تحریر و تحقیق سینئر صحافی ؛اصغر علی مبارک کے قلم سے .!!
..حکیم الامت عظیم فلسفی اور ملت کے غم خوار علامہ اقبال 9 نومبر 1877 کو سیالکوٹ میں پیدا ہو ئے،شہر اقبال سیالکوٹ کو روحانی درویشوں ، عارفوں،مہاتماوں کی سرزمین آٹھ دروازوں کا شہر کہا جاتا ہےراجہ سل کے زمانے میں اسے سل کوٹ کے نام سے بھی پکارا جاتا تھا، بوسیدہ ،کھنڈر،سلاطین باطن کے پاک مزارات ،مسمار قلعے،ٹوٹی پھوٹی قبریں،چپہ چپہ پر پرانے قلعے اسکی گزشتہ بڑائی کے افسانے دوہراتے ہیں جس قدر پ انقلابات اور زمانے کی نیر نگیاں سیالکوٹ کے حصہ میں آئی ہیں شاید ہی روح زمین پر کوئی شہر ان کا متحمل ہو سکا ہو
اس شہر کی بنیاد چار ہزار سال قبل راجہ سل نے رکھی اور شہر کے وسط میں دہری فصیل والا قعلہ دفاع کے نقطہ نظر سے تعمیر کروایا جس وقت راجہ سل نے اس قلعہ کی بنیاد رکھی اس وقت اصل شہر آجکل کے ٹبہ ککے زئیاں،امام صاحب،ٹبہ سیداں،ٹبہ شوالہ،دھاروال اور پالا شاہ گیٹ پر مشتمل تھا 323 سال قبل سکند اعظم کے ساتھ مورخ پنجاب آئے اور 300 سال قبل دریائے راوی اور چناب میں زبردست طغیانی آنے سے سل کوٹ اور گردو نواح کے علاقہ صفحہ ہستی سے مٹ گئے شاہ جہاں بادشاہ کے دور حکومت میں سل کوٹ ایک بار پھر دنیا کے نقشہ پر ابھرا اور یہاں پر 13 باغ،12 دریاں بنیں اور تعمیر و ترقی کا دور شروع ہوا پھر ایک وقت میں سکھوں نے اس پر قبضہ کر لیا اور ایک عرصہ تک شراب و جواء اس شہر میںچلتے رہے سکھ بادشاہ رنجیت سنگھ کی وفات کے بعد انگریزوں نے اس شہر میں پنجے جما لئے 1849ء میں مہا راجہ دلیپ سنگھ کو معزول کر دیا گیا اور سل کوٹ کو دوسرے علاقوں کی طرح اپنی گرفت میں لےلیا1857ء میں پہلا مارشل لا نافذ کر دیا گیا جہلم اور راولپنڈی کے مسلم فوجیوں نے اپنی توپوں کے منہ انگریز چھاونیوں کی طرف کر کے بغاوت کا آغاز کیاپھر صوفیاء کرام نے سل کوٹ میں پانچ دینی درسے قائم کئے جن میں دوردراز سے طلبہ طالبات حفظ قرآن اور دین کی تعلیم کےلئے جوق دو جوق آتے رہے پاکستان کو معرض وجود میں لانے کےلئے سیالکوٹ کے باسیوں نےانتھک کوششیں کیں 1944ء میں مسلمانوں کی عظیم رہنما قاعد اعظم محمد علی جناح سیالکوٹ دورہ پر آئے اور تالاب شیخ مولا بخش میں عوامی اجتماع سے خطاب کیا انکے ہمراہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان تھے انہوں نے اپنے خطاب میں فرمایا”” میں آپ کی طرح نوجوان نہیں ہوں لیکن آپ کے جذبے نے میری قوت کو دو آتشہ کر دیا ہے“
پاکستان کی آزادی لاکھوں قربانیوں کے نتیجے میں وجود میں آئی جس میں سیالکوٹ کے باسیوں نے کسی قربانی سے دریغ نہیں کیا سیالکوٹ میں آزادی کے بعد بہت کم صنعتیں تھیں اور ضلع کی آبادی ایک لاکھ نفوس پر مشتمل تھی ضلع سیالکوٹ کی ایک تحصیل نارووال کو بعد میں ضلع کا درجہ دے دیا گیا اور اب سیالکوٹ میں صعنتوں کا جال پھیلایا جا چکا ہے چیمبر آف کامرس آج سیالکوٹ کی بدولت سے آج سیالکوٹ میں ایک انٹرنیشنل ائیر پورٹ تعمیر کیا جا چکا ہے جس میں حکومت کا کوئی عمل دخل نہ ھے،اور اس شہر کی اپنی ایئر لائنز سیال ایئر کے نام سے دنیا میں پاکستان کا سوفٹ امیج اجاگر کر رھی ھے .
قلعہ سیالکوٹ کے جنوب مشرقی حصے کی جانب وہ دروازہ کے قریب قدیم محلہ چوڑی گراں واقع ہے جس کی ایک گلی میں وہ تاریخی مکان ہے جس کو ہم ”اقبال منزل”کے نام سے جانتے ہیں۔ اس تاریخی مکان کی طرف جانے والی سڑک کو اقبال روڈ کہتے ہیں۔ اس تاریخی مکان اقبال منزل کا کل رقبہ 3250 مربع فٹ ہے یعنی موجودہ حساب سے سات مربوں سے زیادہ ہے۔یہ مکان علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ کے دادا شیخ محمد رفیق نے 1861 میں صرف 150 روپے میں خریدا تھا۔
اس کی مرمت کروائی، موجودہ اقبال منزل کا مشرقی حصہ جو مغربی حصہ سے تین گنا بڑا ہے علامہ کے والد نے ملحقہ مکان خریدا تو اس کے بعد مکان میں مزید کمروں کے علاوہ ایک برساتی اور ایک برآمدے کا اضافہ ہوا۔ جس کی وجہ سے مکان کا رخ اقبال روڈ کی طرف آ گیا۔موجودہ مکان قدیم طرز کی ایک نادر نمونہ ہے بلکہ پورے مکان کی طرز تعمیر یورپین ٹائپ ہے۔
اس مکان کا ایک حصہ محلہ چوڑی گراں میں جا لگتا ہے لیکن آج کل وہ راستہ آمد ورفت کے لئے استعمال نہیں ہوتا بلکہ اقبال روڈ کی طرف سے اقبال منزل جانے کا راستہ ہے اور اب یہی صدر دروازہ کہلاتا ہے۔
علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ کا خاندان نیکی اور پاک دامنی کی وجہ سے ہمیشہ عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ علامہ کے والد شیخ نور محمد اس مکان کے ایک حصے میں (موجودہ آفس اور لائبریری والا کمرہ) دکان کیا کرتے تھے۔ وہ برقعوں کی ٹوپیاں بنانے کے ماہر تھے۔ کہتے ہیں کہ ان کے والد برقع ٹوپی( ژٹل کاک ٹوپی) بنانے کے موجد بھی تھے۔
ہر شخص ان کو عزت کی نگاہ سے دیکھتا تھا۔ اقبال کی جائے پیدائش اس وقت ایسے نہیں تھی جیسے اب ہے۔اقبال منزل کا مغربی حصہ جو( چوڑی گراں) گلی کی طرف کھلتا ہے اصل مکان ہے جس کی نچلی منزل کے آخری جنوبی کمرے میں علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ پیدا ہوئے۔
یہ بات سب مانتے ہیں کہ اقبال کے بچپن میں ہی اقبال منزل اسی صورت موجود تھی۔ اس مکان میں علامہ نے ہوش سنبھالا، بچپن، لڑکپن، جوانی کے ایام بلکہ ان کی پہلی شادی بھی اسی مکان میں ہوئی تھی۔ اس مکان کے صحن اور چوباروں پر کھیلنا، پتنگیں اڑانا، کبوتر پالنا بھی اسی منزل سے وابستہ ہیں۔اقبال منزل کا نقشہ کچھ یوں ہے پورا مکان تین منزلہ ہے۔
مغربی حصہ جس میں اقبال پیدا ہوئے بھی تین منزلوں پر مشتمل ہے۔ جواب انتہائی خستہ ہو چکی ہے اور سہاروں کے بل بوتے پر کھڑی ہے۔ خاص طور پر مشرقی حصہ بہت خستہ ہے دیواروں اور کمروں میں دراڑیں پڑ چکی ہیں کہ کسی وقت بھی کوئی حادثہ رونما ہو سکتا ہے اور وہ حصہ کسی وقت بھی زمین بوس ہو سکتا ہے۔ نچلی منزل میں ڈیوڑھی اور گلی کی طرف سے داخل
ہوتے ہوئے دائیںہاتھ آگے پیچھے دو کمرے ہیں۔یہ دونوں کمرے گلی کے رخ پر ہیں گلی کے رخ پر مکان کا سابقہ صدر دروازہ ہے جو قدیم طرز کا نادر نمونہ ہے اس کے سامنے چوکور احاطہ تھا اب وہاں بھی آبادی ہو چکی ہے اور جگہ کی تنگی کے باعث بلڈنگ پوری طرح نظر نہیں آتی لیکن اس کے دائیں بائیں گلیاں موجود ہیں۔
پہلی منزل پردوکمرے تھے جنہیں بیچ کی دیوار نکال کر ایک کمرہ بنادیا گیا۔دوسری منزل ایک کمرے اور دو طرفہ کھلے ہوئے ایک برآمدے پر مشتمل ہے کہتے ہیںکہ علامہ جب کبھی گرمیوں میں سیالکوٹ آتے تو اس کمرے کو استعمال کیا کرتے تھے۔
بازار کی جانب سے مکان کی بالائی منزل کو جانے والا زینہ ہے جومردان خانے کے لئے راستے کی خاطر استعمال ہوتا تھا مہمان خانہ تین چھوٹے کمروں پر مشتمل تھا اس کے ساتھ ایک غسل خانہ تھا۔ مہمان خا نے کا پہلا کمرہ بیٹھک کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔ مردان خانے کے دوسرے کمروں کے دروازے زنان خانہ میں بھی کھلتے تھے۔یہ دو کمرے ان کے بڑے بھائی شیخ عطا محمد کے استعمال میں رہتے تھے۔ مردان خانے کے ان چاروں کے رخ پر باہر کی طرف سے ایک بڑی گیلری بنی ہوئی ہے بقول خالد نظیر صوفی نواسہ شیخ عطا محمد بیٹھک کے ساتھ ایک چھوٹا سا کمرہ تھا۔ مہمان خانے کی چھت پر فانوس لٹکا کرتا تھا اور اس کمرے میں جو شیخ عطا محمد کے زیر استعمال تھا اس کمرے میں وکٹورین طرز کا ایک خوبصورت آہنی آتش دان تھا ۔ جواب بھی ہی ہے ۔پہلی منزل کا زنان خانہ تین کمروں پر مشتمل تھا جس میں دو کمرے جبکہ تیسرا کمرہ انہی سے ملحق اندر کی طرف سٹور اور باورچی خانے کے لئے استعمال ہوتا تھا(ریکارڈ روم بنا دیا گیا ہے) بالائی منزل کی شمالی دیوار کے ساتھ محراب بنی ہوئی جس میں خوراک محفوظ رکھنے والی جالی نصب تھی جبکہ اس دیوار کے ساتھ شمال مشرقی کونے میں ایک انگیٹھی تھی جس کا دھواں دان بند کر دیا گیا۔سڑک کے رخ پر مہمان خانے کے اوپر جو کمرہ اور بر آمدہ ہے اسی کمرے کی چھت پر علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے کبوتروں کے لئے جگہ بنا رکھی تھی اور دوسری منزل پر سٹور کو بھی کبوتروں کے لئے استعمال کرتے تھے۔ کبوتروں کے بارے میں علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ کا نظریہ یہ تھا کہ کبوتروں کے پروں سے جو ہوا گزر کر آتی ہے وہ صحت کے لئے بہت اچھی ہوتی ہے۔شمال مشرقی کونے میں واقع الگ تھلگ برساتی کو علامہ اپنے بچپن میں پتنگ اڑانے کے لئے موزوں خیال کرتے تھے۔ سڑک کے رخ پر دوسری منزل کی خفاظتی جالیوں کو ٹوٹنے کے بعد آہنی جنگلے سے ری پلیس کیا گیا جبکہ اوپر والی منزل کی جالیاں محفوظ ہیں۔ اقبال منزل کو قومی تحویل میں لینے کے بعد اقبال روڈ کی طرف سے یعنی مشرقی حصے کی جانب پہلی منزل کے نیچے جودکانیں تھیں انہیں ایک بڑے ہال نما کمرے کی شکل میں دارالمطالعہ بنا دیا گیا۔جبکہ اس کے ساتھ والے کمرے میں ایک لائبریری اور آفس بھی بنایا گیا۔
جہاں تمام قومی اخبارات اور رسائل پڑھنے کے لئے موجود ہوتے ہیں۔ اقبال منزل کے انچارج سید ریاض حسین نقوی نے آج سے 20 بائیس سال قبل جب اس مکان کا چارج لیا تو اس کی حالت بہت خراب تھی لیکن انہوں نے جس خلوص ، دیانتداری اور محبت کے ساتھ اس کو خوب سے خوب تر کرنے اور اسے صاف ستھرا رکھنے کی کوشش کی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔
کچھ عرصہ قبل علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ کے پوتے منیب اقبال یہاں تشریف لائے تو انہوں نے اقبال منزل دیکھنے کے بعد اپنے تاثرات میں لکھا کہ” گھر آنا ہمیشہ بہت اچھا اور پر سکون لگتا ہے۔ خاص طور پر اب جبکہ اس کی حالت پہلے سے بہت بہتر ہو گئی ہے”۔ اقبال منزل کے انچارج سید ریاض حسین نقوی نے بہت کچھ کررھے ھیں بزم اقبال سیالکوٹ کے ذمہ دا راں سے مطالبہ کیا کہ سکول اور کالج کی سطح پر اقبالیات کو ایک لازمی مضمون کے طور پر پڑھایا جانے کی تحریک شروع کی جاۓ ۔کیوں کہ قوم نے ستر سالوں میں اغیار کے تیار کیے گئے تعلیمی نظام کو دیکھ لیا اب اپنے اسلاف کی فکر پر تعلیم کی بنیادوں کو کھڑا کیا جا نا وقت کی ضرورت ھے نئی نسل کو ایک سازش کے تحت حکیم الامت کی فکر سے دور رکھا گیا ۔ یہ اسی جرم کا نتیجہ ہے کہ تعلیمی اداروں کی تعداد میں اضافہ کے باوجود بھی کوئی علامہ اقبال ، قائداعظم، جیسا لیڈر پیدا نہیں ہوسکا ۔
خصوصی ملاقات میں راقم الحروف کو بتایا کہ سالانہ تقریبا چھبیس لاکھ روپے تقریب بزم اقبال کرتی ھے اور کسی بھی حکومت سے کوئی مدد نہیں لی جاتی ،تاھم یہ بات درست ھے کہ حکومت کی طرف سے کسی قسم کی امداد نہ ہونے کی وجہ سے مکان کی خستہ حالت وہیں کی وہیں ہے۔ چند سال قبل صوبائی وزیر صنعت محمد اجمل نے اقبال منزل میں کھڑے ہو کر یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ یہاں ایک جدید ریسرچ سنٹربنائیں گے تاکہ عوام زیادہ سے زیادہ استفادہ کر سکیں اور یہ بھی سننے میں آیا تھا کہ ڈی سی سیالکوٹ اس بلڈنگ کی رینوویشن کے لئے خصوصی اور فوری اقدامات کریں گے علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ کے اس کمرے میں کچھ وقت گزارہ تو محسوس ھوا کہ علامہ اقبال کی روح سوچ رھی ھے،کہ سیالکوٹ میں ایک انٹرنیشنل ائیر پورٹ تعمیر کیا جا چکا اس شہر کی اپنی ایئر لائنز سیال ایئر کے نام سے دنیا میں ھے مگر شہر اقبال کے کاروباری لوگ اپنے کاروبار کو خوب ترقیاں دیتے نظر آتے ھیں مگرعلامہ اقبال کے مکان کے لئے کچھ نہیں کررھے جبکہ بڑے بڑے پلازے، بلڈنگ اور فیکڑیاں تیزی سے بن رہی ہیں لیکن اقبال منزل کی جانب کسی کو دھیان نہیں حالت نہیں،اردگرد کی عمارتوں کو سرکار خرید کر فوری طور پر قومی ورثہ قرار دے ،زمانے کے شکست و ریخت کو نہ روکا گیا تو تاریخی ورثہ صرف تصور اور تصاویر میں ھی نظر آے گا جس ھم کو پاکستان جیسے گھر کا تصور دے کر آزادی کے لفظ سے آشنا کیا یہاں اقبال منزل کی خستہ حالی کی اور بھی کئی وجوہات ہیں یہاں اوپن ڈرینج (چاروں طرف) صبح و شام ٹریفک کی وجہ سے اٹھتا ہوا دھواں بلڈنگ میں لکڑی کے کام یعنی بلڈنگ کے حسن کو زبردست متاثرکر رہا ہے۔ شوشل میڈیا کے دور میں بھی بعد قسمتی سے ھم فلسفہ اقبال سے ناآشنا نظر آتے ھیں شاعر مشرق علامہ ڈاکٹر محمّد اقبال کی جاۓ پیدائش دیکھنے کی سعادت حاصل ھوئی تو جذبہ ایمان کی قوت بڑھ گئی بزم اقبال سیالکوٹ کے ذمہ دا راں نے اپنی مدد آپ کے تحت تاریخی ورثے کی اب تک جس طرح دیکھ بھال کی ھے وہ خود اپنی جگہ ایک حقیقت ھے مگر پنجاب کو ترقی دینے والے سیا ستدانوں کو اس تاریخی ورثہ کو قومی ورثہ کے تحت حفاظت میں لےکر اپنا حصہ ڈالنا چاھے کیونکہ ماضی قریب میں اسی غفلت و لاپروائی سے کوئٹہ زیارت میں قائداعظم ریزیڈنسی کا نقصان کروا چکے ھیں، درجونوں سیکورٹی گارڈز کے ھمراہ گھومنے والے سیاستدان اقبال منزل کا دورہ کر کے دیکھ لیں ایک بھی سیکورٹی گارڈ ،پولیس اھلکار موجود نہیں ،پاکستان آرمی چیف اس قومی ورثے پر کسی بھی یونٹ کی ڈیوٹی لگا کر شاعر مشرق علامہ ڈاکٹر محمّد اقبال کی جاۓ پیدائش کو ہمیشہ کے لئے محفوظ بنا سکتے ھیں جس طرح پاکستان کی جنگی ہیروز کی اشیا آرمی میو ز یم کی طرح محفوظ بنا کر آئندہ نسلوں کے لئے کیا گیا ھے ،اقبال منزل بلاشبہ ہمارا ایک تاریخی اور قومی ورثہ ہے جہاں پر نہ صرف علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ پیدا ہوئے بلکہ ان کے زیر استعمال اشیاء بھی تاریخی ورثہ ہیں۔
ان میں علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ کے مطالعہ کی کرسی ، پلنگ، پنگھوڑا، آتش دان ، مسہری، صندوق، حقہ، برتن، گھڑیاں الغرض لاتعداد اشیاء موجود ہیں جبکہ تمام کمروں اور باہر کی تمام دیواروں کے ساتھ علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ کی فریم شدہ تاریخی تصاویر بھی نمایاں ہیں جا کہ دیکھنے والاں کے لئے بڑی اہمیت کی حامل ہیں اور اب تک ہزاروں لوگ اس کو دیکھ چکے ہیں۔علامہ اقبال کے آبائی مکان کے قریب گلی حسام الدین میں علامہ کے استاد میر حسن کا مکان ہے جہاں علامہ نے تعلیم حاصل کی۔ اقبال منزل سے ملحق یعنی ہمسائے میں پروفیسر خواجہ راشد جاوید کا مکان ہے جو بڑے صاحب علم و دانش ہیں ۔علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ کے والد بزرگوار شیخ نور محمد1840ء سیالکوٹ کے محلہ کھٹیکاں میں شیخ محمد رفیق کے گھر کی رونق بنے.شاعر مشرق علامہ ڈاکٹر محمّد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی شاعری کوبدقسمتی سے ھماری قوم نہ سمجھ سکی ھے اور نہ ہی قوم کے ر ا ھنماؤں سیاست میں فلسفہ اقبال کو سمجھا،آج مغرب و مشرق میں عظیم شاعرکے فرمودات پر عمل کر کے قوموں نے منزلیں پا لی ھیں اور ھما ری نوجوان نسل شاعر مشرق علامہ ڈاکٹر محمّد اقبال کی تاریخ پیدائش و وفات کو بھی بھولتی جا رہی ھے۔ملتِ اسلامیہ کا کون سا ایسا فرد ہو گا جو علامہ اقبال سے نا واقف ہو۔ اقبال بہت بڑے مصور، فلسفی شاعر اور عظیم سیاست دان تھے۔ مسلمانوں کے لیے آپ کا پیغام آج بھی غور و فکر کا باعث ہے۔اقبال نے مسلمانوں کو ایک تابناک مستقبل کے حصول پر آمادہ کیا
حکیم الامت عظیم فلسفی اور ملت کے غم خوار علامہ اقبال 9 نومبر 1877 کو سیالکوٹ میں پیدا ہو ئے۔ ابتدائی تعلیم قدیم دینی مکتب سے حاصل کی۔ مشن ہائی سکول سے میٹرک کیا۔ مرے کالج سیالکوٹ سے ایف ۔اے اور گو ر نمنٹ کالج لاہور سے بی اے اور ایم اے کیا جہاں آپ کو پروفیسر آرنلڈ جیسے محقق استاد ملے جنھوں نے آپ کے ذہن کو فلسفیانہ جلا بخشی۔ 1905 میں آپ یورپ چلے گئے۔انگلستان سے بیرسٹری اور جرمنی سےپی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔1908 میں وطن واپس آئے اور وکالت کو پیشے کے طور پر اپنایا لیکن اصل میدان شاعری تھا۔یہ ہندوستان میں سیاسی بیداری کا دور تھا۔ آپ نے سیاست میں عملی طور پر حصہ تو لیا لیکن اسے بطور پیشہ نہ اپنایا۔ 1926 میں عوام کی خواہشات کے سامنے جھکتے ہوئے الیکشن جیت کر مجلس قانو ن ساز کے رکن منتخب ہوئے۔ 1930 میں آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر چنے گئے جس کےسالانہ اجلاس میں انھوں نے مسلمانوں کےلئے الگ ریاست کا تصور پیش کیا۔
اقبال نے اپنی شاعری کا آ غاز غزل سے کیا۔ عموما ان کی شاعری کو تین ادوار میں تقسیم کیا جا تا ہے۔ ابتدائی دور 1901 سے 1905 تک پھیلا ہوا ہے۔ اس دور کے کلام میں کوئی خاص نظریہ شاعری نہیں۔ اس وقت آپ نے وطنی شاعری کا آغاز کیا۔ ہمالیہ ، ایک آرزو اور ترانہ ملی جیسی نظمیں اسی دور کی شاہکار نظمیں ہیں۔ دوسرا دور 1905 سے 1908 تک کا ہے جب اقبال یورپ میں تھے۔ وہاں کے ماحول ، مشاہدات، اور ذاتی تجربات نے اقبال کے نکتہ نظر میں انقلاب پیدا کر دیا۔ ان کو پتا چل گیا کہ نئی تہذیب کی پیروی تباہ کن ہے اور اسلامی روایات کا دامن تھامنے میں ہی ہماری فلاح ہے۔ اس دور میں آپ نے نظریہ ملی کو اپنے کلام مین پیش کیا۔تیسرا دور 1908 کے بعد کا ہے۔ اس دور میں شاعری پیغمبری بن جاتی ہے۔ خیالات میں پختگی اور پاکیزگی نظر آتی ہے۔ کلام میں جوش، دردوسوز اور ترنم ہے۔ اسی طرح اقبال مخصوص علامات جیسے شاہین ،گل لالہ اور مرد مومن کا استعمال کرتے ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اقبال کے تمام تصورات خودی کے تابع ہیں۔ اقبال کے یہاں خودی کو بنیادی حیثیت حاصل ہے جو خودشناسی سے خدا شناسی تک کا عمل ہے۔ یہ وہ درجہ ہے جہاں انسان کی رضا اللہ کی رضا بن جاتی ہے۔اقبالؒ کے نزدیک جب انسان خود کو پہچان لیتا ہے تو وہ دراصل کائنات کے راز کے پالیتا ہے اور یہی وہ مقام ہے کہ جب وہ نیا بت الہی سے سر فراز ہوتا ہے۔بقول اقبال ”
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے”
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے”
اقبالؒ کے نزدیک خودی کی پہنچان کرنے والا ہی مردِ مومن ہے۔ اس کا کردار ، اخلاق اورعمل پا کیزگی کا مظہر ہو تا ہے۔ مردِ مومن ظاہری اسباب پر بھروسہ کر نے کی بجائے اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرتا ہے۔
ہر لحظہ ہے مومن کی نئی آن نئی شان ؎
گفتار میں کردار میں اللہ کی برہان
غفاری و قہاری و قدوسی و جبروت
یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان
عشقِ رسول ؐ اقبال کا خاص مو ضوع ہے جو بالآ خر قربتِ الٰہی کا سبب بنتا ہے اور اقبال کے خیال میں یہی جذبہ مسلمانوں کی کامیابی اور ناکامی ذریعہ ہے۔
کی محمدؐ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
اقبالؒ عقل کی افادیت کے قائل ہیں مگر وہ عقل پر جذبہ عشق کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ عقل منزل تک تو پہنچا سکتی ہے مگر عشق کے بغیر منزل کا حصول ممکن نہیں۔
:اقبالؒ سرمایہ دارانہ نظام کے سخت خالف تھے۔ ان کے نزدیک
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی ؎
اس کھیت کے ہر گوشہ گندم کو جلا دو
اقبالؒ نے مسلمانوں کو امن اور اخوت کا درس دیا۔ اقبالؒ مسلمانوں کو متحد دیکھنا چاہتے تھے اور انھیں ایک مرکز پر جمع کرنے کے خواہشمند تھے۔
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کےلیے ؎
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاکِ کاشغر
اقبال نو جوانوں میں عقابی روح بیدار کرنا چاہتے ہیں ۔ اس لیے وہ نو جوانوں کو شاہین کہہ کر مخاطب کرتے ہیں جو تیز رفتار ہے اور مردار نہیں کھاتا۔
نہیں ہے تیرا نشیمن قصرِ سلطانی کے گنبد پر ؎
تو شاہین ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں
اقبال نے قیام یورپ کے دوران مغربی تہذیب کا مطالعہ کیا۔ انھیں فرنگی تہذیب کے کھوکھلے پن کا اندازہ ہو گیا تھا۔ اس لیے اپنی قوم کو مغربی تہذیب سے بچنے کی تلقین کرتے ہو ئے اہلِ مغرب کو با خبر کرتے ہیں۔
دیارِ مغرب میں رہنے والو خدا کی بستی دکاں نہیں ہے ؎
کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو وہ اب زرِ کم عیار ہو گا
اقبال زندگی کے حرکی تصور کے قائل ہیں۔ ان کے نزدیک حقیقی زندگی مردِ آزاد کی ہے جو عشق سے فنا کو بقا میں تبدیل کر دیتا ہے۔
مردِ خدا کا عمل عشق ہے صاحب فروخت ؎
عشق ہے اصل حیات موت ہے اس پر حرام
اقبال ملتِ اسلامیہ کی خستہ حالی پر پریشان ہو تے ہیں لیکن انھیں راہِ عمل پر گامزن ہو نے تلقین کرتے ہیں اور کامیابی کی امید دلاتے ہیں۔
اُٹھ کہ اب بزم ِ جہاں کا اور ہی انداز ہے ؎
مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے
اقبال کے نزدیک فرد کی زندگی جماعت کے بغیر ممکن نہیں۔ اس کی بقا اتحاد و قوت کا مظاہرہ کرتے ہو ئے قوم کے ساتھ جڑے رہنے میں ہے۔
فردقائم ربطِ ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں ؎
موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں
اقبال نہ صرف بہترین شاعر ہیں بلکہ ان کے خطوط سے ان کی فطری صلاحتیں ابھر کر سامنے تھیں۔ ان کے خطوط سادہ زبان سے مزین، تاریخ سے بھرپور اور اعجاز و اختصار کے حامل ہیں۔ علامہ اقبال نے نثر ہو یا نطم ، فلسفہ ہو یا تصوف جو بھی ہے ہرایک پر قرآنِ کریم کے اثرات گہرے نظر آتے ہیں۔
اقبال کا کلام اردو اور فارسی دونوں زبانوں میں مو جود ہے۔ اردو میں بانگِ درا، بالِ جبریل، ارمغا نِ حجاز اور ضربِ کلیم جیسے مجموعے شامل ہیں جبکہ مثنوی اسرارِ خودی، جاوید نامہ، رموزِ بے خودی، پیامِ مشرق اور زبورِ عجم ان کے فارسی شعری مجموعے ہیں۔اقبال شاعرِ مشرق، ترجمانِ حقیقت اور قوم کے ہمدرد تھے۔ 21 اپریل 1938ء کو قوم کے اس عظیم خیر خواہ نے وفات پائی۔ اقبال اپنے کلام کی صورت میں آج بھی ہم میں زندہ ہیں۔ یہاں تک کہ آج کا دور اقبال ہی کا دور کہلاتا ہے.علامہ اقبال صرف فلسفی شاعر ہی نہیں بلکہ انسانوں کے استحصال کے بھی خلاف تھے۔ ان کی خواہش تھی کہ انسان رنگ ، نسل اور مذہب کی تمیز کے بغیر ایک دوسرے سے اچھے رویے سے پیش آئیں اور باہمی احترام کی فضا قائم کریں کہ یہی رب کائنات کی منشا ہے۔ پاکستان کی نئی نسل بھی اقبال کی احترامِ آدمیت کی سوچ کو سراہتی ہے۔آپ اسلامی دنیا میں روحانی جمہوریت کا نظام رائج کرنے کے داعی تھے۔ شاعرِ مشرق کی شاعری نے برصغیر کے مسلمانوں کو خوابِ غفلت سے بیدار کرکے نئی منزلوں کا پتہ دیا۔.حکیم الامت شاعر مشرق مفکر پاکستان ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبال کو ہی دیکھ لیں۔ علامہ اقبال کی وفات 1938 میں ہوئی۔ ان کی زندگی میں ہی ان کی مختلف تاریخ پیدائش مختلف ریکارڈز اور خاندانی گواہیوں کی بنیاد پر لکھی جاتی رہی۔ ان کی تاریخ پیدائش 22 فروری، 9 نومبر اور 29 دسمبر لکھی گئی ہے۔ سن پیدائش 1870، 1872، 1875، 1876 اور 1877 لکھا گیا ہے۔ جسٹس جاوید اقبال نے اپنی کتاب زندہ رود کے بیس صفحات اقبال کی تاریخ پیدائش پر بحث کے باب میں لکھے ہیں۔ مختصراً اس میں کچھ یوں بیان کیا گیا ہے۔اقبال نے میونخ یونیورسٹی میں اپنے مقالے میں سن پیدائش 1876لکھا ہے۔ 1931 میں بنوائے گئے پاسپورٹ میں بھی یہی سن لکھا ہے۔ پاکستان کے محکمہ آثار قدیمہ نے اقبال کی لاہور اور سیالکوٹ کی رہائش گاہوں کے کتبوں پر تاریخ پیدائش 1873 لکھی۔ اقبال کی وفات کے بیسویں برس 1958 میں اقبال کا جو یادگاری ٹکٹ پاکستانی محکمہ ڈاک نے جاری کیا اس پر بھی سن پیدائش 1873 درج ہے۔ دس برس بعد 1967 میں محکمہ ڈاک نے ایک نیا یادگاری ٹکٹ جاری کیا جس پر سن پیدائش 1877 چھاپا گیا۔
بزم اقبال نے غالباً 1969 میں جسٹس ایس اے رحمان کی سربراہی میں اقبال کی تاریخ پیدائش کی تحقیق کے لئے کمیٹی بنائی۔ کمیٹی کسی نتیجے پر نہ پہنچی تو 1972 میں حکومت پاکستان نے مرکزی سیکرٹری تعلیم کی سربراہی میں ایک نئی کمیٹی بنا دی۔ 1973 میں حکومت ہندوستان نے اعلان کیا کہ وہ 1973 میں اقبال کا صد سالہ جشن منا رہی ہے۔ اس پر پاکستان میں تشویش کی لہر دوڑ گئی کہ قومی شاعر ہمارا ہے اور جشن کوئی اور منا رہا ہے۔ کمیٹی نے تحقیقات کی رفتار تیز کر دی اور فروری 1974 میں اعلان کیا کہ اقبال کی صحیح تاریخ ولادت 9 نومبر 1877 ہے۔ پاکستان اور ہندوستان میں یہ جشن 1977 میں منایا گیا۔.
شاعر مشرق علامہ اقبال 9 نومبر 1877 کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے اور 21 اپریل 1938 کو دار فانی سے کوچ کر گئے، فلسفیانہ اور مفکرانہ سوچ، دور اندیشی جیسی خصوصیات نے اقبال کی شاعری کو عارفانہ مقام بخشا، دانشوارانہ فکر نے اقبال کی شاعری کو اس طرح نکھارا جس کی نظیر نہیں ملتی۔اقبال کی شاعری نے برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں میں آزادی کی روح پھونکی۔ زبورعجم، ارمغان حجاز، شکوہ، جواب شکوہ اور بال جبریل نے ادب کو ایک نیا دوام عنایت کیا۔ جاوید نامہ بھی اُردو ادب میں اپنی اہمیت آپ رکھتا ہے ۔ ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کا مزار تاریخی بادشاہی مسجد کے سامنے ہےتاھم سیالکوٹ میں علامہ اقبال کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے روزانہ کی بنیاد پر عقیدت مندوں کی بڑی تعداد اقبال منزل کا رخ کرتی ھے
اقبال کی شاعری روایتی انداز سے یکسر مختلف تھی کیونکہ ان کا مقصد بالکل جدا اور یگانہ تھا۔ انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے برصغیر کے مسلمانوں میں نئی روح پھونکی جو تحریکِ آزادی میں نہایت کارگر ثابت ہوئی۔آپ نے تمام عمر مسلمانوں میں بیداری و احساسِ ذمہ داری پیدا کرنے کی کوششیں جاری رکھیں اور 21 اپریل1938 کو اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔.شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ اقبال کے 80 ویں یوم وفات کے موقع پر ملک بھر کی طرح سیالکوٹ میں بھی مختلف تقریبات کا انعقاد کیاجارھا ھے ۔ مختلف مکتبہ فکر کے لوگ نماز فجر کے بعد علامہ اقبا ل کی والدین کی قبور پر دعاخوانی کریں گے بزم اقبال سیالکوٹ کے زیر اہتمام ڈاکٹر علامہ اقبال کے یوم وفات کے سلسلہ میں ا قبال منزل سیالکوٹ میں ایک پروقار تقریب منعقد ہوگی جسکے لیے انتظامات آخری مراحل میں ھیں وطنِ عزیز کے نوجوانوں کو ہمیشہ یہ پیغام دیا جاتا ہے کہ شاعرِ مشرق ڈاکٹر علامہ اقبالؒ کی تعلیمات اور انکے پیغام کو اپنی زندگیوں کے لیے مشعل راہ بنایا جاۓ ۔حکیم الامت علامہ محمد اقبال کے شہر سیالکوٹ کے شہریوں نے اقبال منزل میں دوران گفتگو کہا کہ امت کے اتحاد اور ترقی کیلئے کلام اقبال کی ترویج وقت کی اہم ضرورت ہے۔شاعرِ مشرق ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبال بیسویں صدی کے معروف مفکر، شاعر، مصنف، قانون دان، سیاست دان، مسلم صوفی اور تحریک پاکستان کی اہم ترین شخصیات میں سے ایک تھے۔ علامہ اقبال محض ایک فلسفی شاعر ہی نہیں بلکہ انسانوں کے انسانوں کے ہاتھوں استحصال کے بھی خلاف تھے۔ علامہ اقبال نے اپنے اشعار میں مسلم نوجوان کو ستاروں پر کمند ڈالنے اور قوم کو خانقاہوں سے نکل کر میدان عمل میں اترنے کی ترغیب دی۔ علامہ محمد اقبال نے اپنے اشعار کے ذریعے مسلم امہ کو خواب غفلت سے جاگنے کا پعغام دعا اور فلسفہ خودی کو اجاگر کیا مگر مغربی مفکرین کو یہ ایک آنکھ نہ بھایا۔قبال نے اس دور میں شاعری کو اظہار کا ذریعہ بنایا، جب برصغیر کے مسلمان انگریزوں کی غلامی میں تھے، جب کہ امت مسلمہ کی آنکھیں مغرب کی چمک دمک سے چندھیا چکی تھیں۔ اقبال نے مسلمانوں کو بیدار کرنے کے لئے اپنے اشعار میں مغربی تہذیب پر تنقید کی، تو وہاں کے نقاد نے شاعرمشرق کا پیغام سمجھے بغیر ہی ان کے خلاف محاذ کھول لیا۔ تاریخ پرنظررکھنے والے اقبال کی نوبل پرائز سے محرومی کو بھی اسی تناظر میں دیکھتے ہیں۔ اقبال کے پیغام خودی کو مغرب نے جہاد پر آمادہ کرنے سے تعبیر کیا اور یہی اختلاف اقبال کی بجائے، ان کے ہم عصر رابندر ناتھ ٹیگور کو نوبل انعام ملنے کا جواز ٹھہرا۔ اقبال پر تنقید کرنے والے مغربی دانشور یہ بھی بھول گئے کہ انہوں نے اپنی شاعری میں جا بجا یورپ کے علم وہنر کو سراہا اور مسلمانوں کو ترقی کے اس راستے پر چلنے کی تلقین کی.علامہ اقبال صرف فلسفی شاعر ہی نہیں بلکہ انسانوں کے استحصال کے بھی خلاف تھے۔ ان کی خواہش تھی کہ انسان رنگ ، نسل اور مذہب کی تمیز کے بغیر ایک دوسرے سے اچھے رویے سے پیش آئیں اور باہمی احترام کی فضا قائم کریں کہ یہی رب کائنات کی منشا ہے۔ پاکستان کی نئی نسل بھی اقبال کی احترامِ آدمیت کی سوچ کو سراہتی ہے۔آپ اسلامی دنیا میں روحانی جمہوریت کا نظام رائج کرنے کے داعی تھے۔ شاعرِ مشرق کی شاعری نے برصغیر کے مسلمانوں کو خوابِ غفلت سے بیدار کرکے نئی منزلوں کا پتہ دیا۔ فلسفیانہ اور مفکرانہ سوچ، دور اندیشی جیسی خصوصیات نے اقبال کی شاعری کو عارفانہ مقام بخشا، دانشوارانہ فکر نے اقبال کی شاعری کو اس طرح نکھارا جس کی نظیر نہیں ملتی۔اقبال کی شاعری روایتی انداز سے یکسر مختلف تھی کیونکہ ان کا مقصد بالکل جدا اور یگانہ تھا۔ انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے برصغیر کے مسلمانوں میں نئی روح پھونکی جو تحریکِ آزادی میں نہایت کارگر ثابت ہوئی۔ 1937ء ، جون 21 قائد اعظم کو خط لکھا، 1938ء ،اپریل 20 ، صبح ناشتے میں دلیے کے ساتھ چائے پی – میاں محمد شفیع نے اخبار پڑھ کر سنوایا – حجام سے شیو بنوائی – شام 4.30 بجے بیرن جان والتھائیم ملنے آئے اُن کے ساتھ ڈیڑھ گھنٹے تک بات چیت کرتے رہے – شام کو اپنا پلنگ خوابگاہ سے اُٹھوا کر دالان میں بچھوایا – ایک گھنٹے بعد پلنگ گول کمرے میں لانے کو کہا – وہاں حسبِ عادت منیزہ اُن کے بستر میں گھس کر اُن سے لپٹ گئی – اُس رات معمول سے ہٹ کر زیادہ دیر اُن کے ساتھ رہی – جب اُس کو ہٹنے کے لیے کہا گیا تو وہ نہ ہٹی – اس پر انہوں نے انگریزی میں کہا “اُسے اُس کی حِس آگاہ کر رہی ہے کہ شاید باپ سے یہ آخری ملاقات ہے” – اس کے وہاں سے چلے جانے کے بعد فاطمہ بیگم ،پرنسپل اسلامیہ کالج برائے خواتین نے ملاقات کی – رات تقریباّ 8 بجے چودھری محمد حسین ، سید نذیر نیازی ، سید سلامت اللہ شاہ ، حکیم محمد حسن قرشی اور راجہ حسن اختر آ گئے – ڈاکٹروں کے بورڈ نے اُن کا معائینہ کیا – اُس رات وہ زیادہ ہشاش بشاش نظر آ رہے تھے – 11 بجے رات انہیں نید آ گئی لیکن گھنٹہ بھر سونے کے بعد شانوں میں درد کے باعث جلد بیدار ہوگئے – ڈاکٹروں نے خواب آوار دوا دینے کی کوشش کی تو انہوں نے کہا کہ “دوا میں افیون کے اجزا ہیں اور مَیں بے ہوشی کے عالم میں مرنا نہیں چاہتا” – رات 3 بجے کے قریب اُن کی حالت اچانک پھر خراب ہو گئی – انہوں نے اپنا پلنگ گول کمرے سے واپس خواب گاہ میں رکھوایا، 1938ء ،اپریل 21 ، بروز جمعرات صبح ڈاکٹر عبدالقیوم اور میاں محمد شفیع فجر کی نماز ادا کرنے مسجد گئے ہوئے تھے تو انہیں پھر شدید درد ھوا جس پر انہوں نے “اللہ” کہا اور پھر…5 بجکر 14 منٹ پر … اللہ کو پیارے ہوگئے – 5 بجے شام جاوید منزل سے جنازہ اُٹھایا گیا – اسلامیہ کالج کے گراونڈ میں نمازِ جنازہ ادا کی گئی – سیالکوٹ سے شیخ عطا محمد رات نو بجے کے بعد لاھور پہنچے – پونے دس بجے رات سپردِ خاک کر دئیے گئےآپ نے تمام عمر مسلمانوں میں بیداری و احساسِ ذمہ داری پیدا کرنے کی کوششیں جاری رکھیں اور 21 اپریل1938 کو اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔… انا للہ و انا الیہ راجعون ”
………۔۔شاعر مشرق،حکیم الامت،نباض فطرت،مفکرپاکستان،عاشق رسولؐ حضرت علامہ محمد اقبال کی دورہ جاۓ پیدائش کے موقع پر اقبال ہاوٗس سیالکوٹ میں بزم ِاقبال سیالکوٹ کے صدر ناصر شمیم خان لودھی،جنرل سیکریٹری بزمِ اقبال وانچارج اقبال منزل سید ریاض حسین نقوی سے خصوصی ملاقا ت ھوئیمیرے ھمراہ وفد میں بانی صدر ساوتھ اشیا سپورٹس جنرلسٹ ایسوسی ا یشن اصغر علی مبارک ، پاکستان میں مکس مارشل آرٹس کے چیرمین شہان راجہ خالد ،سید ظہیر علی شاہ مشہد ی،شھب خان ،تنویر بٹ، نثارالحق، اشفاق ملک،غلام فرید ، ارشاد حسین ، عتیق الرحمٰن،محمود نذیر و دیگر شامل تھے اس موقع پر بانی صدر ساوتھ اشیا سپورٹس جنرلسٹ ایسوسی ا یشن اصغر علی مبارک نے کہا کہ حضرت علامہ محمد اقبالؒ عالم اسلام کے ایک عظیم رہنماء تھے جنہوں نے ہر زمانے کی مظلوم و مقہور قوم کو پیغام ِ حریت دیا آپ نے پسے ہوئے طبقات کی نمائندگی کی آپ کی شاعری آفاقی شاعری ہے آپ نے نوجوانوں کو پیغام عمل دیا اور اسلامیانِ ہند میں ایک علیحدہ اسلامی نظریاتی مملکت کے حصول کی تڑپ پیدا کی انہوں نے کہاکہ حضرت علامہ اقبالؒ ایسے نظامِ تعلیم سے نفرت اور بیزاری کا اظہار کرتے ہیں جو دین اور سیاست کو دو الگ شعبہ ہائے حیات قرار دیتا ہے وہ ایک ایسے نظامِ تعلیم کے متمنی ہیں جو نسلِ نو کو آزادی کا علمبردار بنا سکے وہ جذبہ آزادی کے احیاء کے لیئے ایسے نظامِ تعلیم کو ضروری سمجھتے ہیں جو نوجوان نسل میں جذبہ خودی کو اجاگر کر سکے انہوں نے مذید کہا کہ حضرت علامہ محمد اقبالؒ اپنے مجوزہ نظامِ تعلیم کے ذریعے وسیع تر انسانی اتحاد کے قائل ہیں وہ محدود نسلی، سیاسی،طبقاتی اور جغرافیائی تعصبات کو مٹا کر عالمی امن، انسانی رواداری اور عدل و انصاف کو عام کرنا چاہتے ہیں حضرت علامہ محمد اقبالؒ کے پیغام کو عام کر کے معاشرہ میں امن و محبت اور اخوت و مساوات کا ماحول قائم کیا جا سکتا ہے۔ اصغر علی مبارک نے کہا کہ سکول اور کالج کی سطح پر اقبالیات کو ایک لازمی مضمون کے طور پر پڑھایا جانے کی تحریک شروع کی جاۓ ۔کیوں کہ قوم نے ستر سالوں میں اغیار کے تیار کیے گئے تعلیمی نظام کو دیکھ لیا اب اپنے اسلاف کی فکر پر تعلیم کی بنیادوں کو کھڑا کیا جا نا وقت کی ضرورت ھے نئی نسل کو ایک سازش کے تحت حکیم الامت کی فکر سے دور رکھا گیا ۔ یہ اسی جرم کا نتیجہ ہے کہ تعلیمی اداروں کی تعداد میں اضافہ کے باوجود بھی کوئی علامہ اقبال ، قائداعظم، جیسا لیڈر پیدا نہیں ہوسکا ،علاوہ ازیں علامہ اقبال کے بارے نوجوان نسل کی آگاہی کے مختصر تعا رف سوالا وجواب پیش خدمت ھے
؛ علامہ اقبال کب پیدا ہوئے؟
جواب 9نومبر 1877
علامہ اقبال کب فوت ہوئے تاریخ؟
جواب 21 اپریل 1938
علامہ کے دو یورپی اساتزہ کے نام لکھیے؟
جواب ؛اے بی براون 2سر ٹامس آرنلڈ
علامہ اقبال کی پہلی بیوی کا نام کیا تھا؟
جوا ب ؛کریم بی بی
جاوید نامہ کا سال اشاعت کیا ہے؟
جواب 1932
بانگ درا کب شائع ہوئی؟
جواب 1924
بانگ درا کی پہلی نظم کا عنوان کیا ہے؟
جواب ہمالہ
علامہ اقبال کس ہندوستانی ریاست میں بغرض علاج گئے تھے؟
جواب دہلی
اقبال کس ریاست کے جج بننا چاہتے تھے؟
جواب حیدرآباد
اقبال کس ریاست کے مشیر تھے؟
جواب بہاولپور
کس مضمون میں ماسٹر کیا؟
جواب فلسفہ
علم الاقتصاد کب شائع ہوئی؟
جواب 1903
زبور عجم کب شائع ہوئی؟
جواب 1927
لیجیسلیٹو کونسل کی ممبر کب بنے؟
جواب 1926
ضرب کلیم کب شائع ہوئی؟
جواب 1936
اسرار خودی کب شائع ہوئی؟
جواب 1915
پیام مشرق کب شائع ہوئی کس زبان میں ہے؟
جواب 1922 فارسی
رموز بے خودی کب شائع ہوئی؟
جواب 1918
بال جبریل کب شائع ہوئی کس زبان میں ہے؟
جواب 1935 اردو
ارمغان حجاز کب شائع ہوئی؟
جواب 1938
علامہ اقبال کے والد کا نام کیا تھا؟
جواب شیخ نور محمد
علامہ اقبال نے کس ہونیورسٹی سے phd کی ڈگری لی؟
جواب میونخ یونیورسٹی
علامہ اقبال فلسطین کس وجہ سے گئے تھے؟
جواب موتمر عالم اسلامی کے اجلاس میں شرکت کے لیے
اقبال کے خطبات کس نام سے شائع ہوئے؟
جواب ؛
reconstruction of religious thoughts in islam
زندہ رود کس کی کتاب ہے؟
جواب جاوید اقبال
نظم طلوع اسلام کس مجموعے میں شامل ہے؟
جواب بانگ درا
اقبال نے پیام مشرق کو کس کے نام کیا؟
جواب امیر امان اللہ فرمانروا افغانستان
اقبال کے دادا کا نام کیا تھا؟
جواب شیخ محمد رفیق
اقبال کی والدہ کا نام کیا تھا؟
جواب امام بی بی
اقبال کی آخری نظم کون سی تھی؟
جواب حضرت انسان
ان پڑھ فلسفی کسے کہا جاتا تھا؟
جواب شیخ نور محمد
اقبال اور فیض کے مشترک استاد کون تھے؟
جواب میر حسن
شاعری میں اقبال کے استاد کون تھے؟
جواب مرزا داغ دہلوی
اقبال کو سر عبدالقادرنے کس شاعر کا دوسرا جنم قرار دیا؟
جواب غالب
اقبال لندن کتنی مرتبہ تشریف لے گئے تھے؟
جواب 2
اقبال نے ہسپانیہ میں کون سی طویل نظم لکھی تھی؟
جواب مسجد قرطبہ
اقبال کے بڑے بیٹے کا نام کیا تھا؟
جواب آفتاب اقبال
یورپ جانے سے پہلے کس بزرگ کے دربار پر حاضری دی؟
جواب نظام الدین اولیا
کس بزرگ شاعر کو اقبال نے تنقید کا نشانہ بنایا؟
جواب حافظ شیرازی
اقبال نے کس کو مجذوب فرنگی کہا؟
جواب نطشے
بانگ درا میں اقبال نے کس صحابی کا زکرکیا؟
جواب حضرت ابو بکر صدیق
اقبال نے کس مغل بادشاہ کو اسلامی ترکش کا آخری تیر کہا؟
جواب بہادر شاہ ظفر
اقبال کامرشد کون تھا؟
جواب مولانا رومی
,اقبال نے کس کتاب کو ڈیوئن کامیڈی کہا؟
جواب جاوید نامہ
اقبال کو حکیم حیات کا لقب کس نے دیا؟
جواب گوئٹے
مثنوی مسافر کس سفر کی یادگار ہے؟
جواب افغانستان
اقبال نے کس بادشاہ کی اقتدا میں نماز پڑھی؟
جواب امیر امان اللہ خان
نظم طلوع اسلام کس اسلامی ملک کی جنگی فتوحات کے پس منظر میں لکھی گئی؟
جواب ترک عثمانیہ
مسجد قرطبہ کس دریا کے کنارے واقع ہے؟
جواب دریائے کبیر
اقبال نے مسجد قرطبہ میں کون سی نظم لکھی؟
جواب دعا
علامہ اقبالؓ کا خاندان کب کشمیر سے ہجرت کر کے پنجاب کے شہر سیالکوٹ میں آباد ہوا؟
ج۔اٹھارویں صدی کے آخر یا انیسوی صدی کے آغاز میں۔
س۔علامہ اقبال کے والد کے چھوٹے بھائی کا نام بتائیے جو اپنے والد کے بارہویں بیٹے تھے؟
ج۔غلام قادر
س۔علامہ اقبالؓ کے آبائو اجداد جب کشمیر سے ہجرت کر کے سیالکوٹ آئے تو پہلے پہل کس محلے میں آباد ہوئے؟
ج۔محلہ کھٹیکاں
س۔علامہ اقبال ؓ کی والدہ کا نام بتائیں؟
ج۔امام بی بی
س۔علامہ اقبال کا نام محمد اقبال ؓ کس نے رکھا؟
ج۔آپؓ کی والدہ محترمہ نے۔
س۔علامہ اقبال کی تعلیم بتا دیجئے؟
ج۔ایم ۔اے ،پی ایچ ڈی ،بیر سڑ ایٹ لا
س .علامہ اقبال کے والد شیخ نور محمد اور والدہ امام بی بی کی قبریں کہاں ھیں ؟
ج ؛علامہ اقبال کے والد شیخ نور محمد اور والدہ امام بی بی کی قبریں ایک ہزار سال قدیم قبرستان امام صاحب سیالکوٹ میں واقع ھیں …….
س ؛بزم اقبال کے سر پرست اعلیٰ نام کیا ھے ؟
ج ؛بزم اقبال کے سر پرست اعلیٰ علامہ اقبال کے پوتےمنیب اقبال ھیں ……..