لاہور(ویب ڈیسک)دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہونا یا ہوجانا” اس کہاوت کا مطلب ہے انصاف ہونا اور یہ ایسے موقع پر بولی جاتی ہے جب سچ اور جھوٹ الگ ہوجائیں اورہر کسی کو اس کے اچھے یا برے کام کا بدلا ملے۔ اس کا قصہ یوں ہے کہ ایک گوالا بڑا بے ایمان تھا اور دودھ میں پانی ملا کر بیچا کرتا تھا۔ بہت جلد اس نے اچھے خاصے پیسے جمع کر لئے۔ ایک روز اس نے ساری رقم ایک تھیلی میں ڈالی اور اپنے گاؤں کی طرف چلا۔ گرمی کا موسم تھا۔ پسینہ چوٹی سے ایڑی تک بہہ رہا تھا۔ گوالے کے راستے میں ایک دریا پڑا۔ اس نے سوچا چلو نہا لیتے ہیں۔ روپوئوں کی تھیلی اس نے ایک درخت کے نیچے رکھی۔ تھیلی پر کپڑے ڈال دئیے اور لنگوٹ کس کر پانی میں کود پڑا۔ اس علاقے میں بندر بہت پائے جاتے تھے۔ اتفاق کی بات ایک بندر درخت پر چڑھا یہ ماجرا دیکھ رہا تھا۔ گوالے کے پانی میں اترتے ہی بندر درخت سے اترا اور رپوئوں کی تھیلی لے کر درخت کی ایک اونچی شاخ پر جا بیٹھا۔ گوالا پانی سے نکلا اور بندر کو ڈرانے لگا، لیکن بندر نے تھیلی کھولی اور روپے ایک ایک کر کے ہوا میں اڑانے لگا۔ درخت دریا کے کنارے سے بہت قریب تھا اور روپے اُڑ اُڑ کر پانی میں گرنے لگے۔ گوالے نے روپوئوں کو پکڑنے کی بہت کوشش کی، لیکن پھر بھی آدھے روپے پانی میں جا گرے۔ راستہ چلتے لوگ جو گوالے کی بے ایمانی سے واقف تھے اور یہ تماشا دیکھنے لئے جمع ہوگئے۔ گوالے کی چیخ و پکار سن کر کہنے لگے،”دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہوگیا۔” یعنی گوالے نے جو آدھے پیسے دودھ میں پانی ملا کر بے ایمانی سے کمائے تھے وہ پانی میں مل گئے۔