ڈاکٹر بابر اعوان اور وزیراعظم عمران کی ملاقات ہوئی۔ ڈاکٹر بابر اعوان ایک جنوئن دانشور اور سیاسی سکالر آدمی ہیں۔ وہ علمی ادبی ذوق شوق رکھتے ہیں۔ انہوں نے عمران خان سے ملاقات میں نیازی قبیلے اور اس کے اہم لوگوں کا ذکر کیا۔
عالم دین مولانا کوثر نیازی شاعری کے خان اعظم منیر نیازی جسے ڈاکٹر اجمل نیازی اپنے قبیلے کا سردار کہتے ہیں ۔ڈاکٹر بابر اعوان نے مجاہد ملت عبدالستار خان نیازی کے ساتھ میرا نام بھی لے لیا۔جس پر عمران خان نے کہا کہ میں کبھی ڈاکٹر اجمل نیازی سے ملوں گا۔ ان کے بقول منیر نیازی کی مثال پوری ادبی تاریخ میں نہیں ہے۔ غالب اور اقبال کے ساتھ موازنے کا کوئی جواز منیر نیازی کے حوالے سے نہیں ہے۔ ان کا ایک شعر ہے جو میرے خیال میں ان کے اپنے بارے میں ہے۔
کل دیکھا اک آدمی اٹا سفر کی دھول میں
گم تھا اپنے آپ میں جیسے خوشبو پھول میں
یہ شعر اپنے زمانے کے کسی بڑے صوفی شاعر کے بارے میں کہا جا سکتا ہے۔ حکمرانوں میں عمران خان کا نام ذہن میں آیا اور سکالر سیاستدانوںمیں ڈاکٹر بابر اعوان کے بارے میں خیال کیا جا سکتا ہے۔ عمران خاں کا تعلق نیازی قبیلے سے ہے۔ جبکہ وہ کبھی اپنے نام کے ساتھ نیازی نہیں لکھتے۔ ان کے مخالفین ان کے لیے نیازی قبیلے کا ذکر ہمیشہ کرتے ہیں۔
دو ایک روز پہلے ڈاکٹر بابر اعوان کے ساتھ عمران خان نے ملاقات کی۔ وہاں ڈاکٹر بابر اعوان نے چار نیازیوں کا ذکر کیا۔ ان میں صرف میں ہی زندہ ہوں۔ ڈاکٹر بابر اعوان پہلے ہی عمران خان کا ذکر کر چکے ہیں۔ وہ میانوالی کے نیازیوں کے لیے ایک فخر ہے۔ بڑی دیر بعد اس نامور قبیلے کے کسی عظیم المرتبت شخص کا نام نہ صرف نیازی قبیلے بلکہ پوری قوم کے لیے افتخار کا باعث بنا ہے۔
ڈاکٹر بابر اعوان عمران خان کے آس پاس ہیں۔ وہ ان کے بہت مخلص اور بہت اچھے دوست ہیں۔ عمران خاں نے اپنے لوگوں کی شان کو عالیشان بنا دیا ہے۔ اللہ انہیں پاکستان کی ایک بے مثال قوم کو ایک بے شمار قوم بنانے کی توفیق دے اور ہمت دے ، مجھے اللہ سے یقین ہے کہ پاکستان کا نام عمران خان کی قیادت اور حکومت میں بلند ہو گا بلکہ سربلند ہو گا۔ قائد اعظم بھٹوصاحب اور عمران خان کی قیادت قربانی کی ایک ایسی تاریخ ہو گی جو ہمیشہ یاد رہے گی۔
وزیراعظم عمران خان سے گزارش ہے کہ وہ ڈاکٹر بابر اعوان سے مختلف موضوعات اور معاملات میں ضرور مشاورت کیا کریں۔ میرے لیے تو وہ بہت قابلِ احترام اور محسن شخصیت ہیں۔ وہ دوستوں کے لیے اپنے طور پر بہت کچھ کرتے ہیں۔
قومی موقعوں پر قومی جذبے کا اظہار بڑا ضروری ہے۔ یوم تکبیر پورے پاکستان کا ہے۔ میں نے پہلے بھی ایک کالم میں لکھا تھا کہ یوم تکبیر سرکاری سطح پر منانا چاہئے۔ بھارت یہ دن نہیں مناتا۔ بھارت اور پاکستان میں کچھ تو فرق ہو۔ میں نے لکھا تھا کہ سب جماعتوں کا ایک سانجھا اجتماع ہو۔ اس اجلاس کی صدارت کوئی نہ کرے اگر کوئی صدر ہو تو عمران خان صدر ہو۔
28 مئی کو یوم تکبیر کس نے کہا تھا غالباً یہ ساہیوال کے قریب قبولہ کے رہنے والے ایک عظیم شخص تھے جو غالباً یونیورسٹی اوینٹل کالج لاہور میں میرے دوست قاضی صاحب کے والد تھے۔ انہیں آج کسی نے یاد نہ کیا۔ لوگوں کو ان کا نام بھی معلوم نہیں۔ ان کو کسی تقریب میں بلانا چاہئے تھا۔ انہوں نے ایٹم بم نہ بنایا مگر اس دن کا نام تو رکھا جو ایٹم بم کے دھماکے کا دن تھا۔ یہ ایٹم بم سے کم اہم نہیں۔
یوم تکبیر کیسا بڑا نام ہے۔ بامعنی اور سرخرو۔ آج کسی انسان نے نعرۂ تکبیر نہیں لگایا۔ یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ یہ دن مسلم لیگ ن کا دن ہے۔ یہ ہر جماعت بلکہ ہر فرد کا دن ہے۔ وسیع تر اتحاد کا اظہار ایسے دنوں پر ہونا چاہئے۔
یوم تکبیر پر مریم نواز نے بھی تقریر کی اور عمران خان پر بلاجواز تنقید کی۔ وہ یہ نہ کرتیں تو اچھا رہتا۔ قومی دنوں پر تو باہمی اختلافات کو نظرانداز کردینا چاہئے۔ میرے خیال میں 28 مئی ایک قومی دن ہونا چاہئے۔ عمران خان وزیراعظم کے طور پر ہر قومی دن کی اہمیت کو جانتے ہیں۔ 28 مئی کو ایٹمی دھماکے ہوئے تھے۔ نواز شریف نے بہت مجبور ہو کے یہ قومی فیصلہ کیا تھا۔ مرشد و محبوب بہادر اور غیور شخصیت اور صحافی مجید نظامی نے وزیر اعظم نواز شریف سے کہا تھا ’’دھماکے کرو ورنہ قوم تمہارا دھماکہ کر دے گی‘‘ بدقسمتی سے عمران خان کے دور میں مجید نظامی نہیں ہیں مگر وہ ہمیشہ زندہ رہیں گے ان کا نام حوصلوں اور ولولوں کی ’’نوید بنا رہے گا‘‘ عمران خان نوائے وقت سے رابطہ رکھیں ۔ رمیزہ نظامی نوائے وقت کو مجید نظامی کے ارادوں کی طرح زندہ رکھنے کی خواہش رکھتی ہیں اور بھرپور کوشش کر رہی ہیں۔ عمران خان رمیزہ نظامی سے ملاقات کریں۔
میری گزارش عمران خان سے ہے کہ وہ ہر سال یہ دن منائیں۔ ورنہ یہ دن لوگوں کو بھول جائے گا۔ یوم تکبیر لوگوں کو بھول گیا تو پھر ہم نعرۂ تکبیر کس طرح لگائیں گے؟ مجھے تو خوف ہے اور خطرہ ہے کہ لوگ یہ دن بھول جائیں گے۔ وہ کہیں 6 ستمبر نہ بھول جائیں۔ وہ 16 دسمبر تو بھول گئے ہیں۔ کئی لوگوں کو خصوصاً نئی نسل کے لوگوں کو تو بھول گیا ہے کہ بنگلہ دیش کبھی مشرقی پاکستان تھا۔