہوئے کام کرنے کی اجازت دے دی گئی لیکن جب عالمی پابندیاں لگیں تو باامر مجبوری ان سے یہ اجازت واپس لے کر انہیں ملک کے وسیع تر مفاد میں کالعدم قرار دیا گیا۔ میرا ذاتی خیال ہے بلکہ ہر سمجھدار انسان اس بات کو سمجھ کر اس سے اتفاق کرے گا کہ پاکستان کی فوج اس وقت الحمدللہ بہت طاقتور ہو چکی ہے اور اپنے دشمنوں کے لیے ایک حد تک ناقابل تسخیر ہے، کسی ایسی تنظیم کا وجود جو کل کلاں کو پاکستان کی سفارتی اور سیاسی حزمیت کا باعث بنے، اس کا نہ ہونا ہی بہتر ہے۔ جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اس وقت کوئی جہادی تنظیم تو گراؤنڈ پر تھی نہیں کہ جسے کالعدم قرار دیا جاتا، یہ سارا چیپٹر دس سے پندرہ سال پہلے کلوز ہو چکا ہے البتہ جنہیں اس وقت کالعدم قرار دیا گیا انہیں صرف سابقہ کارناموں کی بنیاد پر لسٹ اپ کیا گیا اور کالعدم قرار دے دیا۔ آپ کو اس وقت یہ بات بھی سمجھنی چاہیے کہ ہم اس وقت معاشی لحاظ سے بہت کمزور ہیں، اسکی سب سے بڑی وجہ تو یہ ہے کہ کرپشن کے ناسور نے ہمارے ملک کی معاشی جڑیں کھوکھلی کر دی ہیں۔ لیکن اس سے بھی بڑی بات یہ ہے کہ ہماری گذشتہ دونوں حکومتوں نے خارجہ امور پر کچھ خاص کام نہیں کیا جس کی وجہ سے بھارت کو دس سال اپنا بیانیہ دنیا کو سنانے اور سمجھانے کے لئے کافی وقت ملا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان میں موجود جن فلاحی تنظیموں کا دہشت گردی سے دور کا بھی تعلق نہیں تھا انہیں بھی کالعدم قرار دینا پڑا صرف اس وجہ سے کہ ایف اے ٹی ایف کی تلوار ہمارے سر پر لٹک رہی ہے کہ ہم گرے سے بلیک لسٹ میں نہ چلے جائیں۔ اس وقت ملک کے حالات یہ ہیں کہ جتنے بھی بدمعاشیہ کے سرکردہ افراد تھے جو کہ بظاہر اشرافیہ کہلاتے ہیں، سبھی کے سبھی مختلف کیسوں کی مد میں عدالتوں کے چکر لگا رہے تھے لیکن اب ان کی پریشانی کو کچھ قرار آ رہا ہے جب لاہور ہائی کورٹ سے ہر فیصلہ ان کے حق میں آرہا ہے۔ خان اکیلا اس معاملے پر کچھ نہیں کر سکتا، صرف نعرے لگانے سے, بڑھکیں مارنے سے یا کنٹینر پر کھڑے ہو کے بار بار عوام سے یہ بات کر لینے سے کہ احتساب کروں گا، احتساب کا عمل ہو سکتا تو ہر بندہ ہی احتساب کر رہا ہوتا۔ لیکن ایسا ممکن نہیں کیونکہ قانون سازی کے لیے پارلیمنٹ اور سینٹ کا راستہ لینا ہی پڑتا ہے, جب کہ عمران خان کو وہاں پر شدید مایوسی کا شکار ہونا پڑا ہے کہ اپوزیشن تو چلو اس کے لائے گئے کسی قانونی بل کو رد کرے سو کرے لیکن اس کی اپنی ٹیم میں ایسے ایسے لوگ موجود ہیں جو سابقہ جماعتوں سے اس کی پارٹی میں آئے، الیکشن لڑا، پارلیمنٹ میں گئے اور اب ان کی کسی بھی سنگین فیصلے کی حتمی گھڑی میں وفاداریاں سابقہ جماعتوں کے سرکردہ لیڈروں کے ساتھ ہوتی ہیں۔ لہذا ایسی صورت حال میں عمران خان کو ایسے بولڈ فیصلے لینا اور بولڈ بیانات دینا ضروری بھی ہے، اور یہ اس کی مجبوری بھی ہے تاآنکہ ملک میں اسلامی صدارتی نظام نافذالعمل ہو جائے۔ تو پھر بھی تب اگر یہی صورتحال رہی تو پھر ہمارا شکوہ کرنا بنتا ہے لیکن ہماری جو صورتحال چل رہی ہے اس کا ذمہ دار عمران خان نہیں بلکہ وہ لوگ ہیں جو اس سے پہلے اس ملک کے سیاہ و سفید کے مالک تھے۔ ہمیں ایف اے ٹی ایف سے بھی نکلنا ہے، ہمیں احتساب بھی کرنا ہے، ہمیں ملک کی معاشی اور اقتصادی صورتحال کو بہتری کی جانب لے کر جانا ہے، ہمیں تمام قرضہ جات سے نجات حاصل کرنی ہے اور ہمیں پاکستان میں موروثی سیاست کا خاتمہ بھی کرنا ہے تو اس وقت عمران خان کے فیصلوں اور اس کے بیانات کو لے کر ہلڑ بازی کرنے کے بجائے سنجیدگی سے سوچنا چاہیے کہ ایسا کیوں ہوا اور ایسا کیا کیا جائے کہ دوبارہ ایسا نہ ہو۔ باقی عمران خان پاکستان سے مخلص ہے اس میں دو رائے نہیں ہے لہذا وہ ایسی کوئی بات نہیں کرے گا جس سے پاکستان کو نقصان ہو اور اسٹیبلشمنٹ کو حقیقتا شرمندہ ہونا پڑے۔