کراچی: انسان میں اپنے گردوپیش، آب وہوا اور ماحول کی دیگر چیزوں سے مطابقت پیدا کرنے کی جو زبردست صلاحیت پائی جاتی ہے اس کا مشاہدہ چلی کے صحرا ’اٹاکاما ‘ کے رہنے والے لوگوں میں کیا جاسکتا ہے جنھوں نے زہر پینے کی صلاحیت پیدا کرلی ہے۔
یونیورسٹی آف چلی کے سائنسدانوں کی تحقیق کے مطابق صحرا کے ’کیوبراڈا کامارونس ‘ خطے کے پانی میں سنکھیا (آرسینک) کی مقدار اس مقدار سے 100 گنا زیادہ ہے جس سے زیادہ کو عالمی ادارہ صحت نے زہر قرار دے رکھا ہے۔
محققین نے اس علاقے کے 150 افراد کے جینز کا جائزہ لیا ہے اور ان کے ڈی این اے میں ایک ایسے انحرافی جین کا پتہ چلایا ہے جو باقی ماندہ نوع انسانی میں نہیں ہے۔ اس جین میں ایک ایسے خامرے (اینزائم) کا کوڈ موجود ہے جو سنکھیا کو 2 قدرے کم زہریلے مرکبات میں تبدیل کر دیتا ہے۔ اس علاقے میں 7 ہزار سال قبل جنوبی امریکا کے اصل مکینوں نے جب آبادیاں بسائیں تو ان کے پاس 2 راستے تھے: یا تو وہ علاقے میں دستیاب سنکھیا آلود پانی پینا شروع کردیں یا پھر پیاسے رہ کر جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں چنانچہ انھوں نے یہ پانی پینا شروع کردیا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان باشندوں کی آئندہ نسلوں کے نظام انہضام میں سنکھیا پینے اور اسے ہضم کرنے کی زبردست صلاحیت پیدا ہوگئی ہے۔