عموماً لوگ کسی بیماری میں ڈاکٹر سے رجوع تو کرتے ہیں لیکن ان سے اپنی صحت سے متعلق سوالات نہیں کرتے اس لیے آپ کو چند ایسے سوالات سے آگاہ کیا جا رہا ہے جو ڈاکٹر کے پاس جاتے وقت آپ کو ضرور پوچھنے چاہئیں تاکہ بہتر علاج ممکن ہو سکے۔
بات صرف ان پڑھ اور کم تعلیم یافتہ لوگوں کی نہیں، پاکستان میں اکثر پڑھے لکھے لوگ بھی جب ڈاکٹر کے پاس علاج کروانے جاتے ہیں تو پرہیز اور دوا کے اوقات سے زیادہ کچھ نہیں پوچھتے۔ یعنی وہ اپنی بیماری کی نوعیت اور کیفیت سے لاعلم رہتے ہوئے علاج کروا رہے ہوتے ہیں۔
اسی لاعلمی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بہت سے ڈاکٹر انہیں مہنگی یا غلط دوائیں تجویز کردیتے ہیں۔ لیکن تھوڑی سی سنجیدہ توجہ دے کر آپ بھی اپنی بیماری اور متعلقہ علاج اور احتیاط وغیرہ سے بہتر طور پر آگاہ ہوکر اپنی صحت کا مناسب خیال رکھ سکتے ہیں۔
یہ علامات اور کیفیات کس بیماری کی وجہ سے ہوسکتی ہیں؟
یہ بیماری میری گھریلو اور پیشہ ورانہ زندگی پر کس حد تک اثر ڈالے گی؟
اس بیماری/ کیفیت کا علاج کم وقت میں ہوجائے گا یا اس میں زیادہ وقت لگے گا؟
اس بیماری/ کیفیت کی وجہ کیا ہے؟
کیا ان ظاہری علامات کی وجہ کوئی اور بیماری بھی ہوسکتی ہے؟
مجھے کون کونسی ظاہری علامات کو بطورِ خاص نظر میں رکھنا چاہیے؟
کیا مجھے کسی خاص بیماری کے لیے ٹیسٹ کروانا چاہیے؟
اگر ہاں، تو پھر ان ٹیسٹوں سے میری بیماری/ کیفیت کے بارے میں کیا پتا چلے گا؟
اس بیماری/ کیفیت کی درست تشخیص میں مزید کون کونسے ٹیسٹ درکار ہوسکتے ہیں؛ اور ان کی لاگت کیا ہوگی؟
یہ ٹیسٹ کس حد تک محفوظ اور درست ہوں گے؟
ٹیسٹ کے نتائج (رزلٹس) کتنے دنوں میں مل جائیں گے؟
کیا مجھے دوبارہ معائنے کے لیے آنا ہوگا؛ اگر ہاں تو کتنے دن بعد/ کونسی علامات ظاہر ہونے یا موجود رہنے پر؟
کیا مجھے دوسروں کو اس بیماری سے محفوظ رکھنے کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کرنا ہوں گی؟
اس بیماری کا علاج کس طرح کیا جائے گا؟ (مثلاً اگر اینٹی بایوٹک دی جارہی ہے تو اس کا کورس کتنے دن میں مکمل ہوگا؟)
اس دوا یا علاج کے ممکنہ ضمنی اثرات (سائیڈ ایفیکٹس) کیا ہوسکتے ہیں؟
ضمنی اثرات زیادہ شدید ہونے کی صورت میں مجھے کیا کرنا چاہیے؟
اگر میں علاج نہ کرواؤں یا علاج میں تاخیر کردوں تو کیا ہوگا؟
علاج کے دوران مجھے کس کس چیز سے پرہیز کرنا چاہیے؟
دورانِ علاج میری ملازمت/ پیشہ ورانہ زندگی کس حد تک متاثر ہوگی اور کب تک؟
صحت کی مکمل بحالی میں زیادہ سے زیادہ کتنا عرصہ لگ جائے گا؟
ہو سکتا ہے کہ سوالوں کی یہ فہرست آپ کو بہت طویل محسوس ہو لیکن یہ بہت ہی بنیادی نوعیت کے سوال ہیں اور کسی بھی ڈاکٹر کو ان کا جواب دینے میں 5 منٹ سے زیادہ نہیں لگنے چاہئیں۔