“میرے سب سے بڑے بھائی کو تقریباً ڈیڑھ گھنٹا لگا میری بات سمجھنے میں۔ جب میری بات میرے بھائی کو سمجھ میں آئی تو اس نے اس طرح مجھے دیکھا جیسے میں پاگل ہو گئی ہوں۔ مجھے اس کے چہرے کے تاثرات دیکھ کر زور کی ہنسی آ گئی۔
ایسا نہیں ہے کہ میرا بھائی غصیلا ہے یا بے جا پابندیاں لگانے کا شوقین ہے یا وقت بے وقت اس کی غیرت جاگ جاتی ہے۔ ہرگز نہیں۔ ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔ میرے چار بھائی ہیں اور وہ چاروں میرے بھائی کم اور میرے دوست زیادہ ہیں۔ میں ان کی اکلوتی بہن نہیں ہوں۔ مجھ سے بڑی میری ایک اور بہن بھی ہے مگر میرے تمام بھائی مجھ سے بے انتہا محبت کرتے ہیں۔ میری ہر بات ان کے لیےحکم کا درجہ رکھتی ہے۔ اگر میں کسی خواہش کا اظہار کر دوں تو اس کو کسی بھی طرح ممکن بنانا وہ اپنی زندگی کا حاصل سمجھتے ہیں۔ ان کا بس نہیں چلتا ورنہ وہ مجھے ہر وقت اپنی گود میں یا کاندھے پر اٹھائے پھریں۔
مسئلہ صرف یہ تھا کہ مجھے اپنی بات سمجھاتے ہوئے بہت مشکل پیش آ رہی تھی۔ ویسے تو میرا ہر بھائی میرے چہرے کے تاثرات اور میری آنکھوں کی جنبش تک کو سمجھ جاتا ہے مگر کبھی کبھار ایسا ہو بھی جاتا ہے کہ مجھے اپنی بات سمجھانا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ ایسے میں مگر میرے بھائی جھنجھلاتے نہیں ہیں۔ بلکہ صبر سے انتظار کرتے ہیں کہ میں اپنی بات مکمل طور سے ان کو سمجھا سکوں۔
جب میری بات میرے بھائی کو سمجھ میں آئی تو اس نے اس طرح مجھے دیکھا جیسے میں پاگل ہو گئی ہوں۔ مجھے اس کے چہرے کے تاثرات دیکھ کر زور کی ہنسی آ گئی۔ ویسے بات ہنسی والی ہی تھی۔ میں نے اپنے بھائی کو تقریباً ڈیڑھ گھنٹا لگا کر یہ سمجھایا تھا کہ میں اس کی جینز کی پینٹ پہن کر باہر جانا اور بھاگنا چاہتی ہوں۔ مجے معلوم ہے کہ میرے بھائی کو میرے جینز پہننے پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ مگر وہ صرف یہ سوچ رہا ہے کہ میں کیسے بھاگ سکتی ہوں۔
نہیں۔ آپ غلط سمجھ رہے ہیں۔ مجھے اپنے گھر میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ میں بہت خوش ہوں۔ اگر میں دس بار بھی پیدا ہو جاؤں تب بھی اسی گھر اور انہی بھائیوں کے ساتھ رہنا چاہتی ہوں۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ میں بھاگ نہیں سکتی۔ میں پیدائشی معذور ہوں۔ نہ صرف یہ کہ میں بھاگ نہیں سکتی بلکہ میں بول بھی نہیں سکتی۔ اپنے ہاتھوں سے کچھ تھام بھی نہیں سکتی۔ میں سوتے ہوئے کروٹ نہیں لے سکتی۔ اور میں اپنے منہ پر بیٹھی مکھی یا کاٹتا ہوا مچھر تک نہیں اڑا سکتی۔ ایسے میں بھاگنے کی خواہش کا اظہار میرے بھائی کو پریشان کر گیا کیونکہ آج تک تو ایسا نہیں ہوا کہ میں نے کوئی خواہش کی ہو اور میرے بھائیوں نے اس کو پورا نہ کیا ہو۔
اصل میں کل رات مجھے خواب آیا تھا کہ میں اپنے بھائی کی جینز کی پینٹ پہن کر باہر نکل گئی ہوں اور خوب بھاگ دوڑ کر رہی ہوں۔ مجھے اپنے بھائی کو سمجھانے میں ڈیڑھ گھنٹہ اس لیے لگا کیونکہ میں صرف آنکھوں کے اشاروں، چہرے کے تاثرات اور سر کی معمولی جنبش کی مدد سے ہی اپنی بات بتا پاتی ہوں۔ پھر بھی میرے گھر والے میری ہر بات سمجھ جاتے ہیں۔
مگر میں آج آپ کو بتانا چاہتی ہوں کہ جب کبھی میں اپنے گھر والوں کے ساتھ وہیل چیئر پر باہر نکلتی ہوں تو مجھے ذہنی بیمار لوگوں کی نظروں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ عجیب عجیب نظروں کا۔ لوگوں کی نظروں میں میرے لیے رحم ہوتا ہے۔ ترس ہوتا ہے۔ کچھ لوگ مجھے دیکھ کر اپنے کانوں کو ہاتھ لگاتے ہیں۔ کچھ لوگ منہ پھیر لیتے ہیں۔ مجھے اس رویئے سے حیرت بھی ہوتی ہے اور افسوس بھی ہوتا ہے۔ کیا میں خدا کی بنائی ہوئی مخلوق نہیں ہوں؟ کیا ہوا جو میرے خدا نے مجھے آزمائش کے لیے چن لیا ہے۔ میں اس آزمائش کو حوصلے سے اور ہنس کھیل کر سہ رہی ہوں۔ میرے سارے گھر والے اس آزمائش میں میرے ساتھ ہیں۔ میرے بھائی میرے ہاتھ پیر ہیں۔ میری ماں میرے وجود کا دوسرا حصہ بن گئی ہے۔ میری بہن میرے ہر دکھ سکھ کی ساتھی ہے۔ میری سب بھابیاں مجھے اپنے ہاتھوں کا چھالا بنا کر رکھتی ہیں۔ میں جسمانی معذور ہوں مگر ذہنی معذور نہیں ہوں۔ مجھے غصہ آتا ہے یہ دیکھ کر کہ جسمانی تندرست لوگ ذہنی طور پر معذور ہیں۔ وہ مجھے اپنا جیسا ایک انسان سمجھنے پر تیار نہیں ہوتے۔ جاہل کہیں کے۔
مگر مجھے شکایت پاکستان کی حکومت سے ہے۔ حکومت نے میری بیماری پر کوئی ریسرچ بھی نہیں کی۔ چلیں آپ کے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں۔ آپ کی ترجیحات میں معذوروں کے علاج اور ان کی بیماریوں کے تدارک کی تدابیر بھی شامل نہیں ہیں مگر آپ اتنا تو کر سکتے ہیں کہ پاکستان میں معذوروں کے لیے آسانیاں فراہم کر دیں۔ پبلک مقامات پر معذوروں کی وہیل چیئر کے لیے الگ راستے بنا دیں۔ ان کے لیے پارکس مخصوص کردیں جہاں انہیں جسمانی تندرست مگر ذہنی بیماروں کی گھٹیا نظروں کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ آپ نے معذوروں کے لیے سرخ نشان والے شناختی کارڈ تو جاری کر دیئے مگر قوم کو اس شناختی کارڈ کی اہمیت اور احترام کا سبق دینا آپ بھول گئے۔
مجھےتفریح میں حصہ لینے کا اتنا ہی حق ہے جتنا کسی بھی اور شخص کو ہے۔ مگر میرے لیے کنسرٹس میں، کرکٹ میچوں میں، تقریبات میں الگ سے جگہ مختص نہیں کی جاتی جہاں پر بیٹھ کر میں سکون سے اپنی پسند کی تفریح سے لطف اندوز ہو سکوں۔ مجھے تو سارا وقت لوگوں کی نظروں کی کاٹ سہنے سے سنبھلنے میں لگ جاتا ہے۔ ایسے میں تفریح کیا خاک کر پاتی ہوں گی؟ یہی میری شکایت ہے کہ پاکستان میں میرے لیے تفریح کی سہولت کیوں نہیں ہے؟
میں نے ٹی وی پر کسی کو بڑے جوش سے کہتے ہوئے سنا تھا کہ ریاست ماں کے جیسی ہوتی ہے۔ تو کیا ماں اپنے بچوں سے ایسا سلوک بھی کرتی ہے؟”
نوٹ از مصنف: مریم احمد میری چھوٹی بہن ہیں اور ایک ایسی بیماری کا شکار ہیں جو دنیا میں بہت کم پائی جاتی ہے۔ ہمارے خاندان کی مزید دو بچیاں جو کینیڈا میں رہائش پذیر ہیں اسی بیماری کا شکار ہیں۔ کینیڈا کے مانٹریال نیورولوجیکل انسٹیٹیوٹ اینڈ ہاسپیٹل نے اس بیماری کو سماجی سپیکٹرو پاراپائیجیا کا نام دیا ہے۔ اور اس بیماری کے شکار مریضوں کو لاعلاج قرار دیا ہے۔ البتہ وہ پرامید ہیں کہ مستقبل میں شاید وہ کوئی ایسی ویکسینیشن بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے جو آئندہ آنے والی نسلوں کے لیے کارآمد ثابت ہو۔ ہم صرف دعا اور کوشش کر سکتے ہیں کہ مریم کی زندگی کو جس حد تک ممکن ہو آرام دہ اور خوش گوار بنا سکیں۔
شعیب ملک پاکستان کے مایہ ناز کرکٹر ہیں۔ پاکستان کپ 2017ء کے موقعے پر انہوں نے میچ کے بعد مریم کی فرمائش پر مریم سے ملاقات کی جس سے مریم بہت خوش ہوئی تھیں۔ اللہ تعالیٰ شعیب ملک کو خوش رکھے اور مزید کامیابیوں سے نوازے۔ اس ملاقات کی ویڈیو کا لنک یہ ہے: