ملالہ یوسفزئی کا تعلق سوات خیبر پختونخوا سے ہے۔ ساڑھے پانچ سال بعد جب وہ وطن واپسی آئیں تو اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکیں اور میڈیا کے سامنے آبدیدہ ہو گئیں جس کے بعد اس بچی سے نفرت کرنے والوں کو انگلیاں اٹھانے کا ایک اور موقع مل گیا۔
افسوس کہ ملالہ یوسفزئی اپنے آنسو نہیں روک سکی۔ ملالہ کو رونے سے پہلے معلوم ہونا چاہئیے تھا کہ اس سے نفرت کرنے والے پاکستانی اس کے آنسو ہمیشہ کی طرح ایک بار پھر ڈرامے بازی ہی سمجھیں گے۔
ملالہ یوسفزئی کا حال ہی میں میڈیا پر ایک سوال کے جواب پر کہنا تھا کہ، نہیں پتہ کہ لوگ مجھ سے نفرت کیوں کرتے ہیں، کاش مجھ پر حملہ واقعی ڈرامہ ہوتا۔
بے شک ملالہ یوسفزئی ایک معصوم بچی ہے جس کو یہ بھی علم نہیں کہ اس کے ملک کے تعلیم یافتہ عقل مند لوگ اس سے کیوں نفرت کرتے ہیں۔ میں بتائے دیتا ہوں۔
جب ناراض طالبان بھائیوں کی جانب سے سوات میں لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے سے منع کیا گیا تھا تب ملالہ یوسفزئی نے ان کی نافرمانی کرتے ہوئے اپنی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا۔ سکول جانے کی حد تک تو ٹھیک تھا یہ محترمہ تو بی بی سی پر ڈائری لکھنے بیٹھ گئیں، ہم نے لڑکیوں کو کب سے اتنی آزادی دینی شروع کر دی؟ اس آزادی کی سزا تو اسے ملنی چاہئیے تھی نا۔
ملالہ پر جان لیوا حملہ ہوا جس کے بعد وہ دنیا بھر میں مشہور ہو گئی۔ اس شہرت کے ساتھ ہی ملالہ یوسفزئی کا غداری کے سفر کا آغاز ہوا۔ دنیا بھر میں یہ خبر نشر کی گئی کہ ایک لڑکی کو تعلیم حاصل کرنے کی وجہ سے طالبان نے مارنے کی کوشش کی ہے، اس سے دنیا بھر میں پاکستان کا امیج خراب ہوا۔ ایک محب وطن پاکستانی ہونے کی حیثیت سے ملالہ کے خاندان کو چاہئیے تھا کہ وہ ملالہ کے اوپر ہونے والے اس حملے کو بین الاقوامی خبر نہ بننے دیتے۔
ملالہ کی سرگری کے لیے اسے برطانیہ بھیجا گیا جہاں جا کر اس نے اپنا قیام طویل ہی کر لیا، بہانہ یہ بنایا کہ طالبان کی طرف سے جان کی دھمکیاں اب بھی موجود ہیں۔
اپنے اوپر ہونے والے حملے کے بعد بھی یہ لڑکی نہ رکی۔ اس نے ملالہ فنڈ کے ذریعے شانگلہ، سوات اور فاٹا میں طالبانوں کی جانب سے تباہ کیے گئے اسکولوں کی مرمت کروائی اور کئی نئے سکول بھی کھلوائے۔
یہ سلسلہ اس نے پاکستان تک ہی محدود نہ رکھا بلکہ نائجیریا، کینیا اور شام کے جنگ زدہ علاقوں تک بھی پہنچایا۔
اسے چاہئیے تھا کہ وہ اپنے فنڈ کی تمام رقم دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کو چندے کی صورت میں دیتی۔ اس یونیورسٹی آف جہاد کو عمران خان بھی 57 کروڑ سے زائد کی رقم دے چکے ہیں، ملالہ نے ان کی پیروی کیوں نہ کی؟
اگر وہ مدرسہ حقانیہ کو ناپسند کرتی تھی تو مولانا خادم حسین رضوی صاحب کی تحریک کے لیے فنڈ جاری کر دیتی تاکہ تحریک کی جانب سے ملک بھر میں مزید جلاؤ گھیراؤ ہوتا اور گلی گلی گالیوں کے مفت کورسز بھی کروائے جاتے۔
ملالہ کا سب سے بڑا قصور تو آپ سب جانتے ہی ہیں۔ آکسفورڈ یونیورسٹی میں ملالہ کس قسم کے لباس میں دیکھی گئی تھی، اس کا تو ذکر کرتے ہوئے مجھے شرم آتی ہے، آپ ہی بتائیے ملالہ کے یہ سب قصور معافی کے قابل ہیں؟
ملالہ کے یہ قصور ان دہشتگردوں سے زیادہ گھنائونا ہے جنہوں نے اے پی ایس میں ایک سو چالیس بچوں سمیت ستر ہزار پاکستانیوں کا قتل کیا تھا۔ ہم انہیں تو معاف کر سکتے ہیں مگر ملالہ کو نہیں۔