ایک بادشاہ نے اپنے ایک وزیر کو اس کی کسی سنگین غلطی پر سزا دینا چاہی اور کہا کہ یا تم 100 کچے پیاز ایک ہی نشست میں کھا لو اور یا پھر دربار میں سرعام 100 جوتے کھا لو۔وزیر نے سوچا کہ سب کے سامنے 100 جوتے کھانے سے تو بہت بے عزتی ہو گی اس لئے 100 پیاز کھا لیتا ہوں۔جب اسے پیاز کھانے کو مہیا کئے گئے تو چند پیاز کھانے کے بعد اس کی حالت بگڑنے لگی۔اب وہ بولا مجھ سے مزید پیاز نہیں کھائے جاتے، آپ مجھے جوتے لگا لو۔دو چار جوتے پڑے تو ہوش ٹھکانے آگئے،اب وہ بولا کہ مجھے جوتے مت مارو، میں پیاز کھاؤں گا۔کرتے کرتے کرتے، وہ جوتے بھی کھاتا گیا اور پیاز بھی۔ آخر پر جب 100 پیاز کا عدد پورا ہوا تو وہ 100 جوتے بھی کھا چکا تھا۔ یہاں تک تو تھا ایک لطیفہ مگر حقیقت یہ ہے کہ ہم ایک انتہا درجے کی احسان فراموش قوم ہیں۔ ہم نے اپنے مفاد کی خاطر ہر اس شخص کو اپنا رہنما تسلیم کیا، جو ہمیں اپنے دور حکومت میں 100 پیاز بھی کھلائے اور ساتھ میں 100 جوتے بھی لگائے۔ دراصل ہم قیادت کی اہمیت ہی نہیں جانتے۔ بقول حکیم الامت علامہ محمد اقبال:مکر کی چالوں سے بازی لے گیا سرمایہ دارانتہائے سادگی سے کھا گیا مزدور ماتمثل مشہور ہے کہ جس قوم میں پھوٹ ڈالنی ہو اس کے لیڈرز کو متنازعہ بنا دو۔ یہی حالت ہم پاکستانیوں کی بھی ہے۔ ہم میڈیاوار سے متاثر ہو کر انتہائی بیوقوف بنتے ہوئے اپنے نبض شناسوں اور حقیقی رہنماؤں کو اپنا قاتل سمجھ کر انہیں گالیاں دینے لگتے ہیں اور ہر الیکشن میں انہی لٹیرے حکمرانوں کو ووٹ دیتے ہیں، جو ہمیں 100 پیاز بھی کھلا چکے ہوں اور 100 جوتے بھی لگا چکے ہوں۔حالانکہ ہمیں چاہیئے کہ ہم اپنے حقیقی رہنماؤں کو پہچانیں، جو واقعی وطن عزیز کی سربلندی کے لئے جان توڑ محنت کر رہے ہیں۔ سو ہمیں چاہیئے کہ ہم لٹیرے سیاستدانوں سے ہمیشہ کے لئے جان چھڑانے کے لئے مخلص رہنماؤں کو آگے لائیں،جو ملک و قوم کی تقدیر کو بدل سکیں۔ اگر ہم نے مخلص رہنماؤں کے ساتھ بے وفائی اور لٹیرے سیاستدانوں کے ساتھ وفاداری کا سلسلہ جاری رکھا تو کوئی مخلص رہنما ہماری ڈوبتی ناؤ کو کنارے لگانے نہیں آئے گا۔ اور اگر یہ شریف النفس رہنما سیاست کو برا سمجھ کر کنارہ کشی اختیار کئے رہے تو ہم یونہی بد سے بدترین کے طرف عازم سفر رہیں گے