لاہور( نیوز ڈیسک) سینئر صحافی ارشاد بھٹی کا کہنا ہے کہ ایک بار ماضی کی ایک مشہور اداکارہ پر برا وقت آیا، اپنوں نے گھر سے نکال دیا، میں انہیں ڈھونڈتے ڈھونڈتے لاہور کی ایک کچی بستی کے ایک تنگ و تاریک گھر پہنچا، شام کا وقت، ایک چارپائی پر مکھیوں کے جھرمٹ میں لیٹی اس اداکارہ نے اتنا بھی نہ کیا کہ میرے آنے پر پیٹ سے ہٹی قمیص ٹھیک کر لیتی، سر کے نیچے رکھے دوپٹے سے پھٹی قمیص ڈھانپ لیتی، وہ 3گھنٹے جو وہاں گزرے کبھی نہ بھول پائے۔ اپنے تازہ ترین کالم میں ارشاد بھٹی کا کہنا تھا کہ ’’اسے کورونا حکمراں، کورونی قوم، کورونا جمہوریت، کورونا سیاست، کورونے مائنڈ سیٹ کا کرشمہ کہہ لیں یا اپنے ڈی این اے کا فالٹ، اپنی کیکڑا ذہنیت، مکھی سوچ، بچھو خصلت، مسخ شدہ رویے کہہ لیں۔ہمارا کوئی متفقہ رول ماڈل نہیں، کوئی مشترکہ ہیرو نہیں، کوئی مشترکہ حکمتِ عملی نہیں، کوئی ایسا نکتہ نہیں جس پر ہم سب متفق ہوں۔ہم نے کسی کی عزت رہنے دی نہ اپنی، کوئی ہمارے الزاموں سے نہ بچا، کوئی نہ رہ گیا جس میں ہم نے کیڑے نہ نکالے ہوں، قائداعظم، کافرِ اعظم، خراب ایمبولینس میں مار دیا، مادرِ ملت فاطمہ جناح، بھارتی ایجنٹ، پراسرار موت، قائد ملت لیاقت علی خان، قتل، قائد عوام، ذوالفقار علی بھٹو، پھانسی، دخترِ مشرق، بینظیر بھٹو، قتل، ایوب کتا، ایوب کتا کے نعرے، گھر بھجوا کر چھوڑا، یحییٰ خان، شرابی رنگیلا، پرویز مشرف، غدارِ آئین، بینظیر بھٹو، نواز شریف کی نظر میں سیکورٹی رسک، نواز شریف پیپلز پارٹی کی نظر میں، جاتی امرا کا مجیب الرحمٰن، گریٹر پنجاب بنانے والا، مودی کا یار، درندہ، دھرتی کا ناسور، آصف زرداری مسٹر ٹین پرسنٹ، مسٹر ہنڈرڈ پرسنٹ، عمران خان، یہودی ایجنٹ، پاگل خان، طالبان خان، یوٹرن خان، پلے بوائے، نشئی، اسکندر مرزا، پاکستان میں قبر کی جگہ نہ ملی، ڈاکٹر عبدالسلام، دیس نکالا، محسن پاکستان ڈاکٹر اے کیو خان، رسوائیاں، بے عزتیاں، قیدیں، عبدالستار ایدھی، ایک الیکشن میں کھڑے ہوئے، ضمانت ضبط ہوگئی۔ہم نے آدھا ملک گنوا کر بھی کچھ نہ سیکھا، ہم سی پیک پر اکٹھے نہیں، ہم کشمیر پر ایک نہیں، ہم کورونا بحران پر ایک ساتھ نہیں، ہمارا سب ڈنگ ٹپاؤ، ہمارا سب کچھ ذاتی مفادات کے تابع، ہمارے ہاں غلام ابن غلام دانشور بنے بیٹھے، یہاں نوکروں کے چاکر افلاطونیاں جھاڑ رہے۔یہاں خوشامدی سقراط کا روپ دھارے ہوئے، یہاں صبح سے شام تک، شام سے صبح تک، طوطوں کی زبانوں پر ایک ہی ورد، میرا آقا ٹھیک، میرا آقا ٹھیک، ہمارے نعرے بدل گئے، پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الا اللہ، اب یہ یوں ہوا، پاکستان کا مطلب کیا؟دَب کے لُٹ، رَج کے کھا، ہم زندہ قوم ہیں، یہ یوں بدلا، ہم شرمندہ قوم ہیں، اس پرچم کے سائے تلے ہم سب ایک ہیں، سانجھی اپنی خوشیاں، غم ایک ہیں، اب یہ یوں ہوا، اس پرچم کے سائے تلے ہم سب کورونے کھیت ہیں، سانجھی اپنی کرپشن، بھُک ماتم ایک ہیں۔فیض احمد فیض، ہتھکڑیاں، حبیب جالب، جیلیں، استاد دامن، غربت، ساغر صدیقی، رُل رُل مر گیا، احمد فراز، گھر کا سامان سڑک پر، وحید مراد، زوال میں مرا، سلطان راہی، قتل، روحی بانو، پاگل کر کے مارا، دل دل پاکستان والے نثار ناسک یا ڈاکٹر انور سجاد، پیسے پیسے کو ترسے، علی اعجاز، روتے دھوتے اگلے جہاں گیا، ببو برال، حکومتی امداد کی راہ تکتے تکتے فوت ہوا، یہ چند مثالیں، ایسی بیسیوں مثالیں اور بھی۔ایک مرتبہ میں نے پٹھانے خان سے کہا، سائیں اللہ نے آپ کو کیا نام، مقام دیا، دنیا میں کون سا ملک جہاں ’میڈا عشق وی توں‘ نہ سنا جاتا ہو، کوئی خواہش، پٹھانے خان نے لمبی سرد آہ بھری، سگریٹ کا کش مارا، بولے ’’سائیں خواہش ہے کوئی مہینہ ایسا آئے کہ مجھے ہاتھ نہ پھیلانا پڑے، سائیں میں گونگوں، بہروں، اندھوں کے سامنے ہاتھ پھیلا پھیلا، ان سے مانگ مانگ تھک گیا ہوں‘‘۔ایک بار ماضی کی ایک مشہور اداکارہ پر برا وقت آیا، اپنوں نے گھر سے نکال دیا، میں انہیں ڈھونڈتے ڈھونڈتے لاہور کی ایک کچی بستی کے ایک تنگ و تاریک گھر پہنچا، شام کا وقت، ایک چارپائی پر مکھیوں کے جھرمٹ میں لیٹی اس اداکارہ نے اتنا بھی نہ کیا کہ میرے آنے پر پیٹ سے ہٹی قمیص ٹھیک کر لیتی، سر کے نیچے رکھے دوپٹے سے پھٹی قمیص ڈھانپ لیتی، وہ 3گھنٹے جو وہاں گزرے کبھی نہ بھول پائے۔یہ علیحدہ بات بعد میں اسی اداکارہ کو ہم کچھ دوست پوش علاقے میں لانے میں کامیاب ہوئے، یہ ٹی وی، فلموں میں پھر سے مصروف ہوئی، اس کے اچھے دن آئے، رشتہ داروں سے گھر کا قبضہ بھی واپس مل گیا، مگر وہ کچی بستی، وہ پیشاپ بھری گلیاں، وہ بدبودار ماحول، وہ تنگ و تاریک سلین زدہ مکان، وہ پرانی چارپائی، وہ دوپٹہ سر کے نیچے رکھے خود سے بے خبر لیٹی اداکارہ، جو کبھی اسکرین پر آتی، لوگوں کی سانسیں رک جاتیں، جو آنکھیں گھما گھما کر بولتے ہوئے اک شانِ بے نیازی سے ہنستی تو لوگ سینما ہال سر پر اٹھا لیتے۔مجھے وہ اداکار بھی یاد، جسے ایک روز دوائی کیلئے 5سو روپوں کی ضرورت تھی اور اس دن 5سو روپے کیلئے اس نے اپنا ایک ایوارڈ بیچ دیا، وہ ایک ایک لقمے کو ترستی مر گئی، ڈرامہ ’عینک والے جن‘ کی بل بتوڑی اور ابھی کل ہی 36سو روپے گیس کا بل ہاتھ میں پکڑے بدعائیں دیتا، آنسو بہاتا جاوید کوڈو۔ہمارے مزاج ایسے گٹری، ایک دوسرے کو یاد کرنے، ایک دوسرے کا حوالہ دینے، ایک دوسرے کا تعارف کرانے کا انداز بھی بدبودار، جیسے وہ فلاں کو جانتے ہو، کون فلاں، وہی جس کے باپ پر نیب کا کیس بنا تھا، وہ فلاں کو جانتے ہو، کون فلاں، وہی جس کا چچا فلاں عورت کو بھگا کر لے گیا تھا، وہ فلاں آج ملا تھا، کون فلاں، وہی جسے اس کی بیگم چھوڑ گئی تھی۔ہم صبح سویرے الزاموں، دشنام طرازیوں کے ٹوکرے سر پر رکھے گھر سے نکلیں، شام تک ایک زمانے کا منہ کالا کر کے گھر لوٹیں، ہمیں پتا ہی نہ چلے اصل میں سارا دن ہم بڑی محنت سے اپنا ہی منہ کالا کرتے رہے، بندہ چاہے جتنا باعزت ہو، وہ ہم سے ملا بھی نہ ہو، مگر ہم یوں اس سے عیب درعیب نکالیں گے جیسے اس کے ہر عیب کے ہم چشم دید گواہ۔میں اکثر سوچوں، ہم ایک دوسرے سے اتنا حسد کیوں کرتے ہیں، ہم ہمیشہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں کیوں لگے رہتے ہیں، ہمیں دوسروں کی عزت، کامیابی، خوشی ہضم کیوں نہیں ہوتی، مجھے اکثر لگے، ہم سب لاعلاج ہو چکے، ایسے ہی جیسے کورونا وائرس، لیکن عین ممکن کورونا وائرس کا علاج تو دریافت ہو جائے مگر ہم کورونے لاعلاج ہی رہیں، کورونے حکمراں، کورونی قوم، کورونا کورونا کردی نی میں آپے کورونا ہوئی‘‘۔