پاکستان پیپلز پارٹی میں شامل دو سیّدوں، قومی اسمبلی میں قائدِ حزب اختلاف سیّد خورشید شاہ اور سابق وزیراعظم سیّد یوسف رضا گیلانی نے اپنی گفتگو میں دو کہاوتیں (ضرب اُلامِثال) بیان کی ہیں۔ سیّد خورشید شاہ نے 2 نومبر کو اسلام آباد میں جناب عمران خان کی قیادت میں نہ ہونے والے دھرنے کے بارے میں کہاوت بیان کرتے ہُوئے کہا کہ ’’جو گرجتے ہیں وہ برستے نہیں‘‘ اور سیّد یوسف رضا گیلانی نے اپنی پسند کی کہاوت کے ذریعے کہا کہ ٹی آر او کے معاملے میں ہم نے اپنی داڑھی دوسروں کے حوالے کردی ہے‘‘۔ گیلانی صاحب نے کہا کہ ’’اگر ٹی او آر پارلیمینٹ میں بنتے تو اُس کا تقدس بڑھ جاتا کیونکہ پارلیمنٹ ملک کا سب سے بڑا ادارہ ہے ۔ جب تک پارلیمنٹ مضبوط نہیں ہوگی، اُسے دوسرے ادارے عزت نہیں دیں گے‘‘۔
بادل کی کڑک ، شیر کی آواز اور ہاتھی کی چنگھاڑ کو گرج کہا جاتا ہے ۔ اپنی فطرت کے مطابق بادل ، شیر اور ہاتھی کو گرجنے کے بعد برسنا بھی چاہیے ۔ کئی دِن برسنے کے بعد جناب عمران خان اسلام آباد میں دھرنا دے کر نہیں برسے تو سیّد خورشید شاہ کو کہاوت کے ذریعے اُن پر طنز کرنے کا موقع مِلا کہ ’’جو گرجتے رہے وہ برسے کیوں نہیں؟‘‘۔ عمران خان سیّد خورشید شاہ کو ’’ڈبل شاہ‘‘ کہتے ہیں۔ اگر وہ ’’انگلش میڈیم‘‘ کے بجائے ’’پنجابی میڈیم‘‘ ہوتے تو شاہ صاحب سے یہ کہاوت بیان کرسکتے تھے کہ ’’شاہ جی! سائِیاں کِدھرے تے ودھائیِاں کِدھرے‘‘۔
سیّد خورشید شاہ قائدِ حزب اختلاف کی حیثیت سے قومی اسمبلی میں گرجتے ہیں برستے نہیں لیکن اُن کے “ریموٹ کنٹرولز” جناب آصف زرداری اور چیئرمین بلاول بھٹو کے ہاتھوں میں ہیں ۔چیئرمین بلاول بھٹو بھی وزیراعظم نواز شریف اور اُن کی حکومت پر صرف گرجتے ہیں ، برسنے کا نام نہیں لیتے ۔ جناب آصف زرداری گذشتہ سال جون میں اسلام آباد کی ایک تقریب میں جرنیلوں پر گرجے اور اُنہوں نے کہاوت کا سہارا لیتے ہُوئے کہا کہ ’’مَیں جرنیلوں کی اِینٹ سے اِینٹ بجا دوں گا‘‘۔ دبئی چلے گئے ۔ ابھی تک نہیں لوٹے اور اُن کے چاہنے والے دُبئی کی طرف مُنہ کرکے گاتے ہیں کہ…؎
’’سجناں ! تَینوں اکھیاں اُڈیک دِیاں‘‘
سیّد یوسف رضا گیلانی کی ’’ہم‘‘ سے مراد پارلیمنٹ ہے اور اُن کا یہ بیان بھی درست ہے کہ ’’پارلیمنٹ ملک کا سب سے بڑا ادارہ ہے‘‘ اور یہ کہ ’’جب تک پارلیمنٹ مضبوط نہیں ہوگی اُسے دوسرے ادارے عزت نہیں دیں گے‘‘۔ ریاست کے تین آئینی ستونوں میں پارلیمنٹ سب سے بڑا ستون ہے اور دوسرے بڑے ستونوں میں عدلیہ اور انتظامیہ شامل ہیں۔ میڈیا نے ریاست کے چوتھے ستون کا درجہ بزور حاصل کر لیا ہے چنانچہ جب پارلیمنٹ انتظامیہ اور میڈیا کوئی خلافِ آئین کام کرے تو عدلیہ اُن تینوں کا محاسبہ کرتی ہے ۔ فوج انتظامیہ کا حصہ ہے لیکن جب کوئی آرمی چیف اقتدار پر قبضہ کرلیتا ہے تو فوج ریاست کا سب سے اہم ستون بن جاتی ہے اور فوجی حکمران ریاست کے مسلمہ چاروں ستونوں کو اپنے ماتحت کرلیتا ہے ۔ کیا ہی اچھا ہو کہ سیّد یوسف رضا گیلانی اپنے قائدین جناب آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو سے “گائیڈ لائنز” لے کر کم از کم ریاست کے چوتھے ستون ( میڈیا ) کو ضرور بتائیں کہ ’’ پارلیمنٹ کو مضبوط کیسے بنایا جاسکتا ہے ؟۔ فرض کرلیا جائے کہ ’’جناب بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو نے جمہوریت کے لئے اپنی اپنی جان قربان کی تو اِس سوال کا جواب کون دے گا کہ اُنہوں نے اپنے اپنے دور میں پارلیمنٹ کو مضبوط کیوں نہیں کیااور اُن کے بعد جناب آصف زرداری نے ؟۔
ریاست کے دوسرے اداروں نے پارلیمنٹ کو کب منع کِیا تھا کہ وہ پانامہ لیکس کے حوالے سے آف شور کمپنیوں کے ذریعے قومی دولت لوٹنے والوں کا محاسبہ کرنے کے لئے ٹی او آر نہ بنائے ؟ اور جِن سابقہ حکمرانوں نے قومی دولت لُوٹ کر بیرونی ملکوں میں جمع کرادی اور وہاں اپنی اور اپنے خاندان کے افراد کے ناموں سے جائیدادیں بنالیں اُن کا محاسبہ نہ کِیا جائے؟ ۔ پاکستان کی چاروں صوبائی اسمبلیاں بھی پارلیمنٹ کا حِصہ ہیں اور اِس لحاظ سے تمام وزرائے اعلیٰ بھی ۔ سب سے بڑے صوبہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف نے اپنے اعلان ( یا وعدے ) پر ابھی تک عمل کیوں نہیں کِیا کہ ’’ مَیں سابق صدر آصف زرداری سے لوٹی ہُوئی قومی دولت وصول کرنے کے لئے انہیں ٹانگوں سے پکڑ کر سڑکوں پر گھسیٹوں گا‘‘۔
کیا میاں شہباز شریف کا یہ بیان محض محاورتاً تھا / ہے؟۔ کیونکہ پاکستان کے آئین میں یہ کہیں نہیں لِکھا کہ ’’کسی وزیراعلیٰ کو سابق صدر سے لوٹی ہُوئی قومی دولت وصول کرنے کے لئے اُسے ٹانگوں سے پکڑ کر سڑکوں پر گھسیٹنے کا اختیار حاصل ہے؟۔ میاں صاحب نے یہ بھی کہا تھا کہ ’’میں آصف زرداری کو لاہور، کراچی اور لاڑکانہ کی سڑکوں پر انہیں ٹانگوں سے پکڑ کر گھسیٹوں گا‘‘۔ لاہور کی حد تک تو شاید (خلافِ آئین) ممکن ہوتا لیکن سندھ کے وزیراعلیٰ سیّد مراد علی شاہ کو بھی مکمل صوبائی خود مختاری حاصل ہے۔ وہ بھلا کسی دوسرے صوبے کے وزیراعلیٰ کو یہ موقع کیوں دیں گے کہ وہ اُن کے صوبے میں آ کر کراچی اور لاڑکانہ میں بھی من مانی کر سکیں؟۔
اب رہا داڑھی کا معاملہ۔ اپنی مرضی / خواہش کے بغیر کوئی بھی شخص اپنی داڑھی دوسرے کے حوالے نہیں کرتاکہ ’’کر لو جو کرنا ہے؟‘‘۔ کہاوت نہیں بلکہ پرانے زمانے کی کہانی کے مطابق ایک شاعر نے اپنے ملک کے بادشاہ کی شان میں قصیدہ لِکھا اور دربار میں پڑھا۔ بادشاہ بہت خوش ہُوا اور اُس کے درباریوں نے بھی شاعر کو خوب داد دی۔ بادشاہ نے اپنی لمبی داڑھی پر ہاتھ پھیرا اور شاعر سے کہا کہ ’’شاعر! تمہارا قصیدہ مجھے پسند آیا لیکن تم بدقسمت ہو۔ میرا قانون یہ ہے کہ جب کوئی مجھے خوش کرتا ہے تو مَیں اپنی داڑھی پر ہاتھ پھیرتا ہُوں، اِس طرح جتنے میری داڑھی کے بال جھڑ کر میرے ہاتھ میں آ جاتے ہیں مَیں ایک بال کی ایک ہزار اشرفی اُسے انعام میں دے دیتا ہُوں۔ مَیں نے تمہارا قصیدہ سُن کر اپنی داڑھی پر ہاتھ پھیرا لیکن ایک بال بھی نہیں جھڑا۔ یہ تمہاری قِسمت!‘‘۔
شاعر نے ہاتھ باندھ کر عرض کِیا ۔ بادشاہ سلامت ! جان کی امان پائوں تو کچھ عرض کروں!‘‘۔ بادشاہ نے اُسے جان کی امان دے دی ۔ شاعر نے عرض کِیا کہ ’’ عالم پناہ یہ آپ کا بنایا ہُوا قانون ہے۔ مَیں اگر قانون بنائوں تو میرا ہاتھ ہو اور آپ کی داڑھی پھر آپ اور آپ کے سارے درباری دیکھیں گے کہ مَیں کتنی ہزار اشرفیاں انعام میں لے کر جاتا ہُوں؟‘‘۔ اُس کے بعد کیا ہُوا؟۔ کہانی کی کتاب کے آخری اوراق پھٹے ہُوئے تھے۔ مَیں خوفزدہ ہُوں خُدانخواستہ مفلوک اُلحال عوام ’’بادشاہ لوگوں‘‘ سے اپنا انعام/حق وصول کرنے کے لئے اپنا قانون نہ بنا لیں؟۔ میاں شہباز شریف اپنی تقریروںمیں کئی بار خبردار کر چُکے ہیں کہ ’’اگر اشرافیہ نے اپنا روّیہ نہ بدلا تو پاکستان میں ’’خونِیں اِنقلاب‘‘ آئے گا ‘‘۔ میری خواہش ہے اور اشرافیہؔ کی خواہش بھی ہوگی کہ پاکستان میں خونِیں انقلاب نہ آئے۔ پھر کون جانے کِس کی داڑھی کِس کے ہاتھ میں ہوگی؟۔ خُدا کرے کہ مَیں اُس سے پہلے ہی خالقِ حقیقی سے جا مِلوں لیکن اگر …؎
’’ مر کے بھی چَین نہ پایاتو کِدھر جائیں گے‘‘