counter easy hit

بڑے نصیب کی بات ہے

A great fortune

A great fortune

کتنے قابل رشک اور خوش قسمت ہوتے ہیں وہ لوگ جن کو اللہ تعالی کے گھرخانہ کعبہ اور اپنے حبیب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ اقدس پر حاضری کا شرف بخشا جاتا ہے، یقیناًیہ بڑے کرم کے ہیں فیصلے یہ بڑے نصیب کی بات ہے۔ یہ سعادت ہر کسی کے حصے میں نہیں آتی، اللہ تعالی اپنے نیک بندوں کی خلوص نیت کا اندازہ لگالیتا ہے پھر نہ جانے اسے اپنے ان نیک بندوں کی کونسی ادا پسند آجاتی ہے کہ انہیں شرف میزبانی سے بخشتا ہے وگرنہ آپ نے اپنے اردگرد کئی ایسے لوگوں کو دیکھا ہوگا کہ وہ حج و عمرہ کے وسائل اور اسباب ہونے کے باوجود اپنی سستی یا مصروفیات ہائے زمانہ کے باعث ایسے الجھ جاتے ہیں کہ اس طرف انہیں رجوع کرنے کا خیال ہی نہیں آتا، حج یا عمرہ کی سعادت کے لئے بنیادی شرط رزق حلال ہے ویسے بھی اگر بندے کو اس کے معاملات اور حالات اجازت دیں تو جوانی ہی میں حج یا عمرہ کرنا چاہیے کیونکہ آج کل حج و عمرہ کے موقع پر لاکھوں فرزندان توحید جمع ہوتے ہیں، اس بھیڑ میں ایک تندرست وتوانا شخص ہی حج و عمرہ کے مناسک کا حصہ ادا کرسکتا ہے، عرب ممالک میں یہ رواج ہے کہ وہاں کے نوجوان مرد اور عورتیں شادی کے بندھن میں بندھنے سے قبل یہ فریضہ ادا کرتے ہیں جب کہ ہمارے ماحول و معاشرے میں ان ارکانِ اسلام کی طرف اس وقت توجہ دی جاتی ہے جب عمر کے آخری حصہ میں کرنے کو کچھ اور نہیں رہتا۔
گذشتہ دنوں ایک واقعہ سوشل میڈیا پر میری نظروں سے گزرا ۔ ایک شخص جس پر اللہ تعالیٰ نے اپنا فضل و کرم اور عنایات کی بارش کر رکھی تھی اور وہ چند ہی سالوں میں کئی فیکٹریوں اور جائید ادوں کا مالک بن گیا اور اتنا مصروف کہ اسے یہ بھی معلوم نہ تھا کہ اس کے گھر کے ارد گرد کون لوگ رہتے ہیں ۔ ایک دن صج جب وہ اپنی گاڑی میں اپنے گھر کے مین گیڈ سے نکلا تو دیکھا کہ ساتھ والے گھر کے باہر کرسیاں لگائی جا رہی ہیں ۔ اس نے اپنے ڈرائیور سے کہا کہ معلوم کرو یہاں کیا ہوا ہے اور کیوں کرسیاں لگائی جا رہی ہیں۔ ڈرائیور نے واپس آ کر بتا یا کہ ساتھ والے گھر میں جو بزرگ رہتے ہیں وہ کل رات بھوک اور فاقوں سے مر گئے ہیں۔ جس پر اس شخص نے ندامت اور پشمانی کے ڈوب مرنے کے صرف اتنا کہنے پر اکتفا کیا کہ” انا للہ وانا علیہ راجعون”۔غرض ہم معاشرتی طور پر اتنے گر چکے ہیں کہ انسانیت جس کے مطلق دنیا کے تمام مذاہب نے زور دیا ہے کہ وہ اولین ہے۔قرآن کریم میں ارشاد ربانی ہے جس کا ترجمہ کچھ یوں ہے کہ” جس نے ایک انسان کو بچایا گویا اس نے ساری انسانیت کو بچایا”۔ ہم آج مادہ پرستی میں اس حد تک گر چکے ہیں کہ ہمیں ہمارے حقوق و فرائض تک کا ادرا ک نہ ہے ہم اپنے گھروں کو تو حرام حلال میں تمیز کیئے بغیر بھر رہے ہیں لیکن یہ نہیں جانتے کہ ہمارے ہمسائے میں کوئی کھانا کھا کر سویا ہے یا بھوکے پیٹ ہی چراغ گل کر گیا ہے۔ہم یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ ہمارے خلیفہ دوئم حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا تھا کہ اگر دریائے فرات کے کنارے ایک کتا بھی پیاسا مر گیا تو اس کی بابت بھی ان سے پوچھ ہو گی تو کیا ہم سے نہیں ہوگی؟
اس کالم کے لکھنے کا محرک ان لوگوں کو خراج عقیدت پیش کرنا ہے کہ جہنوں نے انسانیت کی خدمت کو اپنا شعار بنایا ہے۔اور وہ دین اور دنیا دونوں کو ساتھ لے کر چل رہے ہیں۔چند دن پیشتر فورس بیٹریزپرائیویٹ لمیٹیڈ کی طرف سے ملازمین کوہر سال عمرے پر بھجوانے کے حوالے سے قرعہ اندازی کی گئی جس میں مجموعی طور پر چارخوش نصیب ورکر تنویر احمد،فیصل آزاد، لیاقت اور صنوبر عمرے کی سعادت حاصل کرنے کے لیے حقدار قرارپائے۔جنہیں کمپنی کے چیف ایگزیکٹو سیدعمران محمود نے مبارکباد دی اور اس امید کا اظہار کیا کہ ہر سال کمپنی کی طرف سے یہ قرعہ اندازی کی جائے گی تاکہ وہ ملازمین جوسچے عاشق رسول ہیں اور خانہ کعبہ کادیدار کرنے کی خواہش رکھتے ہیں ان کے نیک مقاصد کو پورا کیا جاسکے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ اللہ پاک کی رحمت اور نبی پاکﷺ کا فیضان ہے کہ ہماری کمپنی حاسدوں کے شر کے باوجود دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کر رہی ہے۔ ہم ہر سال تین ملازمین کو بذریعہ قرعہ اندازی عمرے پر بھجوائیں گے جسکے تمام تر اخراجات ہماری کمپنی ادا کریگی۔
میں بحثیت کالم نویس سید عمران محمودسے بہت اچھی طرح معترف ہوں اور ان کے حسن اخلاق، شرافت ، ملنساری اور غریب پروری کا زبردست مداح ہوں۔ جب بھی ان سے ملا انہیں اس ملک کے غریب عوام کو روزگا ر دینے کے حوالے سے متفکر پایا۔ اور اس بات کا بھی شاہد ہوں کہ وہ اس ملک میں بے روزگاری کو کم کرنے کے لیے انڈسڑیل گروتھ پر زور دیتے ہیں۔ان کی قائد انہ صلاحیتوں سے کون واقف نہیں کہ جنہوں نے بہت ہی تھوڑے وقت میں توانائی کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے آٹوموٹیو بیٹریز کا پلانٹ انڈسٹریل اسٹیٹ روات میں نہ صرف لگایا بلکہ کامیابی سے چلایا ہے جو اس ملک کی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے میں دن دگنی رات چوگنی ترقی کر رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ رفاعی کام بھی ان کی لیڈر شپ کا ایک اہم جزو ہیں۔عمرے پر جانے والے خوش نصیب یقیناًعمرے کے دوران خانہ کعبہ اور روزہ رسولْ ﷺ پر اپنے ساتھ ساتھ اپنے محسنوں کے لیے بھی ضرور دعا کریں گے کہ جن کے طفیل اللہ پاک نے انہیں یہ عظیم سعادت نصیب کی۔
ہمارے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ایک حج کیا، کیا ہی اچھا ہوکہ ہم مسلمان حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس سنت پر عمل کرتے ہوئے ہر سال بلاناغہ حج و عمرہ کرنے کی بجائے یہ وسائل اپنے قرب وجوار میں کسی غریب کی مدد میں صرف کریں۔ اس تجویز کا مقصدکسی مسلمان بھائی کی حوصلہ شکنی کرنا نہیں لیکن کبھی کبھار ویسے ہی یہ خیال ابھرتا ہے کہ اپنے قریبی اعزاء واقرباء اور گاؤں محلے ہی کے بے بس اور غریب لوگوں کو ان کے حال میں چھوڑ کر حج و عمرہ کئے جانا مذہبی اور اخلاقی کسی بھی لحاظ سے قابل ستائش عمل نہیںِ اگر آپ کا ضمیر زندہ ہے تو وہ قدم قدم پہ آپ کو جھنجھوڑے گا۔ پھر حج و عمرہ کی سعادت حاصل کرنے کے بعد اگر آپ کی زندگی میں کوئی مثبت تبدیلی آئے تو یہ سمجھ لیجیے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی سعی قبول کی ہے۔ کیوں کہ جن لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے گھر اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ کی زیارت کرتے ہوئے ہاتھ دعا کیلئے اٹھائے ہیں وہ آنکھیں اور ہاتھ آئندہ کسی قسم کا غلط کام کرنے سے پہلے کئی بار سوچیں گے۔ ہم نے اپنے معاشرے میں کئی باغی اور سرکش لوگوں کو دیکھا ہے جن کی زندگی کی دلچسپیاں اور مشاغل اور تھے مگر جب سے حج یا عمرہ کی سعادت سے بہرہ مند ہوتے ہیں ایک خوشگوار تبدیلی ان کے ظاہر اور باطن میں آگئی ہے۔ حج و عمرے کا مقصد بھی یہی ہونا چاہئے کہ بندہ حقیقی معنوں میں توبہ تائب کرکے باقی زندگی اس کے احکامات کی پیروی میں بسر کرے۔