بچوں سے جنسی زیادتیاں اور ان کا جنسی استحصال سنگین جرائم ہیں مگر پھر بھی ان کی شرح میں خوفناک اضافہ ہو رہا ہے۔ مگر جرمنی میں جہاں بچوں کی بہبود کی محکمے بھی ہیں اور خاندانی امور کی عدالتیں بھی، ایسا ہونا کس طرح ممکن ہے؟
جرمن شہر میونسٹر میں ایک چھوٹے سے نجی باغ میں کئی سال تک بچوں سے خوفناک جنسی زیادتیاں کی جاتی رہیں۔ ان جرائم کی فلمیں بھی بنائی جاتی رہیں اور پھر انہیں ڈارک نیٹ پر فروخت کر دیا جاتا تھا۔ جب پولیس نے ان جرائم کے مرتکب پیشہ ور مجرموں کے ایک منظم گروہ کا پتا چلایا، تو ان قابل مذمت جرائم کی تفصیلات منظر عام پر آتے ہی عوامی سطح پر شدید غصے کا اظہار کیا گیا۔ ناقابل یقین بات تو یہ بھی تھی کہ ان جرائم کے مرکزی مشتبہ ملزم کی والدہ ایک کنڈر گارٹن میں بچوں کی پرورش اور تعلیم و تربیت کا کام کرتی تھی اور اسے مبینہ طور پر ان جرائم کے ارتکاب کا علم بھی تھا۔ جہاں ان جرائم کا ارتکاب کیا جاتا تھا، وہ باغ بھی اسی خاتون کی ملکیت ہے۔
میونسٹر کا واقعہ واحد مثال نہیں
المیہ یہ ہے کہ جو کچھ میونسٹر میں ہوتا رہا، وہ کوئی ایک واقعہ نہیں ہے۔ جرمنی میں گزشتہ چند برسوں سے بچوں کا جنسی استحصال کرنے والے اور چائلڈ پورنوگرافک مواد تیار کرنے والے مجرمانہ گروہوں کا انکشاف تو وقفے وقفے سے ہوتا رہتا ہے۔
جرائم کی روک تھام کے ذمے دار وفاقی جرمن ادارے کے اعداد و شمار کے مطابق سن دو ہزار انیس میں پورے ملک میں پولیس نے چائلڈ پورنوگرافی کے بارہ ہزار سے زائد واقعات کا پتا چلایا۔ یہ تعداد دو ہزار اٹھارہ کے مقابلے میں 65 فیصد زیادہ تھی۔ اس کے علاوہ 2019ء میں بچوں کے جنسی استحصال کے واقعات کی مجموعی تعداد بھی 2018 ءکے مقابلے میں نو فیصد اضافے کے ساتھ تقریباﹰ 15 ہزار 900 ہو گئی۔
زیادہ سے زیادہ اور مزید پرتشدد؟
سوال یہ ہے کہ اعداد و شمار کو دیکھتے ہوئے کیا کہنا درست ہو گا؟ یہ اضافہ اس لیے ہوا کہ ماضی کے مقابلے میں اب قانون زیادہ مؤثر ہے اور پولیس نے اب ایسے زیادہ سے زیادہ مجرموں کو پکڑنا شروع کر دیا ہے یا جرمن معاشرے میں بچوں کے جنسی استحصال کے واقعات اب گزشتہ برسوں کے مقابلے میں واقعی کافی زیادہ ہونے لگے ہیں؟ میونسٹر کا شہر جرمن صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا میں واقع ہے، جو جرمنی کا سب سے زیادہ آبادی والا وفاقی صوبہ ہے۔ اس کے علاوہ اس صوبے کی پولیس جرائم کا پتا چلانے کے لیے بالخصوص انتہائی جدید طریقے استعمال کرتی ہے۔ لیکن دوسری طرف یہ بھی بہت کڑوا سچ ہے کہ انٹرنیٹ کے موجودہ دور میں فحش جنسی مواد، چاہے وہ بچوں ہی سے متعلق ہو، تیار کرنا اور اسے بیچنا بہت ہی آسان ہو چکا ہے۔ چانسلر انگیلا میرکل کی پارٹی کرسچین ڈیموکریٹک یونین یا سی ڈی یو کی خاتون سربراہ آنےگریٹ کرامپ کارین باؤر نے تو شدید مذمت کرتے ہوئے اس حقیقت کا اعتراف بھی کر لیا تھا، ”فحش جنسی مواد کی تجارت تو اب ایک بہت بڑی منڈی بلکہ ایک پوری کاروباری صنعت بن چکی ہے۔ سی ڈی یو کی سربراہ چاہتی ہیں کہ ایسے جرائم کی روک تھام کے لیے موجودہ قوانین کو مزید سخت بنایا جانا چاہیے۔
کیا سزائیں اتنی سخت ہیں جتنے شدید جرائم؟
جرمنی میں اگر کوئی فرد بچوں کے جنسی استحصال کا مرتکب ہوا ہو، تو اس کے جرم کی شدت کو دیکھتے ہوئے کوئی بھی متعلقہ عدالت اسے پندرہ سال تک قید کی سزا سنا سکتی ہے۔ لیکن دوسری طرف ایسے افراد، جو چائلڈ پورنوگرافی کو تصویروں یا ویڈیوز کی صورت میں دیکھتے ہیں، انہیں اتنی سخت سزاؤں کا کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔ اس بارے میں سی ڈیو یو کی سربراہ کرامپ کارین باؤر کہتی ہیں، ”ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ جرمنی میں کسی دکان سے کوئی سامان چرانے (شاپ لفٹنگ) کی سزا اس سزا سے سخت ہو، جو کسی ایسے انسان کو سنائی جائے جس نے اپنے لیے بچوں سے متعلق فحش جنسی مواد حاصل کیا ہو؟‘‘
ریاست کا کام کہاں سے شروع ہوتا ہے؟
بچوں کے جنسی استحصال کی روک تھام کے لیے ملکی قوانین کے مطابق مجرموں کا سزائیں دلوانا ایسے جرائم کے تدارک کا محض ایک پہلو ہے۔ اس سے کہیں زیادہ ضروری بات یہ ہے کہ بچوں کو ایسے مجرموں کے ممکنہ حملوں سے قبل از وقت ہی بچا لینے کے لیے موجودہ نظام کو مزید بہتر بنایا جائے۔ ایسے جنسی جرائم کے مرتکب افراد زیادہ تر متاثرہ بچوں کے اپنے ہی اہل خانہ، رشتے دار یا ان کے گھرانوں کے دوست ہوتے ہیں۔ کئی واقعات میں متاثرہ بچوں کی مائیں بھی ایسے جرائم سے باخبر ہونے کے باوجود انہیں روکنے کے لیے کچھ نہیں کرتیں یا خود ان میں ملوث ہوتی ہیں۔ اس لیے اس طرح کے اسباب کی شناخت اور ان کا تدارک جرمنی کے ان 560 سے زائد بلدیاتی محکموں کا کام ہے، جو ملک بھر میں قائم ہیں اور جن کا بنیادی فرض بچوں اور نوجوانوں کو ہر طرح کا تحفظ فراہم کرنا ہے۔
چند کلیدی حقائق
بچوں کے جنسی استحصال یا ان سے کی جانے والی جنسی زیادتیوں کی روک تھام کے عمل میں یہ بات بھی مشکلات کا باعث بنتی ہے کہ ایسے مجرم اکثر دوہری شخصیت کے مالک اور بظاہر اتنے شفیق ہوتے ہیں کہ ان کا پتا چلانا بہت ہی مشکل ہوتا ہے۔ جہاں تک متاثرہ بچوں کا تعلق ہے تو وہ انتہائی زیادہ سماجی اور نفسیاتی دباؤ کے باعث اکثر خاموش رہنے پر مجبور ہوتے ہیں۔