لاہور (ویب ڈیسک) نواز شریف ان کی صاحبزادی،داماد کیپٹن صفدر کو ملی ریلیف سو فیصد قانونی ہے۔اس میں کوئی ڈیل ہے نہ ڈھیل۔ نواز شریف کسی بھی قسم کی ڈیل کے موڈ میں نہیں۔ اور ڈھیل دینا یا اس کے متعلق سوچنا بھی کم از کم حکومت وقت کے اختیار میں ہے نہ بس میں۔
نامور کالم نگار طارق محمود چوہدری اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ ایک بڑی سیاسی جماعت کو ممکنہ حد تک ریلیف دینے میں حکومت وقت کو کیا فائدہ ہو سکتا ہے۔ اتنا ویژن حکومتی ٹیم میں ہوتاتو صرف ایک ماہ میں 5 سالہ دور کے اختتام کی طرح کیوں لگتی؟ نواز شریف، ان کی صاحبزادی ان کا مستقبل کا سیاسی اثاثہ ہیں۔ وہ فی الحال جاتی امرا کی وسیع و عریض رہائش گا ہ میں پڑاؤ ڈالے ہوئے ہیں۔ یہ بات نواز شریف کو بہت واضح طور پر معلوم ہے کہ ان کو ایک منٹ بھی سکون سے نہیں بیٹھنے دیا جائے گا۔ گزشتہ اڑھائی سال کی سرمایہ کاری اس لیے تو نہیں کی گئی کہ وہ آزاد شہری کے طور پر میدان سیاست میں فاتحانہ گھوم پھر سکیں۔حکومتی ٹیم ان کے سیاسی مخالفین پوری شدت کیساتھ جوابی وار کرینگے۔ یہ چند روز کا وقفہ لڑائی کے اگلے مرحلے سے پہلے عارضی تعطل ہے۔صف بندی کیلئے تیاری کی غرض سے۔ حکومتی ترجمان تو علی لاعلان کہہ چکے ہیں کہ ان کو وہیں پہنچایا جائے گا جہاں سے وہ نکلے تھے۔ یعنی اڈیالہ جیل۔ حکومتی تیاریاں بتاتی ہیں کہ معاملہ اس ایون فیلڈ فلیٹس کے ریفرنس پر ہی نہیں رے گا۔اس معاملہ میں تو نیب،سپریم کورٹ جانے کا اعلان کر چکی ہے۔
نیب کی پراسیکیوشن اس معاملہ میں اب اپنی پٹاری سے کونسا نیا سانپ نکالے گی۔یہ تو معلوم نہیں۔لیکن اس کیس کی سماعت کی مکمل کاروائی کو فالو کرتے ہوئے ایک بات تو قانون سے قطعی ناواقف شخص بھی سمجھ سکتا ہے کہ مقدمہ ان تلوں کی مانند ہے جن سے تیل نہیں نکل سکتا۔پانامہ کی داستان منظر عام پر آنے کے بعد تمام مراحل کو بغور دیکھا جائے تو کہانی تو بہت اچھی ہے۔لیکن سٹوری کچھ بھی نہیں۔ سپریم کورٹ میں مقدمہ چلا تو کئی ماہ کی بحث کے بعد جے آئی ٹی بنی۔جے آئی ٹی کی تحقیقات سے جو کچھ نکلا اس پر نیب کا ریفرنس دائر ہوا۔لیکن نواز شریف کی نااہلی اقامہ رکھنے اور اپنے صاحبزادے سے تنخواہ نہ لینے پر ہوئی۔ بہر حال وہ اعلیٰ ترین عدالت کا فیصلہ تھا جس کا احترام واجب ہے۔ پھر نیب عدالت میں کئی ماہ مقدمہ چلا۔ نواز شریف، مریم نوازاور ان کے شوہر 90سے زائد مرتبہ پیش ہوئے۔ فیصلہ آیا تو تینوں ملزمان کو سزا مل گئی۔ فیصلہ سامنے آیا تو عدالتی فیصلہ میں بتایا گیا کہ کرپشن تو ثابت نہ ہوئی۔البتہ آمدنی سے زائد اثاثے بنانے پر سزا سنائی گئی۔ یعنی آدھا الزام تو پہلے مرحلہ میں ہی ختم ہو گیا۔ عدالتوں، کچہریوں میں شب وروز رہنے والے جانتے ہیں کہ ایک ہی مقدمہ میں نصف الزام ثابت نہ ہو سکیں تو آخر کار قانونی فائدہ ملزمان کو ہی ملتا ہے۔
جلد یا بدیر۔ قانون ماہرین کا موقف ہے کہ مریم نواز اور کیپٹن صفدر کو عدالتی ریلیف بہت پہلے مل جانی چاہیے تھی۔ لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ وجوہات ناگفتنی ہیں۔ شائد نواز شریف سے بھی بڑا ٹارگٹ مریم نواز ہے۔ کیوں؟ اس پر بات چیت ہوتی رہے گی۔ ملزم جو عدالتی فیصلے کے بعد مجرم بن چکے تھے۔ ان کی اپیل پر بحث بھی کئی ماہ لگے۔ خواجہ حارث نے نیب کی پراسیکیوشن ٹیم کے گرد جرح کا ایسا حال بنا کہ کئی مواقع پر تو یوں لگتا تھا کہ وہ مقدمہ چھوڑ کر بھاگ جائینگے۔ لیکن کوئی راہ فرار نہ تھی۔ فیصلہ آنے میں تاخیر تو ہوئی۔ لیکن کچھ بھی غیر متوقع نہ تھا۔ فائنل ججوں نے فیصلہ میرٹ پر کیا۔پراسیکیوشن نے بھی بھر پور زور لگایا۔لیکن جے آئی ٹی کی تفتیش میں کوئی جان نہ تھی۔ یوں لگتا ہے کہ جے آئی ٹی نے ادھر اْدھر سے شواہد، دستاویزات جمع کیں۔ ان کو قانونی شہادت کی کسوٹی پر پرکھے بغیر مال مقدمہ بنا دیا۔ لہٰذا انجام تو یہی ہونا تھا۔ اب نیب یہ مقدمہ بطور اپیل سپریم کورٹ میں لے جائے گا۔ دوسری جانب ہائی کورٹ نے سزا معطل کر کے اپیل سماعت کیلئے منظورکر لی ہے۔ اگلا پراسس قانونی ہے۔ اداروں پر اعتماد،احترام کا تقاضا ہے کہ وقت کا انتظار کیا جائے۔دیکھنا یہ ہے کہ نیب اپنے موقف کے حق میں کیا نئے شواہد لیکر آتا ہے۔ ادھر اْدھر سرگوشیوں میں والیم ٹن کا تذکرہ ہے۔
سامنے آئیگا تو حقائق کا پتہ چلے گا۔ لیکن نواز شریف اور ان کے اہل خانہ کو ابھی بہت کچھ ایسا ہے جس کا سامنا ابھی کرنا ہو گا۔نیب کے دو ریفرنس تو ابھی زیر سماعت ہیں۔ لیکن اس میں فرق صرف اتنا ہے کہ ان دونوں ریفرنسوں میں مریم نواز،صفدر ملزم نہیں۔ لیکن کچھ اور معاملا ت بھی ہیں۔پرانی فائلوں سے گرد جھاڑ پونچھ کر کے ملتان ایئر پورٹ پر ڈان کو دیا گیا انٹر ویو بھی واپس ٹیبل پر آ گیا ہے۔ اس حوالے سے کوئی تحقیق بھی چل رہی ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے سزا معطلی پر فیصلہ سنائے جانے سے پہلے دو روز مارکیٹ میں پرانے ساتھی مل گئے۔ کبھی بیرون ملک اکھٹے سفر بھی کیا تھا۔ ذرا جلدی میں تھے۔گلے ملتے ہی کہنے لگے دو روز بعد کوئی واپس آ رہا ہے۔ کتنے عرصے کیلئے۔کیوں؟ یہ نہیں بتا سکتا۔ اتنا بتا کر یہ جا وہ جا۔ خبر سن کر طبیعت خوش ہوئی کہ کینڈا سے حضرت شیخ شعبدہ تشریف لا رہے ہیں۔حضرت شیخ الاسلام واپس آ کر ہلکی سی جلوہ نمائی کے بعد خاموش ہیں اشارہ ہوتے ہی منظر عام پر آئینگے۔، شہدائے ماڈل ٹاؤن کیلئے حصول انصاف کی غرض سے نشانہ براہ راست شہباز شریف کے ساتھ نواز شریف کو بھی بنایا جا سکتا ہے۔
سو نواز شریف کو ملی ریلیف عارضی ہے۔ یہ بات وہ بھی جانتے ہیں۔ لہٰذا وہ اس وقفہ سے جو کوئی نہیں جانتا کہ کتنے عرصہ کا ہے۔بھر پور فائدہ اٹھا ئینگے۔ ان کی سوچ شہباز شریف سے مختلف ہے۔ وہ اب نفع و نقصان سے بے نیاز ہو چکے۔ ان کے پاس کھونے کیلئے نقد جان کے سوا کچھ بھی نہیں۔اور جاں تو اک روز جانی ہی ہوتی ہے۔ ان کی حکومت دو سال پہلے چھن گئی۔ ان کی جماعت پر مذہبی جنونیوں نے شاتم رسول ہونے کے الزام بھی لگا دیئے۔ سیاست سے وہ ہمیشہ کیلئے نااہل ہو گئے۔ اپنی سیاسی جماعت کے وہ سربراہ بھی نہیں بن سکتے۔ عزیز از جان اہلیہ کی تیمار داری کا حق بھی ان کو نہ ملا۔ ان کی اسیری کے دوران رفیق حیات کینسر سے لڑتے لڑتے ہار گئی۔ پنجاب میں اکثریت کے باوجود ان کی جماعت حکومت نہ بنا سکی۔ لہٰذا اب ان کا نصب العین عارضی وقفہ سے فائدہ اٹھا کر ایک ایسا الائنس قائم کرنا ہو گا۔ جو کہ حکومت کو ٹف دے سکے۔ اسیری کے دوران بھی ان کا یہی پیغام تھا کہ ہر طرح کی قربانی دیکر اپوزیشن کو متحد کیا جائے۔ یہ معاملہ ففٹی ففٹی رہا۔جزوی کامیابی جزوی ناکامی حکومت اپنے اتحادیوں کی سپورٹ کے کمزور دھاگے کے سہارے لٹکی ہوئی۔۔مہنگائی کا طوفان غریب کے کمزور کو اڑو ں کوتوڑ دینے کے درپے ہے۔ سیاسی سفارتی محاذوں پر غلطیاں کی جا رہی ہے۔ اتحادی آنکھیں دکھا رہے ہیں۔ ایسے میں نواز شریف، مریم صفدر نے چند عوامی دورے بھی کر لیے تو دباؤ حکومت پر ہو گا۔ نواز شریف اپوزیشن کو متحد کرنے میں کامیاب ہو گئے تو یہ فیصلہ مشکل ہو جائے گا کہ نواز شریف جیل کے اند ر یا باہر کسی حالت میں زیادہ خطر ناک ہے۔