ینگون: میانمار میں تقریباً ایک ہفتے سے جاری خانہ جنگی کے نتیجے میں اب تک کم از کم 104 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
میانمار میں بدھ مت کے پیروکار اکثریت میں ہیں لیکن وہاں کی شمالی ریاست راکھین میں تقریباً 10 لاکھ آبادی روہنگیا مسلمانوں کی بھی ہے۔ میانمار کی حکومت ان لوگوں کو اقلیت کی حیثیت دینے کےلیے تیار نہیں اور نہ ہی وہ قانونی طور پر میانمار کے شہری تصور کیے جاتے ہیں۔ اسی لیے میانمار حکومت کی جانب سے راکھین میں آئے دن مسلمانوں کے قتلِ عام اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی خبریں آتی رہتی ہیں۔ البتہ اس حوالے سے اقوامِ متحدہ سمیت ساری دنیا کا ردِعمل زبانی جمع خرچ سے آگے نہیں بڑھ پاتا۔
خبروں سے پتا چلتا ہے میانمار میں خانہ جنگی کا یہ نیا سلسلہ جمعہ 25 اگست سے شروع ہوا ہے جس کے بارے میں میانمار حکومت کا کہنا ہے کہ ملک کے مغربی حصے میں بنگلا دیشی سرحد کے قریب فوجی چوکیوں پر روہنگیا عسکریت پسندوں نے دھاوا بول دیا تھا لیکن میانمار کی فوج نے ان میں سے بیشتر حملہ آوروں کو ہلاک کردیا تھا۔ اس کے برعکس میانمار میں روہنگیا حقوق کے علمبرداروں نے الزام لگایا ہے کہ میانمار کی حکومت نے شہریوں کو قتل کیا ہے اور ان کے گھر بھی نذرِ آتش کیے ہیں۔ اقوام متحدہ نے بھی روہنگیا کے خلاف میانمار کی فوجی کارروائیوں پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا ہے۔ اقوامِ متحدہ کا کہنا ہے کہ اس کی تحقیقات کے مطابق روہنگیا آبادی کے خلاف سرکاری فوج کی کارروائیوں کو نسل کشی قرار دیا جاسکتا ہے۔
عالمی خبر رساں ایجنسی روئٹرز نے میانمار حکومتی ذرائع کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق صرف دو روز میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 104 بتائی ہے۔ یاد رہے کہ 2016 میں میانمار کی ریاست راکھین میں شروع ہونے والے پر تشدد واقعات اور روہنگیا کے خلاف اقدامات کے بعد سے اب تک 87 ہزار سے زائد روہنگیا مسلمان اپنی جانیں بچا کر بنگلا دیش میں پناہ لے چکے ہیں۔