سیول (ویب ڈیسک) شمالی کوریا نے امریکہ پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ جوہری ہتھیاروں کے معاملے پر دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات کے بحالی کے حالیہ معاہدے کے باوجود ‘جارحانہ اقدامات پر تُلا ہوا ہے۔’ اقوامِ متحدہ میں شمالی کوریا کے وفد نے بدھ کو کہا کہ امریکہ کو ‘پابندیاں عائد کرنے کا جنون ہے’ جبکہ یہ الزام بھی عائد کیا کہ واشنگٹن جزیرہ نما کوریا کے ‘پرامن ماحول کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہا ہے۔’یہ بیان دونوں ممالک کے سربراہان کے درمیان ایک تاریخی ملاقات کے چند دن بعد ہی سامنے آیا ہے۔اتوار کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ اُن سے سخت ترین سکیورٹی والے اس غیر عسکری علاقے (ڈی ایم زی) میں ملے جو کہ شمالی اور جنوبی کوریا کو تقسیم کرتا ہے۔ اس طرح وہ عہدِ صدارت کے دوران شمالی کوریا میں قدم رکھنے والے پہلے امریکی صدر بنے جبکہ تقریباً ایک گھنٹہ جاری رہنے والی گفتگو کے بعد دونوں ممالک نے شمالی کوریا کے ایٹمی ہتھیاروں میں تخفیف پر مذاکرات کی بحالی کے لیے ٹیمیں تشکیل دینے پر اتفاق کیا تھا۔ مگر شمالی کوریا کے بدھ کو جاری ہونے والے بیان میں لہجے کی تبدیلی واضح ہے اور یہ اس غصیلی بیان بازی کی جانب واپسی ہے جس کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات خراب رہے ہیں۔ شمالی کوریائی وفد کا کہنا تھا کہ وہ امریکہ کے اس الزام کا جواب دے رہا تھا کہ اس نے ریفائنڈ پیٹرولیم درآمدات کی 2017 میں مقرر کردہ حد کی خلاف ورزی کی ہے۔ اس کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ امریکہ، فرانس، جرمنی اور برطانیہ کی جانب سے اقوامِ متحدہ کے تمام رکن ممالک کو بھیجے گئے اُس مشترکہ خط کے جواب میں تھا جس میں شمالی کوریا پر مزید پابندیوں کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ خط میں مبینہ طور پر تمام رکن ممالک سے کہا گیا کہ وہ اپنے پاس موجود تمام شمالی کوریائی تارکینِ وطن ملازمین کو ان کے اپنے ملک واپس بھیجیں۔ بیان میں کہا گیا کہ ‘جس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا وہ یہ ہے کہ مشترکہ خط کا یہ کھیل عین اس دن کھیلا گیا جب صدر ٹرمپ نے ایک سربراہی ملاقات کی تجویز دی تھی۔’ ‘یہ اس حقیقت کی عکاسی کرتا ہے کہ امریکہ ڈیموکریٹک پیپلز ریپبلک آف کوریا (شمالی کوریا) کے خلاف معاندانہ اقدامات پر تُلا ہوا ہے۔’ بیان میں مزید کہا گیا کہ ‘اقوامِ متحدہ کے تمام رکن ممالک کو جزیرہ نما کوریا میں پیدا ہونے والے پرامن ماحول کو خراب کرنے کی امریکی کوششوں سے ہوشیار رہنا ہوگا۔’ شمالی کوریا نے مزید کہا کہ امریکہ کا پابندیوں کو ‘ہر مسئلے کی دوا’ سمجھنا ‘نہایت مضحکہ خیز’ ہے۔ امریکہ کی جانب سے اب تک اس بیان پر کوئی ردِ عمل نہیں آیا ہے۔ شمالی کوریا کو اس کے متنازع ایٹمی پروگرام سے دستبرداری پر قائل کرنے کے لیے مذاکرات اس وقت اپنی انتہا کو پہنچے جب گزشتہ سال ٹرمپ اور کم جونگ اُن کی سنگاپور میں ملاقات ہوئی تھی۔ دونوں نے جزیرہ نما کوریا کو ‘ایٹمی ہتھیاروں سے مکمل طور پر پاک’ کرنے پر اتفاق کیا تھا مگر یہ وضاحت نہیں کی گئی تھی کہ اس کا مطلب کیا ہے۔ امید کی جا رہی تھی کہ ویتنام کے دارالحکومت ہنوئی میں فروری میں ہونے والی دوسری ملاقات میں دونوں ممالک کے درمیان ایک ٹھوس معاہدہ طے پائے گا جس کے تحت شمالی کوریا اپنے ایٹمی پروگرام سے دستبردار ہوگا جس کے بدلے میں اس پر عائد کچھ سخت پابندیاں اٹھا لی جائیں گی۔ مگر یہ مذاکرات کسی معاہدے پر منتج نہیں ہوئے کیوں کہ اس بات پر اتفاق نہیں ہوسکا تھا کہ پابندیاں کس رفتار سے اٹھائی جائیں گی۔ تب سے اب تک مذاکرات تعطل کا شکار ہیں مگر دونوں ممالک کے سربراہان کے درمیان خطوط کا تبادلہ ہوا ہے۔ اتوار کے روز ڈی ایم زی میں ہونے والی ملاقات میں گفتگو تعریفوں پر مبنی تھی۔ ٹرمپ، جو کہ کم جونگ اُن کو ماضی میں ‘لٹل راکٹ مین’ کہہ چکے ہیں، نے اپنی کم جونگ اُن کے ساتھ دوستی کو ‘زبردست’ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ ‘دنیا کے لیے ایک عظیم دن ہے۔)