یہ پاناما لیکس ہیں، گلے میں اٹکی ہوئی ہڈی کی طرح،جن کاخوف دور نہیں ہورہا۔ پاک چین معاشی راہداری کو گیم چینجر قرار دیتے ہوئے بھی اُن کی آواز بھرائی ہوئی ہے کیونکہ وہ ڈرائونا خوا ب تبدیل نہیں ہورہا،اور اس کے منڈلاتے ہوئے سائے اپنی جگہ پر موجود ، اس کی پھیلتی ہوئی پرچھائیاں ان کے چہروں سے نمایاں ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ اس مرتبہ درست جواب دیئے بغیر کوئی چارہ نہیں، اب اس فورم پر طلسماتی کہانیاں، جن کو گھڑنے کے یہ ماہرہیں، کام نہیں دیںگی، نہ ہی اس مرتبہ ’’دوستانہ باز پرس‘‘ ، جس کا انہیں ہمیشہ آسرا رہا ، کا دست شفقت نصیب ہوگا۔ چونکہ پی ایم ایل (ن) کی قیادت کے پاس درست جواب دینے کا یارا تو نہیں،اس لئے وہ توجہ بٹانے کے لئے سی پیک کے خلاف سازشوں پر خبردار کررہے ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ سی پیک کے دشمن ترقی کے دشمن ہیں۔ افسوس، ان نعروں کی گونج بھی پاناما کے گمبھیر ہوتے ہوئے سناٹے کو کم نہیں کرپارہی۔ کوئی حربہ کام نہیں دے رہا۔
مسائل سے برسر ِپیکار،وزیر ِاعظم صاحب کبھی یہاں ربن کاٹتے ہیں، کبھی وہاں عوامی جلسے سے خطاب کرتے ہیں، کبھی گوادرمیں جا کر سی پیک پر روایتی بیانیہ دہراتے ہیں کہ یہ گیم چینجر ثابت ہوگی، ا س سے ترقی کے وسیع مواقع پیدا ہوں گے ، امکانات کی کھڑکی کھلے گی، لیکن ڈرائونا خواب ہے کہ ٹوٹنے کا نام نہیں لیتا۔ پوچھے جانے والے سوالات دوٹوک ہیں، اور فاضل عدالت کے جج صاحبان نے آخر کار معاملہ اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے ، ان کی توجہ مرکوز ہے ۔ سوالات یہ ہیں: لندن کے مشہور فلیٹس کس کی ملکیت ہیں؟ انہیں خریدنے کے لئے رقم کہاں سے آئی؟ رقم بھجوائی کیسے گئی؟‘‘تاہم ان کے جواب میں ان فنکاروں کی دلیری ہی نہیں ڈھٹائی کی بھی داد دینی پڑتی ہے ۔ اس اسلامی جمہوریہ میں کہیں بھی رہنے والا ا خبار کا ہر قاری جانتا ہے کہ وہ فلیٹس 1990 کی دہائی سے ہی شریف فیملی کے زیر ِاستعمال ہیں۔ پرویز مشرف کے شب خون کے بعد ٹم سبسطین نے حسن نواز کا ایک انٹرویو لیاجس میں فاضل ا سکالر(حسن) نے بتایا کہ وہ لندن میں تعلیم حاصل کررہا ہے ، اگرچہ اُن کے چہرے پر تعلیم کا ہلکا سا شائبہ بھی دکھائی نہیں دیتا اور نہ ہی موصوف کی گفتگو حاصل کردہ علم کی غمازی کرتی ہے ۔ مسٹر ٹم نے اُن سے ان فلیٹس کی بابت سوال کیا تو حسن نے جواب دیا کہ یہ ’’کرائے ‘‘ پرلئے گئے ہیں اور ان کے کرائے کی رقم پاکستان سے آتی ہے ۔
خیر ان کی تفصیل کوئی راز نہیں، کئی برسوںسے سب کچھ عوام کے علم میں تھا، اس کے باوجود اتنی ڈھٹائی سے ان حقائق کی تردید کی گئی یا توڑ مروڑ کر پیش کیا گیاکہ عقل دنگ رہی جاتی ہے ۔ التوفیق قرضے کا تعلق 1999 ء سے ہے ۔ شریف فیملی نے یہ قرضہ وزیر ِاعظم کی دوسری مدت کے دوران اس بنک سے لیا اورپھر وہ ڈیفالٹ ہوگئے،اور بنک کو رقم واپس نہ کی۔ وہ سوچ رہے تھے کہ یہ پاکستان ہے جہاں قرضے لے کر واپس نہ کرنا ایک محبوب مشغلہ اور عہدے اور اختیار کا اظہار کہلاتا ہے ۔ شریف فیملی کی بدقسمتی کہ بنکاروں نے پاکستانی عدالتوں کا رخ کرنے کی حماقت نہ کی ۔ اس کی بجائے وہ لندن کی عدالت میں چلے گئے جہاں ہائی کورٹ نے حکم پاس کیا کہ اگر قرض واپس نہ کیا گیا تو جن فلیٹس کے عوض قرض لیا گیاہے،وہ خطرے میں پڑ جائیں گے ۔ اندرونی حالات جاننے والوں کا کہنا ہے کہ وہ قرض مقدس سرزمین سے تعلق رکھنے والے کسی نامعلوم مہربان نے اداکیا۔
یہ بھی سب کچھ ریکارڈ پر ہے ۔ اس کے باوجود وہ ہر کسی کو چکما دینے پر تلے ہوئے ہیں۔ لفظ’’ التوفیق ‘‘ ہمارے لبوں پر کبھی نہ آیا۔ جمہوریہ کہلانے والے کسی اور ملک ، تاوقتیکہ وہ ایک بنانا رپبلک ہو، میں حقائق کو اس طرح مسخ کرکے بیان کرنے پر عوامی عہدہ رکھنے سے نااہلی کی سزا سمیت سنگین نتائج برآمدہوتے ۔ تاہم یہاں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ مختلف معیار کارفرما ہیں ۔ آصف علی زرداری سوئس کیسز سے بچ نکلے ، اور شریف برادران سے بھی لندن جائیداد کی بابت سخت سوالات نہ پوچھے گئے۔ تاہم آج معاملہ مختلف ۔ پاناما لیکس بلائے آسمانی سمجھیں۔ جب پہلے پہل اسکینڈل منظر عام پر آیا تو صدر ممنون حسین صاحب بھی لب کشائی کیے بغیر نہ رہ سکے ۔ محترم نے اسے ایک آسمانی اشارہ قرار دیا تھا۔یاد کریں کہ غوث علی شاہ اور سرتاج عزیز بھی صدارتی امیدوار تھے لیکن ممنون حسین صاحب کو ترجیح دی گئی ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ خاموشی کو اپنا حتمی شعار رکھتے ہیں۔تو پھر اگر اسکینڈل کی بابت سن کر وہ بھی بول اٹھے تو اس سے آپ کو اس کی سنگینی کا احساس ہوجانا چاہیے ۔
اب حالات و واقعات پاناما اسکینڈل کو سیاسی اکھاڑے سے کھینچ کر چیف جسٹس آف پاکستان کی عدالت میں لے گئے ہیں۔ ذاتی تجربے کی بنا پر کہہ سکتا ہوں کہ جب آپ کو عدالتی کارروائی ، جس کے سنگین نتائج برآمدہوسکتے ہوں، کا سامنا ہوتو آپ کے ذہن سے دیگر تمام معاملات نکل جاتے ہیں۔ آپ کسی پر توجہ مرکوز کر ہی نہیں سکتے ۔ جب آپ سونے سے پہلے اور جاگنے کے بعد آپ کے ذہن پر عدالتی کارروائی اور ممکنہ فیصلے کا خوف سوار ہوتا ہے ۔ اس وقت شریف برادران کے لبوں پر سی پیک وغیرہ کے نعرے ہیں لیکن ان کے ذہن میں کچھ اور ہے ۔ پاناما لیکس کا بھوت پوری توانائی سے اُن کے تعاقب میں ہے ۔ اس وقت تاخیر میں ڈالنے کے حربے کام نہیں دے رہے ، معاملہ عدالت ِ عظمیٰ کے سامنے ہے
چارٹر آف ڈیموکریسی دیکھنے میں کتنا بھاری بھرکم اور زور دار لگتا تھا لیکن وہ دراصل پی پی پی اور پی ایم ایل (ن) کے درمیان طے پانے والا ایک دفاعی معاہدہ تھا ۔ دونوں نے عہد کیا تھا کہ اُنہیں ایک دوسرے کی برائی دکھائی اور سنائی نہیں دے گی۔ اور ہماری اشرافیہ نے اسے جمہوریت کے لئے میگنا کارٹا قرار دیا تھا۔ کہا گیا کہ جمہوری خرابیوں کا علاج مزید جمہوریت ہے ۔ یہ بات سن کر ہمارے سوئس اور لندن کیسیز کے چیمپئن زیر ِ لب مسکراتے ہوں گے ۔ یقینا ہمارے ہاں جمہوریت ہے ، لیکن 1990 ء کے بعد کی جمہوریت ضیا کی آمریت سے مشتق ہے ۔ اس جمہوریت کی سب سے بڑی کلاکاری لوٹ مارہے ۔ اس دوران فوجی آمروں نے بھی لوٹا ہے لیکن وہ جمہوریت لوٹ مار کا مقابلہ کہاں کرسکتے ہیں۔۔۔’’ایں سعادت بزور بازو نیست‘‘۔
یہ تمام صورت ِحال پاکستان میں قیادت کے بحران کو ظاہر کرتی ہے ۔ہمارے سیاست دان، جنرل ، بزنس مین، صنعت کار اور حتیٰ کے میڈیا کے گرو۔۔۔’’سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے ‘‘، کی سند ہیں۔ چنانچہ اس وقت ہمارے فوجی افسران اور جوان، جو سرحد پر اپنی جان نچھاور کررہے ہیں، اور وہ جنھوں نے ضرب عضب کے دوران اپنے خون کی جولانی سے بربادی کی سیاہ لہر کا رخ پھیر دیا ، کیا اُنھوں نے اپنی جان سوئس اور پاناما کیس سے فائدہ اٹھانے والوں کے لئے قربان کی ہے ؟یہ ہماری قوم کے سامنے فیصلہ کن لمحہ ہے ۔ نومبر میں چلنے والی ہوائیں کیا رخ اختیار کریں گی؟اس سوال کا جواب قانون کا کھوکھلا پن نہیں دے سکتا۔
بشکریہ جنگ