قانون کے مطابق الیکشن جولائی کے اختتام سے قبل ہو جائیں گے۔ قوم کے لئے یہ بہترین موقع ہے کہ نہایت ہی محب وطن، ذی شعور اور کرپشن فری قیادت چن لے مگر ہمیں ہماری محب وطن، ذی شعور اور ایماندار قیادت یہ بتا چکی ہے کہ بدقسمتی سے قوم کی اکثریت ووٹ ڈالتے وقت وسیع تر قومی مفاد دیکھنے کی بجائے وقتی فائدے کی بنیاد پر ووٹ دیتی ہے۔
اس قیادت کے بیان کے مطابق چند گنے چنے لوگ تھانے کچہری میں جائز ناجائز مدد یا محلے کی گندی نالی پکی کرانے وغیرہ پر ووٹ دیتے ہیں مگر بیشتر افراد ووٹنگ کے دن اس امیدوار کو ووٹ دے دیتے ہیں جو انہیں قیمے والا نان یا بریانی کھلا دے۔
اب محض ساٹھ پینسٹھ دن میں قوم میں اتنا شعور ڈالنا تو ممکن نہیں ہے کہ وہ صرف کرپشن فری محب وطن قیادت کو ووٹ ڈالے اور کرپٹ قیادت کو مسترد کر دے لیکن ہمارے ذہن میں چند تجاویز آئی ہیں جن پر عمل کیا جائے تو یہ کرپٹ قیادت اپنے مذموم حربے استعمال کرکے اکثریتی ووٹ حاصل کرنے میں ناکام ہو جائے گی۔
پہلا کام تو یہ کیا جائے کہ عبوری حکومت آتے ہی سب سے پہلے قیمے والے نان اور بریانی پر پابندی لگائی جانی چاہیے تاکہ ووٹر کھانے کے لالچ میں نہیں بلکہ وسیع تر قومی مفاد کو سامنے رکھ کر ووٹ ڈالے۔
ایک تجویز یہ بھی ہے کہ بجائے ساٹھ دن کا انتظار کرنے کے الیکشن رمضان میں رکھے جائیں تاکہ صبح نو سے شام پانچ بجے تک ہونے والی ووٹنگ کے دورانیے میں کوئی کرپٹ امیدوار کسی ووٹر کو قیمے والا نان یا بریانی کھلا کر اس کا ووٹ نہ خرید پائے۔
کوئی نا اہل اور کرپٹ سیاست دان ایسا کرنے کی کوشش کرے تو اسے احترام رمضان آرڈیننس استعمال کر کے اندر کر دیا جائے اور جیل میں اس کی ڈیوٹی تندور پر لگا دی جائے جہاں وہ سارے قیدیوں کے لئے خود روٹیاں لگائے تاکہ آئندہ اسے ایسے کان ہوں کہ نان کا نام تک نہ لے۔ اگر کسی فنی مجبوری کی وجہ سے انتخابات رمضان میں منعقد کرنے ممکن نہ ہوں تو پھر چند دیگر تجاویز پر بھی غور کیا جا سکتا ہے۔
مثلاً پولنگ والے دن تمام تندور بند کرنے کا حکم دیا جا سکتا ہے تاکہ نہ قیمے والے نان پکیں اور نہ کرپٹ سیاست دان انہیں اپنے مذموم مقاصد کے لئے استعمال کر پائیں۔
لیکن یہ کرپٹ سیاست دان نہایت کائیاں ہیں۔ قانون انہیں پکڑنے کو ڈال ڈال، تو یہ اس سے بچنے کو پات پات پھرتے ہیں۔ وہ اس پابندی کا توڑ نکالنے کی بھی یہ بھرپور کوشش کریں گے۔
مثلاً یہ امکان بھی ہے کہ پولنگ والے دن قیمے والے نان پر پابندی لگنے کے بعد کرپٹ امیدوار ووٹ خریدنے کے لئے ووٹر کو کوپن دے دیں کہ کل پرسوں اس کوپن کے بدلے قیمے والا نان مفت لے لینا۔ اس امکان کو ختم کرنے کے لئے پورے پاکستان میں الیکشن سے دو ہفتے قبل ہی ایک مہینے کی مدت کے لئے تندور، ریستوران اور بیکریاں بند کر دی جانی چاہئیں۔
چند کرپٹ سیاست دانوں نے ووٹ حاصل کرنے کے لئے سڑکیں اور پبلک ٹرانسپورٹ کے بڑے منصوبے بنا دیے ہیں۔ ووٹر پر سے ان منصوبوں کا اثر زائل کرنے کے لئے الیکشن سے دو ہفتے قبل ہی میٹرو اور موٹر وے وغیرہ بند کر دیے جائیں اور انہیں الیکشن کے بعد کھولا جائے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا ووٹر اس صورت میں محب وطن اور کرپشن فری سیاست دان کو ووٹ ڈالنے کے لئے اپنے گھر سے نکلنے کو تیار ہو جائے گا؟ عبوری حکومت کی معمولی سی کوشش سے یہ ممکن ہے۔ مثلاً ووٹنگ والے دن پورے پاکستان میں بجلی بند کر دی جائے تاکہ سخت گرمی سے بے حال ہو کر ووٹر اپنے تپتے ہوئے گھر سے باہر نکلنے پر مجبور ہو جائے۔
ووٹر کو مزید قائل کرنے کی خاطر پولنگ بوتھ پر محب وطن کرپشن فری امیدواروں کے پولنگ ایجنٹس کے ذریعے ٹھنڈا شربت اور مفت برف مہیا کیے جا سکتے ہیں تاکہ ووٹر شوق سے ادھر جائیں اور انتخابات میں حصہ لیں۔
ان سب اقدامات کے باوجود یہ خدشہ موجود ہے کہ بعض ناسمجھ ووٹر کرپٹ امیدواروں کو ووٹ ڈال دیں گے۔ اس کے سدباب کے لئے ووٹر کو پرچی محب وطن کرپشن فری امیدوار کے انتخابی نشان پر مہر لگانے کے بعد دی جائے تو مناسب ہو گا۔ ہمارے ملک میں ووٹرز کی اکثریت ان پڑھ ہے۔ کیا ان پر ایک اہل قیادت منتخب کرنے کے لئے اعتماد کیا جا سکتا ہے؟