لاہور (ویب ڈیسک) بچپن کی کہانیوں میں ہمیشہ سُنتے تھے کہ باپ بیٹے کو سفر پر نکلتے ہوئے نصیحت کرتا کہ بیٹا دوران سفر پیچھے مُڑ کر مت دیکھنا، پیچھے دیکھنے سے پتھر کے ہو جاؤ گے۔ آگے کا سفر جاری رکھنا تا کہ منزل تک پہنچ سکو۔بڑے ہوئے تو سمجھا کہنامور خاتون کالم نگار عاصمہ شیرازی بی بی سی کے لیے اپنے ہفتہ وار کالم میں لکھتی ہیں ۔۔۔۔۔۔ پیچھے مُڑ کر دیکھنے سے آدمی پتھر کا یوں ہو جاتا ہے کہ ماضی میں الجھ کر حال سے بے خبر اور مستقبل سے بھٹک جاتا ہے۔کچھ ایسا ہی حال ہمارا بحیثیت قوم ہو چکا ہے۔ ہم آگے کے سفر کی کوشش ہی نہیں کرتے، کریں تو واپس دھکیل دیے جاتے ہیں۔
ہم پتھر کے ہو چکے ہیں۔ نہ حال سے وابستگی نہ مستقبل کی فکر، نہ آج کا غم نہ ہی کل کی سوچ۔ ہم راستے میں ہیں اور منزل سے ناآشنا۔ابھی گذشتہ دھرنے کی جھلکیاں آنکھوں میں ہی تھیں کہ ایک اور دھرنے کا آغاز ہوا چاہتا ہے۔منیر نیازی نے شاید پاکستانی قوم کے لیے ہی کہا تھا کہ:اک اور دریا کا سامنا تھا منیرؔ مجھ کو۔۔۔میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا۔۔۔وہی غیر شفاف انتخابات کی کہانی، مہنگائی، افراط زر، جمہوریت اور سویلین بالادستی کا خواب۔ وہی عوام کی حکمرانی، آئین اور پارلیمانی جمہوریت کے تحفظ اور بحالی کا نعرہ۔ یقین جانیے کہ کچھ بھی نہیں بدلا۔پاکستان کی تاریخ کا مطالعہ کر لیں تو وہی تمام پالیسیاں اور سازشیں نئے ناموں کے ساتھ دہرائی جاتی ہیں۔ جمہوریت پر شب خون، سیاسی محاذ آرائی، ایک سیاسی جماعت کے سامنے دوسری اور دوسری کے سامنے تیسری جماعت کھڑی کر دی جاتی ہے۔ کبھی نظام مصطفیٰ، کبھی اسلامی نظام کے نفاذ، کبھی روشن خیال جدت پسندی کا لبادہ اوڑھے نظام، کبھی ختم نبوت کے تحفظ کی تحریکیں۔وہی خراب اور خراب ترین معیشت کے ماہ و سال کی داستانیں، کامیابیوں کاطرہ امتیاز کہیں اور، زوال کی ساری ذمہ داری کہیں اور۔ صرف سیاستدانوں اور عوام پسندوں کا میڈیا ٹرائل، پاکستان کے دولخت وجود کی آدھی ذمہ دار قوم، انتخاب سے پہلے احتساب کی کہانی اور پھر نامکمل احتساب غرض ایک سی کہانی اور ایک سے کردار۔ کہیں کوئی نقطہ، فُل سٹاپ بھی نہیں بدلا اور نہ شاید بدلے گا۔یوں محسوس ہوتا ہے کہ گرد آلود فائلوں کو کھول کر اُس سے صرف مٹی جھاڑ دی جاتی ہے اور اگلی قسط کا آغاز ہر دس سال کے بعد پھر وہیں سے کر دیا جاتا ہے جہاں سے رُکا تھا۔ یہ سیریل چلتی جارہی ہے اور جب سیاسی قوتیں آپس میں فیصلہ کر لیتی ہیں کہ اب کسی کی آلہ کار نہیں بنیں گی یا یوں کہیے کہ ماضی سے کچھ سیکھ لیتی ہیں اور آگے کا سفر کرنے لگتی ہیں تو انہیں پھر پیچھے دیکھنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے۔ پتھر کے یہ لوگ اسی طرح چلتے رہتے ہیں اور دائرے کا سفر جاری رہتا ہے اور نہ جانے کب تک جاری رہے گا۔اب کی بار گو کہ ذرا سا گمان ہے کہ شاید ماضی سے سیکھنے کا دعوی کرنے والی جماعتیں مستقبل کے نئے خواب دے رہی ہیں لیکن کیا راستہ پھر وہی نہیں؟ہم کب بدلیں گے؟ ہمارے دوست وصی شاہ لکھتے ہیں ’ہم بدلیں گے تب بدلے گا‘۔اُن سے معذرت کے ساتھ ہم نہیں ’وہ‘ بدلیں گے تب بدلے گا۔بدل لیجیے کیونکہ 70 برس سے کئی نسلیں اسی انتظار میں ختم ہو گئیں کہ اب بدلے گا پاکستان، بدل لیجیے فائلوں کو۔ کچھ نیا لے آئیے جس میں مذہب کے نام پر فرقہ واریت نہ ہو، اعتقاد کے نام پر منافرت نہ ہو، جمہوریت کے نام پر آمریت نہ ہو، اسلام کے نام پر جنونیت نہ ہو اور عوام کے نام پر استحصال نہ ہو۔جناب! راستے کے اس سفر میں بہت کچھ کھو چکا ہے، اب آگے چلنے دیجیے۔ پتھر کے لوگ خود نہیں ٹوٹتے البتہ توڑ سکتے ہیں۔