سانحہ پشاور کے بچوں کو یاد کرنے کے لیے ہم اکٹھے ہوئے تھے۔ بہت معروف شاعرہ صوفیہ بیدار نے پنجاب آرٹس کونسل کے زیراہتمام جناح باغ کی خوبصورت پہاڑی پر ایک شاندار تقریب کی تھی۔ پہاڑی پر چڑھتے ہوئے اردگرد سارے درخت، درختوں پر بیٹھے ہوئے پرندے اس طرح چہچہا رہے تھے جیسے سسکیاں لے رہے ہوں۔ وہ بھی سانحہ پشاور کے معصوم اور مظلوم بچوں کی یاد میں رو رہے تھے۔ ایک گہری اداسی چاروں طرف چھائی ہوئی تھی۔
یہ 16 دسمبر عجیب دن ہے کہ سقوط مشرقی پاکستان ہوا۔ پھر اس دن پشاور کے آرمی پبلک سکول میں ایک قیامت ٹوٹ پڑی۔ کس طرح ظالموں نے بچوں کو گولیوں کا نشانہ بنایا۔
یہ دہشت گرد کس کا مقابلہ کرتے ہیں جس کے مقابل میں کوئی نہ ہو اور وہ ظلم کرے تو وہ پرلے درجے کا بزدل ہوتا ہے۔ یہ جو غیرت کے نام پر قتل کرتے ہیں۔ یہ تو بزدل ہونے کے ساتھ بہت خوف زدہ بھی ہوتے ہیں۔ ہمارے ملک میں غیرت کے نام پر اور مذہب کے نام پر قتل و غارت دہشت گردی ہے۔ لوگ اپنی بہن یا بیٹی کے ساتھ اس مردود مرد کو کچھ نہیں کہتے جس کے ساتھ جرم کے لیے وہ اپنی رشتہ دار خاتون کو قتل کرتے ہیں۔ یہ بزدلی کی انتہا ہے۔
میں تو اس پر پریشان ہوں کہ پشاور میں فرشتوں کی طرح معصوم بچوں کو مارنے والوں نے دسمبر کی 16 تاریخ کا انتخاب کیوں کیا۔ یہ اتفاق نہیں ہے بلکہ یہ سوئے اتفاق بھی نہیں یہ سانحہ اپنی اصل میں سقوط ڈھاکہ سے کم نہیں ہے۔ میرے محبوب رسولؐ نے فرمایا جس نے ایک شخص کو قتل کیا اس نے ساری انسانیت کو قتل کیا۔ جس نے ایک بچے کو قتل کیا اس نے پوری زندگی کو مار دیا۔ ہم نے اس زمین کو دوزخ بنا دیا ہے۔ ہم دوزخ میں رہ رہے ہیں تو بچے اس زمین پر جنت کے باشندے ہیں۔ ہم نے اپنی جنت اجاڑ دی ہے۔ صوفیہ بیدار یادگار دنوں کے لیے تقریبات کرتی ہیں۔
آج ایک غمزدہ تقریب تھی۔ اس تقریب کی صدارت کے لیے بھی اس نے مجھے منتخب کیا تھا۔ یہ اعزاز ہے مگر آج تو اس کیفیت میں ایسا سوزوگداز تھا، ایسا رازونیاز تھا کہ میں سٹیج پر اپنے لہو میں گھل مل گیا۔ ایک بہت دردمند جوان رعنا نجم ولی خان مہمان خصوصی تھا۔ اس کے بعد معروف خاتون ڈاکٹر صغرا صدف مہمان خصوصی کے طور پر سٹیج پر آ گئیں صوفیہ کو کمپیئرنگ کرنا تھی۔ وہ ہمارے ساتھ بیٹھی تھی۔ وہ بہت اچھی گفتگو کرتی ہے۔ اس کی زبان سے جملے مصرعوں کی طرح ادا ہوتے ہیں۔
حیرت انگیز ہے کہ 16 دسمبر کو شہر میں خصوصی طور پر کوئی تقریب نہ ہوئی۔ سرکاری طور پر صرف پنجاب آرٹس کونسل نے ایک عمدہ اجلاس کیا۔ جس میں رابعہ رحمان حمیدہ شاہین انجم قریشی عفت علوی موجود تھیں۔
صوفیہ بیدار نے پورے شہر کی نمائندگی کا حق ادا کر دیا۔ ایک بہت بڑا اجلاس ناصر باغ میں ہوا۔ ادبی اور تخلیقی اجلاس اور ایک سیاسی اور مذہبی اجلاس میں فرق ہوتا ہے۔ حافظ سعید ایک مجاہد انسان ہیں۔ بھارت صرف ایک شخص سے ڈرتا ہے اور وہ پروفیسر محمد سعید ہیں۔ روایت ہے کہ امریکہ بھی ان سے ڈرتا ہے۔ امریکہ نے ایک بار ان کی گرفتاری کے لیے بھی خواہش کی تھی۔ مگر کوشش کرنے کی کسی میں ہمت نہیں ہوتی۔ اس اجلاس میں برادرم لیاقت بلوچ، ابتسام الٰہی ظہیر، ہارون گیلانی، عبدالغفار روپڑی، عبدالرحمن مکی نے خطاب کیا۔ یہ ولولہ انگیز باتیں تھیں۔
مگر پنجاب آرٹس کونسل میں ادبی ماحول بنا رہا۔ کہا گیا کہ سقوط مشرق پاکستان اور سانحہ پشاور کا انتقام کشمیر میں لیں گے مگر ہمیں مشرقی پاکستان کو نہیں بھولنا چاہئے۔ کہتے ہیں تاریخ ملک کو دو ٹکڑے کرنے والوں کو معاف نہیں کرے گی مگر تاریخ کو ہم نے خود بنانا ہے۔ ایک تاریخ بنتی رہتی ہے۔ ایک تاریخ بنائی جاتی ہے۔
ہمیں 16 دسمبر کی تاریخ یاد رہے گی تو ہم تاریخ بنانے پر قادر ہو سکیں گے۔ اب سقوط ڈھاکہ کی بات کم کم ہوتی ہے۔ حیرت ہے کہ کشمیر ایک متنازعہ علاقہ ہے اور مشرقی پاکستان ایک غیر متنازعہ علاقہ تھا۔ اب بھارت بلوچستان کی بات کرنے لگا ہے۔ امریکہ بھی اس کے ساتھ ہے۔ ہمیں ایران سے بھی زیادہ امیدیں نہیں رکھنا چاہئیں۔
ہم نے ’’سی پیک‘‘ کے منصوبے کو عملی جامہ پہنا لیا اور اس میں کسی طرف سے ذاتی کاروباری خواہش شامل نہ ہو گئی تو ہم کسی نہ کسی کامیابی کے پاس پہنچ جائیں گے۔ ایک بات ’’جی سے جی‘‘ تک بھی ہو رہی ہے گلگت سے گوادر تک؟ باتیں تو بہت ہوتی ہیں اور پھر کالی راتیں چھا جاتی ہیں۔
ایک بات میرے ذہن میں تڑپتی ہے کہ اگر بھارت ’’بنگالیوں‘‘ کے لئے اتنا ہی ہمدرد تھا تو اپنا بھارتی بنگال بھی پاکستانی بنگال میں شامل کرتا اور ایک نام نہاد سیکولر بنگال مکمل کر دیتا۔ اس کا مطلب ہے کہ مسلم بنگال اور ہندو بنگال میں بڑا فرق ہے۔ بنگلہ دیش اب بھی مسلم بنگال ہے۔ ابھی کئی انقلاب وقت کے دروازے پر دستک دے رہے ہیں علمی کتابوں کی اشاعت کے ساتھ ساتھ جو پبلشرز ادبی شعری کتابیں بھی چھاپتے ہیں وہ ہمارے شکریے کے خصوصی طور پر مستحق ہیں۔ ورنہ اب پبلشنگ ایک کاروبار بن چکا ہے۔ میں اس کی کاروباری اہمیت کا بہت قائل ہوں مگر تخلیقی کتابوں کی اشاعت ایک ادبی معرکہ آرائی ہے۔
ملک مقبول احمد ایک ایسے اعلیٰ پبلشر ہیں جو بہت شاندار ادیب ہیں۔ وہ کئی کتابوں کے مصنف ہیں اور ان کے بارے میں بھی کئی کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ یہ ایک ایسا منفرد اعزاز ہے جو کم کم پبلشرز کو حاصل ہے۔ وہ بہت نفیس آدمی ہیں اسم بامسمہ ہیں۔ اپنے نام کے سارے معانی جانتے ہیں۔ وہ لکھنے والوں کے قبیلے میں ایک پسندیدہ شخصیت ہیں۔
ان کی کم و بیش 25کتابیں شائع ہو چکی ہیں اور کئی بار شائع ہوئی ہیں۔ وہ ایک پاپولر لکھاری ہیں۔ ان کی جو کتابیں بہت مقبول ہوئی ہیں ان میں خود نوشت ’’سفر جاری ہے‘‘ بہت شاندار کتاب ہے۔ وہ منزل پر کئی بار پہنچے ہیں مگر اصل منزلیں تو منزل کے بعد آغاز ہوتی ہیں۔
ملک مقبول کے لئے کئی یونیورسٹیوں سے تخلیقی مقالے لکھے گئے۔ نمل یونیورسٹی اسلام آباد سے ان کے سفرنامہ حج ’’حرف آرزو‘‘ کے لئے طلعت فردوس نے ڈاکٹر فوزیہ اسلم کی نگرانی میں ایک عمدہ مقالہ لکھا ہے جو ’’سفر آرزو کا تجزیاتی مطالعہ‘‘ کے نام سے شائع ہوا ہے۔ افشاں اختر نے ملک کی سرگزشت ’’سفر جاری ہے‘‘ کے لئے مقالہ لکھا ہے۔
ملک مقبول کے لئے نامور محقق اور مصنف پروفیسر ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم نے ’’دانش صد رنگ‘‘ کے نام سے ایک بڑی کتاب لکھی ہے۔ اس کے علاوہ بھی ’’راہ نورد شوق‘‘ اور ’’متاع سفر‘‘ کے نام سے دو کتابیں شائع ہوئی ہیں۔ ملک صاحب کی اپنی 25 کتابوں میں چند ایک کے نام یہ ہیں۔
-1سفر جاری ہے۔ -2پذیرائی۔ -3سرور کائنات۔ -4پچاس نامور ادبی شخصیات۔ -5آپس کی باتیں۔ -6برسبیل گفتگو۔ -7 سفر آرزو (سفرنامہ حج)