نفرت، انتہا پسندی، تعصب اور انسان دشمنی کی علامت بھارتی قیادت کے لئے ہندومت کے چند”یاما” (YAMA) “یاما”سنسکرت کی اصطلاع ہے جس کا مطلب ہے “موت” یعنی ایسی اخلاقی پابندیاں جنہیں پامال کرنے سے انسان اپنی موت کو دعوت دیتا ہے جبکہ ان پر عمل کرنے سے انسان کی شیطانی فطرت قابومیں رہتی ہے ۔ ان “یاماز” کا ذکر ہندوؤں کی مقدس کتابوں مثلاً شندھیلہ، وہارا اپنیشد، ہاتھا یوگا اور پتنجلی کی کتاب”یوگاسترا” میں ملتا ہے۔ ہندوستانی مذاہب میں “اہنسا” کا اصول کافی شدومد سے اپنایا گیا ہے ۔ مطلب ہے کسی بھی ذی روح کو زبان، دل یا ہاتھ سے تکلیف نہ دینا۔ خاص طور پر جین مت کی تو بنیاد ہی اس اصول پر ہے جس کی تعلیمات کے مطابق آپ کسی جانور، چرند پرند حتیٰ کہ کیڑوں مکوڑوں کو بھی نہیں مرسکتے ۔ رگ وید کے مطابق” یہی سب یاماز کی روح ہے ۔ جس نے اس پر عمل کیا گویا اس نے تمام یموں پر عمل کر لیا۔” ہندو مت میں اس کا تصور8ویں صدی قبل مسیح سے ویدوں کی تعلیمات میں پایا جاتا ہے لیکن اس میں قربانی کے لئے جانوروں کو ذبح کرنے کی اجازت تھی ۔ ہندوؤں کی مقدس کتب وید، پران، مہابھارت، رامائن وغیرہ میں جہاں پر اہنسا کے اصولوں پر پابندی کرنے کا حکم دیا گیا وہیں پر اس پہ عمل کرنے والوں کے لئے اجر وثواب کی نوید بھی سنائی گئی ہے۔ “جب انسان اہنسا کے دھرم پر قائم ہو جاتا ہے تب اس کے دل سے دشمنی کا خیال قطعی چھوٹ جاتا ہے بلکہ اس کے سامنے یا اس کی صحبت سے بھی لوگ دشمنی چھوڑ دیتے ہیں ۔”(رگ وید۔یوگ درشن ادھیائے اپاؤ دوسوتر35) ۔ (مخلوقات) کو ضرر پہنچانے سے گریز، راستی، غیر قانونی قبضے اور تصرف سے گریز، پاکیزگی اور اندریوں کو قابوں رکھنے کو منونے چار ذاتوں کے مقدس قوانین کا خلاصہ قرار دیا ہے ۔( منو دھرم شاستر 10:63)عجیب بات ہے کہ غیر قانونی قبضے اور تصرف سے گریز ہی کی کشمیر میں دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں ۔ دوسرا “یم ” ہے ستیہ ۔ سنسکرت کا لفظ ہے جس کا عام مفہوم ” سچائی” ہے ۔ ستیا کی سنسکرت میں یوں وضاحت کی گئی ہے ۔ “ساتے ہتم ستیم” (SATE HITAM SATYAM) یعنی ایساراستہ جو ابدی سچائی کی جانب لے جاتا ہے ۔ “ستیا” کی فلسفیانہ تشریح یوں بیان کی گئی ہے۔”جو تبدیل نہ ہو۔ جو ہر حالت میں ایک جیسا رہے۔ ہر حالت میں مضبوط ۔ قابل اعتماد ۔ معتبر ، پکا ، پختہ ، مستحکم ایسا جو کبھی نہ ٹوٹے نہ بکھرے نہ تبدیل ہو یعنی ستیہ وہ سچائی ہے یا چیز جس پر اعتبار اور بھروسہ کیا جا سکتا ہے ” اسی لئے ہندو خدا کی تعریف یوں کرتے ہیں : “ہری اوم تت ست” (وہ لازوال، لافنا ہستی ہمیشہ سے سچی ہے ) ہندو مت کا اک اور “یم” استیہ سے مراد ہے چوری کرنا ۔ کسی دوسرے کی شے چوری، سینہ زوری سے ہتھیا لینا یا کسی دھوکہ دہی فراڈ سے نقصان پہنچانا۔ ناپ تول میں کمی بیشی ۔ اصل چیز کی بجائے نقل دینا۔ کسی کی مجبوری سے ناجائز فائدہ اٹھانا ۔ قرض پر سود در سود وصول کرنا ۔ یہ سب چوری ہی کی مختلف قسمیں اور شکلیں ہیں ۔ ہندوؤں کی قانون کی کتاب منوسمرتی میں لکھا گیا ہے ۔ 1۔ لوگوں کا مال چوری کرنے والے2۔ چوری شدہ مال بیچنے والے3۔ دھوکے سے نقلی مال بیچنے والے4۔کم ماپنے والے5۔ جوئے باز اور سٹے باز 6۔ عامل، جعلی پیر ، فال نکالنے والے7۔ جادوگر اور قسمت کا حال بتانے والے…. یہ سب چور ہیں تو کشمیر چرانے اوراس پر قبضہ کرنے والے؟ ایک اور”یم” کو کشامہ(KASHAMA) کہتے ہیں ۔ یہ بھی سنسکرت ہی کا لفظ ہے جس کا مطلب صبر کرنا، اپنے آپ پر ، اپنے غصے پر اور جذبات پر قابو رکھنا اور وقتی جذبات میں نہ بہنا ۔ سنسکرت میں اسے شانتی بھی کہتے ہیں ۔ “کشامہ” ہندو مت کے ضابطہ اخلاق میں پانچویں نمبر پر آتا ہے ۔ پالی زبان میں اس کے لئے کھانتی(KHANTI)کا لفظ استعمال ہوتا ہے اور بدھ مت کی اہم تعلیمات “دھمپد” کے اشلوک نمبر 399 میں کھانتی یوں DEFINEکی گئی ہے۔ “وہ جو برداشت کرے ۔ جس کو غصہ نہ آئے چاہے اس کی بے عزتی کی جائے ۔ اس کو زخمی یا قید کیا جائے ۔ صبر ہی اس کی طاقت ہو ۔ صبر ہی اس کی فوج ہو ۔ صبر ہی اس کی قوت ہو ۔ “ہندومت کے یاماز میں سے ایک دیا(DAYA)ہے۔ مطلب رحمدلی ، دوسروں پر ترس کھانا، دوسروں کے دکھ کو اپنا دکھ سمجھ کر ان کی ہر طرح سے مدد کرنا۔ بدھ مت میں دیا کے لئے کرونا(KARUNA)کا لفظ استعمال ہوتا ہے ۔ انگریزی میں COMPASSIONسمجھ لیںTO SUFFER TOGETHER WITH اردو میں رحم ، رحمدلی تو میں سوچتا ہوں بھارتی قیادت کشمیر میں نہتے کشمیریوں پر ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑتے وقت کہیں دھرم کے نام پر دھرم ہی کی دھجیاں تو نہیں اڑا رہی ؟ ان کا اسلوب، ان کی عادات ، ان کے اطوار ، ان کی حرکات دیکھ کر کبھی کبھی تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ تو اپنے دھرم تک سے واقف نہیں جو دھرم کے نام پر آگ اور خون کی ہولی کھیل رہے ہیں ـــــــ لیکن کب تک؟