سرمایہ دارانہ نظام کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ وہ 90فیصد غریب اکثریت کو دو وقت کی روٹی کے حصول کی جدوجہد میں اس قدر مصروف کردیتا ہے کہ وہ اس ظلم کے خلاف سوچنے سمجھنے سے بھی محروم ہو جاتے ہیں اور دوسری طرف مٹھی بھر ایلیٹ یعنی اشرافیہ کو قومی دولت کی لوٹ مار کی کھلی آزادی دے دی جاتی ہے اور اس لوٹ مار کو جمہوریت کے پردے میں چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اشرافیہ کی اس لوٹ مار کو اقتدار بڑی حد تک تحفظ فراہم کرتا ہے۔ پاکستان میں 70 سال سے یہ سلسلہ بغیر روک ٹوک کے جاری ہے۔
اس آزادی کے بے حجابانہ استعمال کی داستانیں جب میڈیا میں آنے لگیں تو ایک ریاستی ادارے نے اس لوٹ مار کے خلاف اقدامات شروع کیے ان اقدامات کو برسر اقتدار طبقے نے جمہوریت دشمنی کا نام دے کر عدلیہ کے خلاف ایک سخت اور توہین آمیز مہم شروع کر دی اور دن رات اخلاقیات کو پس پشت ڈال کر یہ الزام تراشی شروع کر دی کہ یہ احتساب نہیں بلکہ جمہوریت کے خلاف ایک گہری سازش ہے اور اس مہم میں یہ الزام بھی لگایا جانے لگا کہ ’’نادیدہ قوتیں‘‘ اس سازش میں شریک ہیں۔
جمہوریت کے حوالے سے ہمارے ملک کا اہل علم اور اہل قلم طبقہ دو حصوں میں بٹا ہوا ہے، ایک حصہ دانستہ یا نادانستہ اس حکمرانی موقف کی تائید کر رہا ہے کہ یہ احتساب نہیں بلکہ جمہوریت کے خلاف سازش ہے اور اہل علم اہل قلم کا دوسرا حصہ اول تو رائج الوقت جمہوریت کو جمہوریت نہیں مانتا بلکہ اسے ایسی اشرافیائی جمہوریت سمجھتا ہے جس کا پہلا اور آخری مقصد قومی دولت کی بے محابا لوٹ مار ہے۔ اس لوٹ مار کے نظام کو روکنے کی کوششوں کی وہ حمایت کرتا ہے کہ کسی طرح تو لوٹ مار کا یہ سلسلہ رک سکے۔
اس حوالے سے پہلی بات یہ ہے کہ کیا ہمارے ملک میں 1988ء سے جو جمہوریت کارفرما ہے یا اس سے پہلے کارفرما رہی ہے، کیا اسے جمہوریت کہا جا سکتا ہے؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لیے خود اس جمہوریت کے سرپرستوں کی جمہوری تعریف و وضاحت کا حوالہ دینا ضروری ہو جاتا ہے۔ جمہوریت کے پاسبانوں نے جمہوریت کی تعریف اس طرح کی ہے ’’عوام کی حکومت، عوام کے لیے، عوام کے ذریعے‘‘ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہماری جمہوریت اس معیار پر پوری اترتی ہے؟ اس سوال کا جواب بلا توقف نفی ہی میں دیا جا سکتا ہے۔
بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارا وہ طبقہ جو رائج الوقت جمہوریت کی یہ کہہ کر حمایت کرتا ہے کہ ’’لنگڑی، لولی جمہوریت آمریت سے بہتر ہوتی ہے‘‘ اس سوال کا جواب دینے سے گریزاں رہتا ہے کہ اس لولی لنگڑی جمہوریت کا انت کیا ہو گا؟ کیا 70 سال اس لولی لنگڑی جمہوریت کی جگہ ایک صحت مند جمہوریت کے آنے میں کافی نہیں؟ کیا یہ لولی لنگڑی جمہوریت کو صحت مند جمہوریت میں بدلنے کے لیے صدیاں درکار ہیں؟ کیا اس ملک کے مغلوب عوام صدیوں تک تندرست ہاتھ پیر والی جمہوریت کا انتظار ہی کرتے رہیں گے۔
ہمارے سیاستدان فرماتے ہیں کہ ملک کی عمر کا نصف حصہ فوجی حکومتوں نے لے لیا باقی مختصر عرصے میں سیاستدان کیا کرسکتے ہیں؟ یعنی ہمارے سیاستدانوں کا موقف یہ ہے کہ عوام کے مسائل اس لیے حل نہ ہو سکے کہ 30 سال سے زیادہ وقت فوجی حکمرانی میں گزر گیا۔ بجا ارشاد، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون سی فوجی حکومت رہی جس کا حصہ سیاستدان نہیں بنے؟ ایوب خان کی حکومت پہلی فوجی حکومت تھی اور دلچسپ اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ایوب خان کو ہمارے سیاستدانوں نے کنونشن لیگ بناکر سہارا دیا اور اس کی حکومت کا حصہ بنے۔ اس حوالے سے دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان میں عوامی بیداری کے روح رواں بھٹو ایک طویل عرصے تک ایوب خان کی حکومت کا حصہ رہے بلکہ وزارت خارجہ جیسی اہم وزارت پر قابض رہے۔
1977ء میں جب فوجی حکمران ضیا الحق نے بھٹو کو اقتدار سے الگ کر کے پھانسی پر لٹکا دیا تو ملک کی سب سے بڑی جمہوری تحریک کے روح رواں ضیا الحق کی حکومت میں شامل ہو گئے۔ آئیے ذرا اور آگے چلتے ہیں۔ 1999ء میں جب پرویز مشرف نے نواز حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کر لیا تو مسلم لیگ (ق) بناکر جنرل (ر) پرویز مشرف کو کس نے بیساکھیاں فراہم کیں اور اس کی حکومت میں شامل ہو گئے؟
سیاستدانوں کی ان دوغلی پالیسیوں کا ذکر ہم نے اس لیے کیا کہ ہمارے سیاستدان یہ عذر پیش کرتے ہیں کہ فوجی حکومتوں نے انھیں عوام کے مسائل حل کرنے کا موقع ہی نہیں دیا۔ بلدیاتی نظام جمہوریت کی اساس ہوتا ہے، اسے بدقسمتی کہیں یا اشرافیہ کی بددیانتی کہ کسی جمہوری حکومت نے کبھی بلدیاتی انتخابات کرانے کی زحمت نہیں کی بلکہ فوجی حکومتوں کے دور ہی میں بلدیاتی انتخابات کرائے گئے۔ عوام اور میڈیا کے شدید دباؤ کی وجہ سے ہماری موجودہ حکومتوں نے بلدیاتی انتخابات تو کروائے لیکن انھیں انتظامی اور مالی اختیارات دینے کے لیے تیار نہیں۔
ان سارے حوالوں اور جوازات کے پیش کرنے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ جمہوریت غلط نظام ہے اور اس کی کوئی افادیت نہیں۔ بلاشبہ جمہوریت دنیا کی سیاسی تاریخ کی ایک ترقی یافتہ شکل ہے لیکن ہماری اجتماعی بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے ملک میں کبھی وہ عوامی جمہوریت رہی ہی نہیں جس کی تعریف اور وضاحت جمہوریت کے مفکرین نے کی ہے۔ ہمارے ملک میں تو ہمیشہ وہ اشرافیائی جمہوریت ہی رہی جس میں برسر اقتدار طبقات اپنا سارا وقت لوٹ مار ہی میں گزارتے رہے۔ اگر اب پہلی بار کوئی ادارہ اس لوٹ مار بلکہ بے لگام لوٹ مار کی ناک میں نکیل ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے تو اس کے خلاف ایک طوفان بدتمیزی برپا کیا جا رہا ہے۔
ہاں، یہ بات بالکل درست ہے کہ احتساب کا دائرہ ایک خاندان تک محدود نہیں ہونا چاہیے اگر ایسا ہوا تو اسے انتقامی کارروائی کا نام دیا جا سکتا ہے اور اس الزام کی تردید نہیں کی جا سکتی۔ ہونا یہ چاہیے کہ ان تمام اہل سیاست کے خلاف انتہائی غیر جانبداری سے تحقیق کی جائے کہ ان کے اندرون ملک اور دوسرے ملکوں میں کتنے اثاثے ہیں، بینکوں میں کتنی رقوم ہیں، بیرون ملک اور اندرون ملک ان کی کتنی جائیدادیں ہیں اور یہ کس طرح بنائی گئی ہیں؟ یہ اقدامات کسی حوالے سے بھی جمہوریت کے خلاف نہیں بلکہ اس اشرافیہ کے خلاف ہیں جس نے جمہوریت کے نام پر 70 سال سے ملک میں لوٹ مار کا بازار گرم کیا ہوا ہے اور عوام کے گلے میں معاشی استحصال کی ایسی رسی ڈال دی ہے کہ عوام کا دم گھٹنے لگا ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ اگر احتساب غیر جانبدار اور بلاامتیاز ہوا تو ملک میں ایسی عوامی جمہوریت قائم ہو سکتی ہے جو عوام کی ہو عوام کے لیے ہو۔