زندگی میں اتنا کچھ لکھا ہے کہ اب لکھنے سے دل بھر گیا ہے کوئی ذرا سا بہانہ بھی ملے تو کالم موخر کر دیتا ہوں۔ میرا چھوٹا پوتا جب اسکول سے آیا اور اس نے مجھے ہر روز کی طرح کچھ لکھتا دیکھا تو سخت غصے میں بولا کہ بابا آپ کو کبھی فارغ بھی تو دیکھیں جب بھی دیکھتا ہوں آپ کچھ لکھ رہے ہوتے ہیں، ہم اسکول سے تنگ آ کر گھر آتے ہیں تو گھر میں بھی آپ کو لکھتا ہوا پاتے ہیں چنانچہ سوال یہ ہے کہ ہم کہاں جائیں نہ گھر کے نہ بار کے۔ ہر طرف پڑھنا اور لکھنا۔ آخر یہ مسلسل لکھنے پڑھنے سے آپ کو کیا ملتا ہے اب تو آپ کی کوئی مستقل نوکری بھی نہیں ہے۔ بچے کی سچی بات کے جواب میں مجھے ایک شعر یاد آیا جو میں بچے کو تو نہیں آپ کو سناتا ہوں کیونکہ بچہ اس شعر کو فی الحال سمجھ نہیں پائے گا۔ ذرا بڑا ہو لے تو سب کچھ سمجھ لے گا۔ وہ شعر یہ ہے کہ
مسافران شب غم‘ اسیر وار ہوئے
جو رہنما تھے بکے اور شہر یار ہوئے
یہ ایک بے حد حساس خاتون کا شعر ہے پروین شاکر کا جس نے دوسروں کا حال احوال بیان کیا ہے وہ خود شاید مسافر شب غم ہو تو ہو اور تختہ دار پہنچی ہو یا نہیں لیکن رہنما ہر گز نہ تھی اور اس نے دوسرے رہنماؤں کی طرح اپنے آپ کو اقتدار کے بازار میں پیش نہ کیا اور خوبصورت زندگی شعر و شاعری میں گزار دی۔ اس کو تو نہیں اس کی شعر و شاعری کو ضرور یاد رکھا جائے گا۔
ایک بات کئی بار میرے دماغ میں سما گئی اور پھر وہ کہیں مر کھپ گئی کہ مردوں کی طرح خواتین کو بھی سیاست اور شاعری کے میدان میں آگے بڑھنا چاہیے اور مردوں کا مقابلہ کرنا چاہیے کیونکہ اکثر خواتین مردوں سے زیادہ ذہین ہوتی ہیں اور سیاست میں آ کر وہ اس اجاڑ میدان کو نئی زندگی دے سکتی ہیں۔ مرد سیاست میں اس لیے کامیاب رہتے ہیں کہ وہبے باک ہوتے ہیں اور اپنے آپ کو کسی بھی حالت میں بلاتکلف پیش کر سکتے ہیں جب کہ عورتیں تو کسی جلسہ گاہ تک جانے میں بھی حفاظتی دستے کی محتاج ہوتی ہیں اور جلسہ جلوس میں اپنی حفاظت کی فکر میں مبتلا رہتی ہیں۔
میں نے زندگی میں ایسے بے شمار جلسے جلوس دیکھے ہیں جو خواتین نے برپا کیے تھے یا پھر ان میں بھرپور حصہ لیا تھا اور ان کی وجہ سے بھی کسی مرد کی سیاست میں چمک پیدا ہوئی اور اسے نئی زندگی ملی۔ جناب بھٹو کی جلسہ جلوس کی سیاست جب سست پڑنے لگی تو بھٹو خاندان کی خواتین نے اس کو سنبھال لیا۔ میں نے کئی جلسوں میں بیگم بھٹو کو مردانہ وار حصہ لیتے ہوئے دیکھا اور انھوں نے ذوالفقار علی بھٹو کی کمی پوری کر دی۔
بے شک وہ تقریر میں تو کمزور تھیں لیکن ان کی بے تکلفانہ تقریر اور سیاسی نقل و حرکت ان کی خاتون ہونے پر پردہ ڈال دیتی تھیں اور وہ ایک کامیاب سیاستدان بن کر جلسہ جلوس کو کنٹرول کرتی تھیں۔ میں نے لاہور میں دونوں ماں بیٹی کے کئی جلسے دیکھے جن میں ان کی پارٹی کا کوئی مرد موجود نہیں تھا لیکن انھوں نے یہ کمی محسوس نہ ہونے دی اور وج گج کر جلسہ جلوس کو کامیاب کرایا۔ یہ ان کی ہمت تھی کہ بھٹو صاحب اندر رہے یا باہر ان خواتین نے ان کی کمی محسوس نہ ہونے دی بلکہ نصرت بھٹو تو بعض اوقات زیادہ کامیاب سیاستدان ثابت ہوئیں۔
لاہور میں بھٹو صاحب تو بہت ہی مقبول تھے لیکن اس پرانی وضع اور کلچر کے شہر میں خواتین کی پذیرائی بظاہر مشکل دکھائی دیتی تھی لیکن لاہوریوں نے بھٹو کی کمی محسوس کی اور اس کے اہل خانہ کو ان کی جگہ پُر کرنے میں ان کی مدد کی۔ ہم اخباری رپورٹروں نے بھٹو صاحب پر ہمیشہ زیادہ توجہ دی اور ان کو سیاسی دنیا کا ہیرو بنایا لیکن بڑے ہی مشکل حالات میں ان کی خواتین نے بھٹو صاحب سے بڑھ کر سیاسی دنیا کو تہہ و بالا کیا لیکن وہ اپنا کریڈٹ ظاہر ہے کہ بھٹو صاحب کے سپرد کر دیتی تھیں اور وہ سیاست میں کسی ذاتی مقصد کے لیے نہیں بلکہ ان کے خیال میں کسی قومی مقصد کے لیے سیاست کرتی تھیں اور یہ مقصد اپنی جگہ بنانے کے لیے بھٹو صاحب کا مرہون منت تھا۔
ہمارے ہاں سیاست میں خواتین شاذونادر ہی دکھائی دیتی ہیں صرف ایک محترمہ مادر ملت تھیں جو ایک خاتون ہونے کے باوجود سیاست میں کسی مرد سے پیچھے نہیں تھیں بلکہ ان کی قیادت میں ایسے ایسے بڑے لیڈر دیکھے جو عام زندگی میں عورت کی قدر کرنے پر تیار نہیں رہتے تھے اور کسی عورت کو وہ زیادہ سے زیادہ اپنا کارکن سمجھ لیتے تھے اور اس کے لیے یہی اعزاز کافی سمجھا جاتا تھا۔ وہ تو بھٹو صاحب کی بیٹی بے نظیر نے دنیا بدلی اور سیاست میں عورت کو ایک قائدانہ مقام دیا جو ان کے بعد ختم ہو گیا یعنی یہ ایک مختصر سا وقفہ تھا جو گرج کر آیا لیکن وہ خاموشی سے گزر گیا ورنہ میں نے نوابزادہ نصراللہ خان جیسے پرانے مزاج کے لیڈر کو مادر ملت کی قیادت میں سیاست کرتے دیکھے اور بڑی بڑی جلسہ گاہوں میں انھوں نے خواتین لیڈروں کی تعریفیں کیں اور مادر ملت سے بیگم بھٹو تک کبھی تکلف نہ کیا اور ان سب کی تعریف میں کوئی کنجوسی نہ کی، وجہ وہ یہ بیان کرتے تھے کہ یہ قومی مفاد اور قومی وقار کا تقاضا تھا کہ قوم کو زندہ رکھا جائے اور اسے مایوس نہ ہونے دیا جائے کیونکہ اس دور میں مرد حضرات کے پاس جاندار قیادت نہیں تھی اور سیاست رفتہ رفتہ خواتین کی تحویل میں جا رہی تھی بلکہ چلی گئی تھی۔
مادر ملت کی تو بات جانے دیں بیگم نصرت بھٹو تک نے عوام کو قابو کر لیا اور قوم کو ایک پلیٹ فارم پر جمع رکھا۔ عورتوں کی اس قیادت نے بڑے بڑے سیاستدان حضرات کو شکست دی اور ان کی جگہ خواتین کو قوم کی قیادت کے قابل بنا دیا۔ دراصل بات ہمیشہ یہ رہی کہ ملکی مفاد کے تقاضے بدلتے رہے اور ان کے مطابق قیادت بھی کروٹیں لیتی رہی۔ مرد اور خواتین دونوں نے قوم کی رہنمائی کی اور اسے زندہ رکھا۔
پاکستان کی قومی سیاست میں بلاشبہ مرد ہی بھاری رہے لیکن ضرورت کے وقت مردوں کا خلا خواتین نے پر کیا اور قوم کو زندہ رکھا۔ جمہوریت سے دور نہ ہونے دیا اور بالآخر جوں توں کر کے جمہوریت میں کامیاب رہیں اور حکمرانی کرتی رہیں۔