لاہور (ویب ڈیسک) میرے نام سے پہلے جو آرمی رینک لگا ہوا ہے، شائد اس حوالے سے لوگ یہ سوال اکثر پوچھتے ہیں کہ کیا ہندوستان اور پاکستان کے درمیان پانچویں جنگ کا خطرہ ہے؟۔گزشتہ چار جنگوں میں سے تین جنگیں (1948ء،1965ء،1999ء) کشمیر ہی کے سوال پر ہوئیں اور اب چونکہ مقبوضہ کشمیر کا خصوصی سٹیٹس نامور کالم نگار لیفٹیننٹ کرنل (ر) غلام جیلانی خان اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ہی تبدیل کر دیا گیا ہے اس لئے بعض پاکستانیوں کا خیال ہے کہ بھارتی حکومت کی طرف سے اتنی بڑی اور طوفانی تبدیلی چوتھی جنگ کی وجہ بن سکتی ہے۔ان کے خیال میں کشمیر کے مسئلے پر گزشتہ جنگوں کے اسباب کے تناظر میں، کشمیر کی حالیہ تبدیلی ایک نئی اور خونریز جنگ کا باعث بن سکتی ہے۔…………لیکن میرا تجزیہ ہے کہ جنگ نہیں ہو گی…… اس کی وجوہات درج ذیل ہیں: (1)۔ اگر جنگ ہونی ہوتی تو 26فروری2019ء کو ہو جاتی۔لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کر کے بالا کوٹ پر حملہ کرنے کے مقابلے میں مقبوضہ کشمیر میں آرٹیکل370کاخاتمہ کوئی زیادہ بڑی جارحیت نہیں۔انڈیا تو کشمیر کو ہمیشہ اپنا اٹوٹ انگ تصور کرتا آیا ہے،اس لئے اس کا اصرار ہے کہ آرٹیکل370 کا خاتمہ، اس کا داخلی معاملہ ہے۔…… پاکستان کو اس سے کیا لینا دینا۔…… (2)۔ دُنیا کی کسی بھی بڑی طاقت کی طرف سے انڈیا کی اس اچانک عاقبت نا اندیشی کی مذمت نہیں کی گئی۔ایمنٹسی انٹرنیشنل یا او آئی سی کی طرف سے مذمت کے چار حروف کوئی زیادہ موثر نہیں ہو سکتے اور ان سے انڈیا کا کچھ بھی نہیں بگڑے گا۔کم از کم چین کی طرف سے تو اس کا ردِعمل آنا چاہیے تھا۔اس کی خاموشی معنی خیز ہی نہیں، پاکستان کے مقتدر حکومتی حلقوں کی نظر میں قابل ِ اعتراض بھی گردانی جا رہی ہو گی۔ میرے اندازے کے مطابق کل کی کور کمانڈرز کانفرنس میں اس خاموشی پر بھی ضرور بات ہوئی ہو گی اور اس کی وجوہات کا تجزیہ بھی کیا گیا ہو گا۔ (3)۔ اردوان اور مہاتیر محمد سے پاکستانی وزیراعظم کی ٹیلی فونک بات چیت ایک طرف لیکن اگر جنگ ہوئی تو ترکی اور ملائشیا، پاکستان کی کیا مدد کر سکیں گے،اس کا جواب کسی بھی آنے والے پاک بھارت تنازعے کے پلڑے کو پاکستان کے حق میں زیادہ نہیں جھکاتا۔ (4)۔ پاکستان کی موجودہ اقتصادی اور مشکل صورتِ حال، کسی بھی جنگ (WAR) تو کیا کسی لڑائی) (Battle کی متحمل بھی نہیں ہو سکتی۔ (5)۔ اگر آپ پچھلے پانچ سات روز کا انٹرنیشنل پرنٹ اور ای میڈیا ریوائنڈ کرکے دیکھیں تو آپ کو اس واویلے کی کوئی سُن گُن سنائی اور دکھائی نہیں دے گی جو ہمارا میڈیا دن رات سنواتا اور دکھاتا رہا ہے اور اب بھی یہی حال ہے۔دوسرے لفظوں میں کہا جا سکتا ہے کہ ان کے لئے کشمیر کا مسئلہ غیر ملکی میڈیا کے لئے کوئی ایسا ایشو نہیں کہ اس پر ابلاغی نقد و نظر کیا جائے۔دوسرے لفظوں میں پاکستان کے لئے انٹرنیشنل میڈیا کا یہ رویہ جس قدر مایوس کن ہے،بھارت کے لئے اتنا ہی حوصلہ افزا ہے۔الجزیرہ ٹی وی پر ایک ”ٹوٹا پھوٹا“ تبصرہ کیا گیا ہے جس کی کوئی اہمیت نہیں۔ کسی ”خالص سفید فام“ چینل نے کشمیر کو اب تک درخورِ توجہ نہیں جانا۔ (6)۔ ملٹری صورتِ حال کے تناظر میں دیکھا جائے تو فریقین کی طرف سے کسی بھی قسم کی وہ ”ہلچل“ نظر نہیں آئی جو کسی جنگ، لڑائی یا مسلح جھڑپ کی خبر دیتی ہو، زبانی کلامی باتیں اور ہوتی ہیں۔ہمارے وزیراعظم نے دو روز پہلے جو یہ بیان دیا ہے کہ انڈیا، مقبوضہ کشمیر میں جو کچھ کر رہا ہے، اس سے جنوبی ایشیاء کا امن خطرے میں پڑ سکتا ہے، تو میرے نزدیک یہ تبصرہ ایک مدبرانہ تبصرہ ضرور ہے لیکن یہ کسی فوری جنگ کی طرف راہنمائی نہیں کرتا۔ اور وہ ”منہ توڑ“ جواب نہیں جو ہم ایشیائیوں کو سننے کی عادت ہے۔ویسے تو یہ سوال قومی سلامتی کمیٹی (NSC) میں اٹھانا چاہیے تھا کہ انڈیا، اگر امریکی صدر کی ثالثی کی پیشکش پر اتنا برہم ہو رہا ہے تو اسے یہ برہمی امریکہ پر نکالنی چاہئے تھی،نہ کہ بے گناہ اور مظلوم کشمیریوں پر۔محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کی گرفتاری سے کیا یہ مسئلہ حل ہو جائے گا؟ وادی میں مسلم آبادیوں پر عرصہئ حیات تنگ کر کے کیا ٹرمپ کو یہ پیغام دیا جا رہا ہے کہ تیسری بار ثالثی کا نام نہ لینا؟لیکن سوال یہ ہے کہ پاکستان کو اب کیا کرنا چاہیے…… یہ ایک مشکل سوال ہے اور ماضی میں بھی یہی سوال لاینحل رہا ہے۔ دیکھیں اب کور کمانڈرز کانفرنس میں کیا فیصلہ ہوتا ہے، جہاں تک اس کی مذمت کا سوال ہے تو یہ کوئی نئی بات نہیں ہو گی،نہ ہی اس کا بھارت پر کوئی اثر پڑے گا اور نہ ہی بین الاقوامی برادری پر۔ جیسا کہ اوپر لکھ آیا ہوں، بین الاقوامی میڈیا کے کانوں پر ہنوز کوئی جوں نہیں رینگی۔ہمارے میڈیا پر کوئی صاحب،حکومت کو یہ مشورہ بھی دے رہے تھے کہ پاکستان کو نئی دہلی سے اپنا ہائی کمشنر واپس بُلا لینا چاہئے…… اللہ اللہ خیر سلّا…… لیکن اس قسم کے اقدامات مجہول دفاعی اقدامات کی ذیل میں شمار ہوتے ہیں۔ ہمارے پاس جارحانہ اقدامات کون کون سے ہیں،ان کو ڈسکس کرنا چاہئے اور شائد کور کمانڈرز کانفرنس میں انہی نکات پر کوئی بات چیت ہوئی ہو گی۔اس امر کا کھلے بندوں اظہار نہ کیا جائے، لیکن افغانستان سے امریکی ٹروپس کے انخلا کو تب تک موخر کرنے کی سٹرٹیجی اپنانے میں کوئی ہرج نہیں،جب تک امریکہ، بھارت پر دباؤ ڈال کر اسے حالیہ اقدامات واپس لینے پر مجبور نہیں کرتا۔اگر امریکی مفاد اس میں ہے کہ وہ کابل سے نکلنا چاہتا ہے تو اس ایشو کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں لے جایا جائے۔ ویسے تو امریکہ بات بے بات پر سلامتی کونسل کا اجلاس بلوا لیتا ہے۔کیا اسے اور اس کے ساتھ اس کے یورپی حواریوں کو نظر نہیں آ رہا کہ انڈیا،متنازعہ جموں اینڈ کشمیر میں کیا کیا سفاکانہ اقدامات کر رہا ہے؟کیا یہ خلاف ورزیاں سلامتی کونسل میں نہیں لے جائی جا سکتیں؟اگر روس اور چین دونوں پاکستان کی طرفداری کریں اور سلامتی کونسل کے باقی تین اراکین (امریکہ، برطانیہ اور فرانس) کابل سے امریکی ٹروپس کے انخلاء کی مجبوری کی بنا پر کشمیر میں سابق سٹیٹس بحال کروانے کی قرارداد پاس کروا لیں تو شائید کچھ نہ کچھ دال دلیا، کشمیریوں کے حق میں ہو جائے اور پاکستان کو بھی مغربی بلاک کی طرفداری کا کوئی جواز ہاتھ آ جائے۔ بصورتِ دیگر اگر امریکی فوج گزشتہ18،19 برس تک افغانستان میں رہ سکتی ہے تو اسے مزید دو چار برس وہاں رکھا جا سکتا ہے،آنے والے افغان صدارتی الیکشنوں کو سبوتاژ کیا جا سکتا ہے اور طالبان کو امریکی ٹروپس اور افغان سیکیورٹی فورسزANA) اور(ANP کے خلاف زیادہ خونریزیوں پر اُکسایا جا سکتا ہے۔جہاں تک مَیں دیکھ رہا ہوں، پاکستان کو اسی فارمولے پر عمل پیرا ہونا پڑے گا۔ یہ ایک مشکل گیم ہے لیکن اس کو کھیلنے کے سوا پاکستان کے پاس اور چارہ بھی نہیں۔داخلی محاذ پر ہمیں بھارتی جارحانہ کارروائیوں پر ابلاغی واویلے سے گریز کی پالیسی اختیار کرنی چاہیے۔ جو کچھ کرنا ہے، اسے خاموشی سے کرنا بہتر ہو گا نہ کہ صبح و شام ٹاک شوز کے میلے ٹھیلے لگانے سے ……فی الحال ہمیں 26اور 27فروری کی طرح انڈین موو (Move) کا انتظار کرنا چاہیے اور کسی بھی قسم کے جارحانہ اقدام کو ہر گز اختیار نہیں کرنا چاہیے …… کیا تائیوان کی مثال ہمارے سامنے نہیں؟ یہ ملک، چین کا اٹوٹ انگ ہے لیکن چین اس کو واپس لینے کا انتظارکر رہا ہے۔(اور گزشتہ 70برس سے یہ انتظار جاری ہے) شائد چین، پاکستان کو بھی یہ مشورہ دینا چاہے گا کہ اسے تائیوان کی مثال پر غور کرنا چاہیے۔ مقبوضہ کشمیر میں انڈین فورسز جو ظالمانہ کارروائیاں کر رہی ہیں ان سے کشمیر کی تحریک آزادی کو توانائی مل رہی ہے۔ اگر کشمیریوں نے آج تک ایک لاکھ شہیدوں کی قربانی دی ہے تو ان کو اب اپنی سٹرٹیجی میں تھوڑی سی تبدیلی کرنا ہوگی۔ اگر پاکستان نے انڈیا کو نیچا دکھانا ہے، اگر اسے اپنی ہٹ دھرمیوں کی سزا دینی ہے اور اگر کشمیری حریت پسندوں کی مدد کرنی ہے تو کشمیر کی تحریک آزادی کو جنوب کی طرف سرکانا اور کھسکانا (Trickle Down) ہو گا۔ یہ اس تحریک ِ حریت کا گویا دوسرا مرحلہ (Phase) ہو گا۔ شائد پاکستان نے بھی اس پر کئی بار سوچا ہو گا لیکن اگر مقبوضہ کشمیر کے علاوہ پورے ہندوستان میں مسلمانوں کی آبادی، پاکستان کی آبادی سے زیادہ بن جاتی ہے تو اس آبادی کو بھی ’بیدار‘ کرنا ہو گا۔ محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ وغیرہ اگر آج یہ کہہ رہے ہیں کہ اگست 1947ء میں انہوں نے انڈیا کے ساتھ رہنے کی جو آپشن اپنائی تھی وہ ان کی غلطی تھی تو سارے ہندوستان کے مسلمانوں میں بھی اس ”غلطی“ کا احساس اجاگر کرنے کی ضرورت ہے اور یہ کام خاموشی سے کرنے کا ہے،اس کا ڈھنڈورہ نہ پیٹا جائے۔ ہمیں یاد ہے کہ مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے کی تحریک 1971ء سے کہیں پہلے شروع کر دی گئی تھی۔ یہ درست ہے کہ اگر کل کلاں خالصتان کی تحریک کو پنپنا ہے تو اس کو ایک نئی سٹرٹیجی میں ڈھالنا پڑے گا۔ خیال ہے کہ پاکستان کے انٹیلی جنس حلقے اس آپشن پر کئی بار غور کر چکے ہوں گے اور شائد تھوڑی بہت پیشرفت بھی اس حوالے سے ہو چکی ہو گی لیکن کشمیرکی موجودہ صورتِ حال کا پاکستانی ردعمل زیادہ ”چیخ پکار“ کی اجازت نہیں دیتا۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ بین الاقوامی برادری اس سلسلے میں مہر بہ لب ہے۔ ان کی شدید خواہش ہے کہ دو نیو کلیئر ہمسایوں میں کوئی مسلح تصادم ہوتا کہ ان کے وہ اسلحہ کارخانے جو نسبتاً آج کل خسارے میں جا رہے ہیں، چالو رہیں اور یہ تبھی ممکن ہے اگر دنیا میں کہیں نہ کہیں، چھوٹی بڑی جنگ یا مسلح تصادم برپا ہوتا رہے۔ اندریں حالات کشمیر ایشو کو زیادہ بلواپ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ میڈیا کے کرتا دھرتاؤں کی ایک ”خفیہ کانفرنس“ بُلا کر ان کو بریفنگ دینے کی از بس ضرورت ہے۔ اگر یہ بریفنگ طشت از بام بھی ہو جائے تو اس میں کیا ہرج ہے؟ اس بریفنگ کے دو مرحلے ہونے چاہئیں …… ایک خاموش رہنے کا مرحلہ اور دوسرا تحریک آزادی کو کشمیر کے جنوب کی راہ سے پورے ہندوستانی مسلمانوں میں پھیلانے کا مشورہ جو طویل تر بھی ہو گا اور صبر آزما بھی!