ہم دوستوں اور دوسروں کے ساتھ تقریبات کے لیے لکھتے رہتے ہیں۔ ہمارے اپنے ساتھ بھی محفلیں ہوتی ہیں۔ آج کل بہت تقریبات کی صدارت کی ذمہ داری مجھ پہ ڈال دی جاتی ہے مگر میں کوشش کرتا ہوں کہ اپنے تذکرے سے اپنے کالم کو بچائے رکھوں۔ ایک تقریب میرے بارے میں بڑی بھرپور ہوئی۔ دل اندر اندر سے چاہتا رہتا کہ اس کا ذکر کہیں ہو۔ ذکر خیر ہو۔ ہم ادیبوں، شاعروں کے لیے کوئی تقریب ہو تو چند سطروں کی چھوٹی سی خبر کے اندر کسی صفحے پر لگ جاتی ہے۔ بالعموم کالموں میں بھی اس کا تذکرہ نہیں ہوتا۔ کسی وزیر شذیر یا حکمران وغیرہ کو بلا لیا جائے تو فنکشن سیاسی ہو جاتا ہے اور خبر بھی صرف سیاستدان یا حکمران کی ہوتی ہے۔ ایک لائن میں بتا دیا جاتا ہے کہ فلاں تقریب میں انہوں نے خطاب فرمایا۔ تقریباً ہر روز میرا کالم شائع ہوتا ہے۔ میرا نام تصویر کے ساتھ موجود ہوتا ہے۔ کالم تو ہم دوسروں کے لیے لکھتے ہیں۔ آج اپنے لیے ایک کالم دیکھیے۔ ایشین کلچرل ایسوسی ایشن والوں نے میرے ساتھ زبردستی ایک تقریب کر ڈالی۔ برادرم سہیل بخاری اور برادرم طاہر چودھری میرے پاس آئے۔ دیر تک بات ہوتی رہی۔ آخر کار وہ کامیاب ہوئے۔ میں نے کہا کہ جو کچھ تم لوگوں نے میرے ساتھ کرنا ہے کر لو۔ اس حادثے کو چند روزگزر چکے ہیں مگر اس فنکشن کا کہیں ذکر نہ ہوا تو میں نے سوچا کہ میں خود ہی ذکر کرتا ہوں۔
برادرم سہیل بخاری اور برادرم طاہر چودھری میرے پاس آئے۔ میرے ساتھ ایک تقریب کرنے کے لیے اصرار کیا۔ میرے ساتھ اتنی کم تقریبات ہوئی ہیں کہ انہیں نہ ہونے کے برابر کہا جا سکتا ہے۔ ایشین کلچرل ایسوسی ایشن کی یہ تقریب مقررین کے حوالے سے بہت بھرپور تھی۔
میری فیملی بھی اس شاندار تقریب میں شریک ہوئی۔ اچانک میرے میانوالی کی ایک بہادر اور مہربان خاتون لیڈر بڑی بہن ذکیہ شاھنواز تشریف لے آئیں۔ انہی دیکھ کر میں خوشگوار حیرانی کی فراوانی میں ڈوب گیا۔ انہوں نے ایک گروپ فوٹو کے لیے دوسرے خواتین و حضرات کے ساتھ میری اہلیہ رفعت خانم کو بھی بلایا۔ یہ ایک ذاتی تعلق کا تاثر تھا جسے بھلایا نہیں جا سکتا۔ ذکیہ شاہنواز میانوالی کی واحد نمائندہ خاتون ہیں اور ہم ان کی اس محبت کے لیے شکر گزار ہیں۔ وہ سیاسی حلقوں میں عزت کی نگاہ ہے دیکھی جاتی ہیں۔ اب وہ عملی تخلیقی حلقوں میں مقبول ہو رہی ہیں۔
یہ ایک منفرد محفل تھی۔ یہاں کوئی صدر محفل نہ تھا۔ حتیٰ کہ سٹیج پر بھی کوئی نہ تھا۔ صرف بولنے والا سٹیج پر جاتا اور مائیک آن ہو جاتا۔ ایشین کلچرل ایسوسی ایشن کے صدر راشد فرزند بھی سامعین کے ساتھ بیٹھے ہوتے تھے۔
سہیل بخاری کا تعلق فلم اور کلچرل پروگراموں کے ساتھ ہے تو محفل میں کچھ لوگ اس شعبے سے بھی تھے۔ برادرم عرفان کھوسٹ اور محترم پرویز کلیم نے بھی میرے لیے بہت اچھے جذبات کا اظہار کیا۔ برادرم راشد محمود نے سہیل بخاری کی نمائندگی کرنے والے کمپیئر کے لیے دیکھا کہ وہ محفل کو بے قابو کر رہا ہے تو میری محبت میں خود ہی آفر کی کہ میں کمپیئرنگ کروں گا اور اتنی زبردست جامع اور دلچسپ کمپیئرنگ کی کہ جی خوش ہو گیا۔ کسی محفل کی کامیابی کے لیے کمپیئرنگ بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ بیگم ذکیہ شاہنواز، خاور نعیم ہاشمی، ڈاکٹر اختر شمار، صوفیہ بیدار، ڈاکٹر صغرا صدف، مدثر اقبال بٹ، بشریٰ اعجاز عرفان کھوسٹ، پرویز کلیم اور کچھ دوسرے دوستوں نے خطاب کیا۔ سارے دوستوں نے خوبصورت باتیں کیں۔ برادرم ڈاکٹر اختر شمار کا مضمون بہت خوبصورت تھا۔ وہ کسی ادبی میگزین میں اور ڈاکٹر اختر شمار کے زبردست واحد نمائندہ ادبی رسالے بجنگ آمد میں شائع ہوا ہے۔ برادرم خاور نعیم ہاشمی کا شاندار مضمون ہی کالم کے آخر میں شائع کیا جا رہا ہے۔ میں ذاتی طور پر برادرم سہیل بخاری کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے اس تقریب کا اہتمام کیا۔
مایہ ناز آرٹسٹ اور ادیب خاور نعیم ہاشمی کا مضمون پیش خدمت ہے۔
”ایک حقیقی سفید پوش، ترقی پسند دانشور
اجمل نیازی- محبتوں کے لامتناہی سلسلوں کا نام، جن کا دوسرا کنارا ہوتا ہی نہیں۔ ایک تعلق جو کبھی ٹوٹتا ہی نہیں۔ ایک ایسا دوست جسے کسی ’مشکل‘ کسی مصیبت میں پکارنا نہیں پڑتا، وہ ازخود آپ کو اپنے ساتھ نظر آ جاتا ہے۔
ایک مکمل خوددار اور انا پرست آدمی جو اپنی خودی اور انا کی دولت بھی دوسروں پر قربان کر دیتا ہے۔
اجمل نیازی- جس کے ساتھ ہوتا ہے اول و آخر اسی کے ساتھ ہوتا ہے۔ حضرت علیؓ کہتے ہیں کہ ان دوستوں سے کنارا کر لو جو تمہارے دشمنوں کے ساتھ بھی ملتے ہیں اور اجمل نیازی جس کا دوست ہوتا ہے وہ اس کے دشمنوں کو بھی اپنا دشمن سمجھتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ کسی نے محبت، تعلق اور وفا سیکھنا ہو تو اجمل نیازی سے سیکھے۔
اجمل نیازی جسے چاہتا ہے، جسے عزیز رکھتا ہے اس کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں سن سکتا۔ اس کی سب سے بڑی مثال اس کی منیر نیازی سے محبت ہے، جس میں منیر نیازی کے ہم سے بچھڑ جانے کے بعد بھی کمی نہیں آئی۔ ایک رائٹر اجمل نیازی ایک صحافی، ایک کالمسٹ، ایک شاعر اور ایک رائٹر ہی نہیں ایک بہت بڑا فائٹر بھی ہے جو انسانی حقوق آزادی جمہوری، آزادی صحافت اور آزادی اظہار کے لیے بھی مسلسل لڑتا ہوا نظر آیا ہے۔ وہ کبھی کمپرومائز نہیں کرتا۔ میں نے عوام و خواص میں جتنی محبت اور عقیدت اجمل نیازی کے لیے دیکھی ہے وہ علم و ادب سے وابستہ کم کم لوگوں کو ملتی ہے۔ اجمل نیازی کے پاس نام، عزت اور احترام کے سوا کچھ بھی نہیں ہے“۔