لاہور (ویب ڈیسک) مایوسی نہیں فرسٹریشن ضرور، عمران خان کی ایمانداری، صاف نیت، کچھ کر دکھانے کی لگن اپنی جگہ مگر 18اگست سے 4اپریل تک، 7ماہ 17دن، 34ہفتے، 5ہزار 5سو 68گھنٹے ہو گئے، عمران خان کو وزیراعظم بنے، بات آگے بڑھانے سے پہلے یہ بتاتا چلوں، کرکٹ ورلڈ کپ، شوکت خانم، نمل یونیورسٹی، فولادی اپوزیشن، نامور کالم نگار ارشاد بھٹی اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ سب معرکے عمران خان سر کر چکے، لیکن وزارتِ عظمیٰ وہ میچ، مقابلہ، معرکہ جو فیصلہ کرے گا، ناکام، کامیاب عمران خان کا، ناکام ہوئے، پچھلی کامیابیاں، کامرانیاں گہنا جائیں گی، کامیاب ہو گئے، مارنے والے اپنی موت آپ مر جائیں گے، تاریخ کاحصہ بن جائیں گے، یہ بھی بتا دوں، یہ جنگ صرف اور صرف عمران خان کی، آج ان کے اتحادی کل کسی اور کے اتحادی تھے، کل کسی اور کے ہوں گے، آج لالچ، طمع کے گھوڑوں پر سوار ہو کر جوق در جوق تحریک انصاف میں شامل ہونے والے کل کہیں اور تھے، کل کہیں اور ہوں گے، رہ گئی تحریک انصاف، عمران خان کو مائنس کر دیں، 80فیصد لیڈران اپنی سیٹ نہ جیت پائیں، لہٰذا کامیابی ناکامی، فتح شکست، فائدہ نقصان، مندا چنگا، سب عمران خان کا، اس لئے تو وزارتِ عظمیٰ عمران خان کیلئے واٹر لو، پانی پت کی جنگ، ہارے تو کچھ نہیں بچے گا، جیتے تو سب کچھ پا لیں گے۔ اس بورنگ تمہید پر معذرت مگر ضروری تھا یہ بتانا، سمجھانا کہ اس ناشکرے، جلد باز، جھگڑالو معاشرے میں عمران خان نہ روایتی قسم کے سیاستدان، نہ وہ روایتی وزیراعظم نہ یہ روایتی سیاسی دور، نہ روایتی ڈنگ ٹپاؤ کارروائیاں چلیں گی، جب ساڑھے 7ماہ پہلے عمران خان جیتے تو صورتحال یہ تھی، ایک طرف 70برس سے، 90فیصد وسائل پر قابض 11سو خاندان، پٹواری، تھانیدار کا لتروں، چھتروں بھرا نظام، قدم قدم پر بے انصافیاں، ظلم، استحصال، ستیاناس شدہ ملکی ادارے، سوا ستیاناس ہو چکی معیشت، دوسری طرف عمران خان کے خوشنما وعدے، دل فریب نعرے، امیدوں بھرے دعوے، محروموں، بے بسوں، بھوکے ننگوں کے خواب، یہاں تک بات ٹھیک مگر جب ’مشن تبدیلی‘ شروع ہوا، عمران خان نے ٹیم چنی، حیرانی ہوئی، سیاسی مجبوریوں، مصلحتوں بھرے دو چار فیصلوں کو ایک طرف رکھ دیں، مرکز، پنجاب میں مجبوری نما اتحاد ضروری تھے، یہ بھی مان لیا مگر 22سالہ اپوزیشن کاٹ کر موقع ملے اور آپ پورے ملک میں صرف 15صحیح بندے ہی نہ لگا سکیں تو پھر چاند، تارے توڑ لانے کے دعوے چہ معنی، صرف 15بندے، اٹھارہویں ترمیم کے بعد 5مکمل وزارتیں کپتان کے پاس، 5تگڑے وزیر، 6تگڑے بیورو کریٹ مرکز میں، پنجاب، کے پی، وزرائے اعلیٰ اور دو صوبائی چیف سیکرٹری، اگر صرف یہی 15بندے ایماندار، تگڑے اور قائدِ انقلاب کے وژن کو ماننے والے لگ چکے ہوتے تو آج صورتحال مختلف ہوتی۔ لیکن قائد انقلاب خیر سے 15بندے نہ لگا سکے بلکہ ایسے کھلاڑی میدان میں اتارے، کوئی ہاکی سے کرکٹ کھیلنے لگ گیا، کوئی بلے سے بیڈ منٹن کھیل رہا، کوئی آنکھوں پر پٹی باندھے کیچ پکڑنے کا خواہشمند، کوئی استاد اردو کا، پڑھا رہا انگلش لٹریچر، کوئی دو جمع دو پانچ بتاکر سمجھا رہا مسئلہ فیثا غورث، کسی کے ہتھے کار چڑھی تو سلطان گولڈن کی ریسیں، جس کے پاس موٹر سائیکل اسے ون ویلنگ سے ہی فرصت نہیں، اپنا کام ہو نہیں رہا، دوسروں کو ہدایتیں دی جا رہیں، دماغ کا کام زبانیں کر رہیں، دل کی باتیں گلیوں محلوں میں، پارٹی کے اندر پارٹیاں، دھڑوں کے اندر دھڑے، لڑائیوں کے اندر لڑائیاں۔کپتان اسٹیٹس کو کے خلاف میچ کھیل رہے، کپتان کے کھلاڑی میچ کے اندر میچ ڈالے بیٹھے، بیورو کریسی میں بس فائلیں رینگ رہیں، اجلاس ہو رہے، ٹاسک فورسوں پہ ٹاسک فورسیں بن رہیں، سیاسی ٹیم کو سیاستوں سے فرصت نہیں، کپتان کا گڑھ خیبر پختونخوا کا پائلٹ تعلیمی منصوبہ ہی آدھا گھوسٹ نکلا،صحت، تعلیم میں کیا ہو رہا، کچھ پتا نہیں، پوری کے پی حکومت میٹرو بس منصوبے میں ہی پھنسی ہوئی، وسیم اکرم پلس، تبدیلی چاند المعروف عثمان بزدار کے پنجاب کو لے لیں، ٹھنڈ پڑ جائے، وژن خاک ہونا تھا، سائیں بزدار سے وژن کی توقع رکھنا ایسے ہی جیسے یونیفارم بدل کر پنجاب پولیس کے بدل جانے کی توقع کر لینا، لیکن دکھ یہ، سائیں بزدار کی کوئی ڈائریکشن بھی نہیں، پنجاب کے جس وزیر سے بات کرو دکھی، مایوس، سب کی متفقہ رائے ساڑھے 7ماہ تو ضائع ہو گئے مزید وقت ضائع نہ کیا جائے، اندازہ کریں ملک میں ٹیکس ٹیکس ہو رہا، پنجاب میں ابھی تک ڈی جی ایکسائز اینڈ ٹیکنیشن نہیں لگایا جا سکا، وجہ، وزیراعلیٰ، صوبائی وزیر ایکسائز اینڈ ٹیکنیشن سینگ پھنسا کر بیٹھے ہوئے، میرا بندہ لگے گا، نہیں میرا بندہ لگے گا، عمران خان مرغی، انڈوں سے بکریوں تک جا پہنچے، پنجاب میں ڈی جی لائیو اسٹاک کی سیٹ خالی پڑی ہوئی، پنجاب پولیس سیاسی مداخلتوں سے تنگ، پنجاب بیورو کریسی دھڑوں میں، راتوں کو (ن) لیگ سے خفیہ ملاقاتیں، دن کے وقت دفتروں میں سیاستیں، علیم خان نیب حراست میں سیخ پا، روز شکوؤں، گلوں بھرے پیغامات بنی گالہ پہنچا رہے، چوہدری سرور ’صاف پانی منصوبہ‘ ہاتھ میں کرکے اب شاہ محمود قریشی کے ساتھ مل کر بڑا ہاتھ دکھانے کے چکر میں، چوہدری پرویز الٰہی، راجہ بشارت پنجاب ’مٹی پاؤ‘ کمیٹی، کبھی کسی کی صلح کروا رہے تو کبھی کسی کو منانے گھر پہنچے ہوئے، پرویز الٰہی نہ ہوتے تو جہانگیر ترین کی بہن سیمی ایزدی، علامہ اقبال کا پوتا ولید اقبال کبھی سینیٹر نہ بن پاتے، آخری رات پرویز الٰہی تھے جو یہ کر گئے، 80فیصد مرکزی، صوبائی وزیروں کی کارکردگی سے کپتان نالاں، چند کی سنجیدہ، غیر سنجیدہ شکایتیں وہ سن چکے، ثبوت دیکھ چکے، انہیں یہ بھی پتا کہ کس مشیر نے ان کے نام پر اڈیالہ جیل کے سپرنٹنڈنٹ، ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ اس لئے معطل کروا دیئے کہ انہوں نے ایک قیدی پر تشدد کرنے، موت کی کال کوٹھڑی میں ڈالنے سے انکار کر دیا تھا۔ نیا صوبہ، 50لاکھ گھر، 1کروڑ نوکریاں، ادارہ جاتی ریفارمز، پولیس اصلاحات کو ایک طرف رکھیں، مسلسل بڑھتے اندرونی، بیرونی قرضے، امپورٹ ایکسپورٹ کا بڑھتا گیپ، بے قابو مہنگائی، بے روزگاری کو بھی رہنے دیں، آئی ایم ایف سے جان چھڑانے، اندر کھاتے سینے سے لگانے اور ایف اے ٹی ایف پابندیوں کی لٹکتی تلوار پر بھی بات نہ کریں، اس مخولئے ماحول میں ہوتے احتساب، لٹے مال کی واپسی پر بھی کیا بات کرنا، دھڑا دھڑ نوٹ چھاپنے، مانگ تانگ کر معیشت کی بہتری کی کوششیں کب تک، یہ بھی چھوڑیں، دکھ یہ کہ ان مسائل کے ہوتے ہوئے مسئلے بنے ہوئے، شاہ محمود قریشی جہانگیر ترین کی انائیں، فوکس ہو رہا ٹانگیں کھینچنے پر، محنتیں ہو رہیں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کیلئے، میں، میں اور میں، اس میں میں، میں 22کروڑ لاوارثوں کی طرح منہ تکے جا رہے، ساڑھے 7ماہ ثابت کر چکے، کپتان کا وژن، وعدے، دعوے، نعرے اس ٹیم کے بس کی بات نہیں، کپتان کو خود احتسابی، ٹیم بدلنے کی ضرورت، یہ نیا پاکستان بنانے والی ٹیم نہیں، کپتان نے جہاں سوا ستیاناس ہو چکے ملک، رل چکی قوم کیلئے کچھ کرنا، وہاں مقابلہ سازشوں کے استادوں سے، پروپیگنڈا ماسٹروں سے، چٹے جھوٹوں کو سچ ثابت کرتے لفظوں کے جادوگروں سے، اس مافیا سے جن کی بقا کا مسئلہ، جنہیں علم کہ اگر ہم کپتان سے بازی جیت گئے تو پھر اگلے 50سال ہمارے ہی، لہٰذا سب کے سب کمال ہوشیاری، چالاکی سے چالیں چل رہے جبکہ دوسری طرف کپتان کی ٹیم، جون جولائی کی گرمیوں میں سویٹر بیچنے والی، جی ہاں، چھوٹے مغز، آؤٹ آف کنٹرول زبانیں، کرنا کیا، پتا نہیں، جس کا پتا نہیں وہی کرنا، قائدِ انقلاب جاگیں، اس سے پہلے کہ خوابوں کی تعبیر کا وقت ہی خواب ہو جائے۔