نجانے کون سی قوت تھی کہ ہر لمحہ مجھےاس کی جانب کھینچے لیتی۔ ۔ دوسروں سے لا تعلق صرف اس کے سحر میں گم رہنا میرا پسندید ہ مشغلہ بن گیا۔ اس کا ہر ہر لفظ اپنے دامن میں ہزاروں چنگاریاں لیے ہوتا۔ کبھی خوشی کبھی غم کبھی ہر سو بہار کا سماں ہوتا تو کبھی بارود، لاشے اور سوگ۔ ۔ کبھی محبت سے زندگی بھر جاتی اور کبھی نفرت، بغض، حسد سے زندگی جہنم ہوجاتی۔ ۔ کبھی دنیا کے ہر کونے ہر گوشے کی خبر اسے ہوتی، ہزاروں کہانیاں ہوتیں۔ ۔ کبھی ہنستے کھکھلاتے کبھی گنگنا کر چپ ہو جاتے، کبھی خاموشی سے صحراؤں میں ساحل کی ہوا سے تیرتے تو کبھی حیرت کے سمندر میں غوطہ زن ہوتے،
؎ چھپی ہے ان گنت چنگاریاں لفظوں کے دامن میں
یہاں بات ہورہی ہے۔ کتاب کی۔ ۔
گھر میں ہو یا دکان میں۔ ۔ لائبریری میں ہو یا بیگ میں، جس کے ہاتھ کتاب ہو وہ ضرور اس کو پڑھنے پر مجبور کرہی دیتی ہے۔ کچھ کتابیں اپنے قاری کو اپنے سحر میں جکڑ لیتی ہیں، ایک دفعہ پڑھنا شروع کردیا تومکمل پڑھ کر ہی دم لیتی ہیں۔ کتابوں کے مختلف موضوع اور الفاظ کتاب کی جادوئی طاقت میں اہم کردار اداکرتے ہیں۔ جس طرح غذا صحت کے لیے ناگزیر ہے، اسی طرح روحانی اور فکری ارتقاء کے لیے مطالعہ ایک جزو لاینفک کی حیثیت رکھتا ہے۔ غذا کے بغیر جیسے جسم لاغر ہو جاتا ہے، وہیں مطالعہ کے بغیرعقل و شعور میں جمود اور زوال اپنی جگہ بنا لیتے ہیں۔ انسان کی عقل چاہے کتنی ہی زیرک کیوں نہ ہو، وہ انسان کو صرف کچھ مخصوص حالات سے ہی آگاہی بخش سکتی ہے۔ یہ صرف مطالعے کی ہی دَین ہے کہ جس کی مدد سے ہم مختلف تہذیبوں اور تمدّنوں کے بارے میں جانکاری حاصل کر سکتے ہیں۔ مطالعہ متمدن اقوام کی پہچان ہے۔ بلند خیالی اور ذہنی ارتقاء کا ذریعہ ہے۔ عظیم شخصیات کا وصف خاص ہے۔ دنیا میں کئی ایسے عظیم انسان گزرے ہیں، جنہوں نے اپنی وفات کے بعد بھی صدیوں تک انسانوں کے قلوب و اذہان پر اپنی دھاک بٹھائی۔ مولانا حمید الدین فراہیؒ اپنے طلبہ کو نصیحت کیا کرتے تھے: ’’ہمیشہ اعلیٰ کتابیں پڑھنی چاہئیے۔ اعلیٰ کتابیں ہی مطالعے کا صحیح ذوق پیدا کرتی ہیں۔
؎ بارود کے بدلے ہاتھوں میں آ جائے کتاب تو اچھا ہو
اے کاش ہماری آنکھوں کا اکیسواں خواب تو اچھا ہو
قوموں کی تعمیر میں بنیادی اقدار اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ عروج و زوال کے اسباب بھی بنیادی اقدار ہی میں ہوتے ہیں۔ چونکہ علم ہمیشہ عمل کا امام ہوتا ہے، لہٰذا بنیادی اقدار صحیح علم سے ہی آتی ہیں اور درست علم مطالعۂ کتب سے حاصل ہوتا ہے۔ وسیع و دقیق مطالعے کے بغیر انسان کا ذہن، ادراک کی اس سطح تک رسائی نہیں پا سکتا، جہاں سے وہ مفید و مضر اور اعلیٰ و ادنیٰ میں فرق جان سکے۔ ماہر نفسیات کے مطابق اچھی اور مفید کتابوں کے مطالعہ سے ہی انسان کی زندگی میں سکون اور اطمینان جیسی اعلیٰ اور مطلوبہ صفات پیدا ہوسکتی ہیں۔ جاپانی قوم نے دنیا کو بہت سی مثبت چیزیں دیں ہیں۔ اس کا راز ان کے محنت کے ساتھ ساتھ ان کا کثرت مطالعہ ہے۔ مجتبیٰ حسین اپنے سفرنامہ جاپان چلو جاپان میں لکھتے ہیں. سارے ایشیاء میں جاپانی سب سے زیادہ پڑھا کو قوم ہے اور دنیا بھر میں ان کے اشاعتی کاروبار کی دھاک بیٹھی ہوئی ہے، ہم نے محسوس کیا کہ جاپانی یا تو پڑھتا ہے یا لکھتا ہے۔ باتیں بہت کم کرتا ہے۔ جہاں چاہیں لوگ کتابیں خریدنے اور پڑھنے میں مصروف رہتے ہیں۔ ٹوکیو میں ایک محلہ ہے کندا جو شہنشاہ جاپان کے محل سے متصل ہے۔ اس میں ہر طرف کتابیں فروخت ہوتی ہیں۔ کتابوں کی اتنی بڑی دکانیں ہم نے کہیں نہیں دیکھیں۔ ہوٹلوں اور تفریح گاہوں میں بھی کتابوں کی فروخت کا انتظام موجود ہے۔ کتاب خریدنے والوں کو اپنے علم کی پیاس بجھانے کے لیے بہت دور جانا نہیں پڑتا۔ جب ذرا گردن جھکائی، دیکھ لی۔ چار پانچ سال کے کم عمر بچے ہی بڑے ذوق و شوق سے کتابیں خریدتے ہیں بلکہ انہیں پڑھتے بھی ہیں۔ جاپان کی آبادی تقریباً ساڑھے گیارہ کروڑ ہے اور سال بھر میں تقریباً 80کروڑ کتابیں فروخت ہوتی ہیں۔ گویا ہر جاپانی سال بھر میں ساڑھے چھ کتابیں ضرور خریدتا ہے۔ کتاب کا عالمی دن ہر سال 23 اپریل کو منایا جاتا ہے، تاکہ عوام میں کتب بینی کا شوق پیدا کیا جاسکے۔ اقوام متحدہ کی ذیلی تنظیم یونیسکو نے 1995 میں آج کے دن کو کتاب کا عالمی دن کے طور پرمنانے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس دن کو منانے کا مقصد معاشرے میں کتب بینی کے رحجان کو ترویج دینا ہے۔ بالخصوص آئندہ نسل جو کہ ڈیجیٹل دنیا میں پیدا ہوئی ہے۔ اسے کتاب پڑھنے کا ذوق اور شوق ودیعت کرنا ہے۔ کتاب کے دن کوعالمی سطح پر منانے کی وجہ دو نامور ادیبوں کا یومِ وفات ہے۔ یہ ہیں، انگریز ڈرامہ نگار ولیم شیکسپیئراور ہسپانوی شاعر مِگل دے سَیروانتیس اس سے قبل اسپین کے علاقے کاتالونیہ کے23 اپریل کوعوامی ہیرو سینٹ جارج کی یاد میں ایک دوسرے کو پھولوں کا تحفہ دیا کرتے تھے۔ 1923ء سے کتابوں کی دوکانوں کے مالکان کی تحریک پر لوگ گلابوں کے ساتھ کتابیں بھی بطور تحفہ دینے لگے۔ کتاب انسان کی زندگی کا لازمی جز ہے اور کتاب کا تعلق انسان سے بڑا پرانا ہے۔ یہ انسان کے علم و ہنر اور ذہنی استعداد میں بھی بے پناہ اضافہ کرتی ہے لیکن تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ کتب بینوں کی تعداد میں روز بروز کمی آرہی ہے جس کی ایک بڑی وجہ مہنگائی ہے، جب کہ دوسری اہم وجہ انٹرنیٹ اور موبائیل پر آن لائن کتابوں کی دستیابی ہے۔ جس طرح انٹرنیٹ ٹیکنالوجی آنے کے بعد ہاتھ سے لکھے اور بذریعہ ڈاک بھیجے جانے خطوط کا سلسلہ بہت کم ہوگیا ہے۔ اسی طرح کتب بینی کے شوق میں بھی کمی ہوئی۔ ستم ظریفی تویہ ہے کہ عوامی لائبریریوں کو تیزی سے ختم کرکے اس شوق پر قدغن لگا دیا گیا ہے۔ لائبریریوں کی جگہ رہائشی عمارتوں، پارکوں اور کچرا کنڈیوں نے لے لی ہے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت نہ صرف کتابوں کی قیمتیں کنٹرول کرنے میں کردار ادا کرے بلکہ تمام اہم جگہوں پر دوبارہ ان پبلک لائبریریوں کو فوری طور پر بحال کرے تاکہ معاشرے میں لوگوں بلخصوص نوجوان نسل میں مطالعہ کی اہمیت اور افادیت کو اجاگر کیا جاسکے، اور اس سنہرے دور کا دوبارہ آغاز کیا جاسکے جب ہر روز ہی علمی اور ادبی محفلیں سجا کرتی تھیں، جو معاشرے میں سدھار پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کرتی تھیں۔ اگر ملّت اسلامیہ دوبارہ سے دنیا میں عزت اور عروج حاصل کرنا چاہتی ہے تو ہمیں چاہئیے کہ علم کی اس متاع گم گشتہ کو پھر سے حاصل کرنے کی فکر کریں، کیونکہ علم کے اس زینے سے گزرے بغیر کامیابی کی بلندی تک پہنچنا نہ صرف مشکل بلکہ ایک ناممکن عمل ہے۔