ایک چینی ڈاکٹر ایک دن مسجد میں گیا اس نے دیکھا کہ ایک مسلمان منہ ہاتھ دھو رہا ہے۔ وہ مسلمان کے پاس گیا اور پوچھا کہ جس طریقے سے آپ منہ ہاتھ دھو رہے تھے یہ طریقہ آپ کو کس نے سکھایا ہے۔ مسلمان نے جواب دیا ہم اس طرح منہ ہاتھدھونے کو وضو کہتے ہیں اور یہ طریقہ ہمارے نبی اکرمؐ نے ہم کو سکھایا ہے ہم دن میں پانچ بار وضو کرتے ہیں۔ اس نے کہا کہ میں آپ کے نبیؐ سے ملنا چاہتا ہوں وہ کہاں رہتے ہیں۔وہ شخص بولا ان کا تو چودہ سو سال پہلے انتقال ہو گیا تھا۔وہ بولا میں چینی طریقہ علاج کا ماہر ڈاکٹر ہوں، ہم جانتے ہیں قدرت نے انسان کے جسم میں کھال کے نیچے چھیاسٹھ مقامات پر ایک خاص طریقے سے مساج کیا جاتا ہے جس سے پچاس سے زیادہ بیماریوں کا موثر علاج ہوتا ہے۔ میں نے دیکھا کہ آپ جس طریقے سے وضو کر رہے تھے اس میں آپ نے وضو کے دوران جسم کی ایسی باسٹھ جگہوں پر ہاتھوں سے مساج کیا جہاں قدرت نے سوئچ نصب کر رکھے ہیں اور دن میں پانچ دفعہ وضو کرنے کی وجہ سے آپ کی بہت سی بیماریاں خود بہ خود غیر محسوس طور پر آپ کے جسم سے رفع ہوتی رہتی ہیں جس کا آپ کو احساب بھی نہیں ہوتا۔ میرا خیال تھا کہ جس شخص نے آپ کو وضو کا یہ طریقہ سکھایا وہ یقیناً انسانیت کا درد دل میں رکھنے والا ایک عظیم محقق اور علم طب کا ماہر ہوگا۔حضرت عبد اللہ صنابحى (رضی اللہ عنہ) کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : بندۂ مومن جب وضو کرتا اور اس میں کلی کرتا ہے تو اس کے منہ کے گناہ جھڑ جاتے ہیں ؛ اور جب ناک میں پانی ڈال كر اسے جهاڑتا ہے، تو اس کے ناک کے گناہ جھڑ جاتے ہیں ؛ اور جب چہرہ دھوتا ہے تو اس کے چہرے کے گناہ جھڑ جاتے ہیں ، یہاں تک کہ پلکوں کے نیچے سے بھی نکل جاتے ہیں ؛ اور جب دونوں ہاتھ دھوتا ہے تو اس کے ہاتھوں کے گناہ جھڑ جاتے ہیں ، یہاں تک کہ ناخنوں کے نیچے سے بھی نکل جاتے ہیں ؛اور جب اپنےسر کا مسح کرتا ہے تو اس کے سر کے گناہ جھڑ جاتے ہیں ، یہاں تک کہ اس کے کانوں سے بھی نکل جاتے ہیں ؛ اور جب اپنے پاؤں دھوتا ہے تو اس کے پاؤں کے گناہ جھڑ جاتے ہیں ، یہاں تک کہ ان کے ناخنوں کے نیچے سے بھی نکل جاتے ہیں ۔ فرمایا:پھر اس کا مسجد جانا اور نماز پڑھنا اس پر مزید ہوتا ہے، دوسری جانب ایک یہ واقعہ ہے کہ ایک وڈیو بیان میں معروف مذہبی سکالر مولانا طارق جمیل نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اللہ کے جو دوست ہوتے ہیں وہ مر کر بھی زندہ رہتے ہیں اور جو دنیا میں بادشاہ اکثر گزرے ہیں ان کی قبروں پر کوئی ایک بندہ بھی فاتحہ نہیں پڑھتا ہے ، مولانا طارق جمیل نے کہا کہ ایک بار میں مغل بادشاہ ہمایوں کی قبر پر گیا ، مغلوں کے دستور کے مطابق اوپر ایک نمائشی قبر ہوتی تھی اور اصل قبر نیچے تہہ خانے میں ہوتی تھی تو میں نے گائیڈ سے کہا کہ مجھے اصل قبر کی طرف لے کر جاؤ توجب میں وہاں پہنچا توایک تنگ سا راستہ تھا جس کے آگے ایک چھوٹا سا کمرہ تھا۔گائیڈ میرے آگے چل رہا تھا جس کے ہاتھ میں ٹارچ تھی۔میں نے اس جیسا خوف منظر زندگی میں کبھی نہیں دیکھا،