ایک تھا حکمران مسمی ضیاء الحق ہمارے ملک کے نام نہاد ترقی پسند اس کے ’’دشمن‘‘ تھے۔ ان کے اختیار میں ہوتا تو اسے قتل کر دیتے اور اپنے ایک لیڈر کی طرح سولی پر چڑھا دیتے کیو نکہ وہ ان کی ترقی پسندی کو قبول نہیں کرتا تھا جب کہ دوسرے حکمران گذشتہ اور حاضر سب ہی اس کے مداح تھے اس لیے کہ اس کے پاس ان کی مداحی حاصل کرنے کے بے شمار ذرایع موجود تھے اور وہ پاکستان کو پاکستان بنانے کے لیے اپنے اقتدار کو جی بھر کر استعمال کرتا تھا ۔
اس کی خاص محفلوں میںجو گفتگو ہوا کرتی تھی اس کا مرکزی نقطہ یہ تھا کہ یہ ملک کسی سوویت یونین کی ترقی اور کسی ترقی پسند تحریک کی پرورش کے لیے نہیں بنایا گیا، یہ مسلمانوں نے بنایا تھا اور ان میں کوئی بھی ترقی پسند نہیں تھا سب صرف مسلمان تھے اور انھوں نے یہ ملک اپنے نظریات کی ترقی کے لیے بنایا تھا اور اس کی راہ میں مقابلے کے مخالفانہ ہر معرکے میں حصہ لیا۔ اتفاق اور خوش قسمتی سے اسے کئی مسلمان حکمران بھی ایسے مل گئے جو ایک اسلامی ملک اور اسلامی نظریات کے حامی تھے اور ان نظریات کی حمائت میں اپنی نجات سمجھتے تھے چنانچہ انھوں نے اس حکمران اور اسلام سے وابستہ نظریات کی دل کھول کر حمائت کی اور اس میں وقت کے مطابق کئی تکالیف بھی اُٹھائیں جن سے وہ سرفراز ہوئے تھے۔
ان کا مقصد صرف یہ تھا کہ وہ اسلامی نظریات کی حمائت کریں باقی کام وقت کا حکمران خود کر لیتا تھا اور اس نے اس طرح کے کئی ایسے ’’ترقی پسند‘‘پال رکھے تھے جو اس کی حمائت کرتے تھے یعنی اس کے ترقی پسند نظریات کو سامنے لے آتے جب کہ ان کے مقابلے میں کچھ قلمکار بھی ایسے تھے جو کھل کر اور دلیل کے ساتھ ان کی مخالفت کرتے تھے ۔ان کے پاس اگرچہ پاکستان کا ماضی اور اس کی تاریخ تھی لیکن کچھ ترقی پسند کہلوانے والے نہ اس کی تاریخ کو مانتے تھے اور نہ اس کے نظریات کو لیکن ایک عجیب اتفاق ہوا کہ حکمرانی پر ایک ایسا شخص بیٹھ گیا جو ان ترقی پسندوں کے خلاف تھا اور اس اقتدار میں اسے بے پناہ مخالفت کا سامنا بھی کرنا پڑا اور آخر وقت تک پڑا تھا لیکن اس نے ہتھیار نہ ڈالے۔
یہ ضیاء الحق تھا ایک فوجی حکمران جو نظریات میں انتہائی سویلین تھا اور غیر فوجی اور ترقی پسند بھی اس سے بہت ناراض رہتے تھے لیکن وہ جما رہتا تھا ۔اس فوجی کو کئی نرم مشورے بھی دیے گئے لیکن وہ اپنے نظریات پر ڈٹا رہا اور پیش قدمی جاری رکھی۔ اس فوجی حکمران کی ایک ہی برائی کی جا سکتی ہے کہ اس نے بزور شمشیر اقتدار حاصل کیا تھا لیکن اس نے اپنی اس فوجی شمشیر کواپنے طویل دور اقتدار میں پاکستان کے دفاع کے لیے ہی استعمال کیا اور اقتدار سنبھالتے وقت نکالی گئی یہ شمشیر پھر واپس میان میں نہ جا سکی اور اس کو اپنے مضبوط نظریات کی وجہ سے شمشیر کے ساتھ ہی دنیا سے ہٹا دیا گیا۔
بطور انسان ہر ایک انسان میں خامیاں بھی ہوتی ہیں کیونکہ خامیوں سے مبرا صرف فرشتے ہیں اور جنرل ضیاء کوئی فرشتہ نہیں تھا لیکن فرشتہ صفت مسلمان اور محب وطن ضرور تھا جب تک وہ زندہ رہا ایک عظیم مسلمان کی حیثیت سے اور مسلمانوں کے لیڈر کی حیثیت سے زندہ رہا اس نے مسلمانوں کی حفاظت کا ذمہ بھی اُٹھایا اور دنیا کی سپر پاور سے بھی ٹکر لی، وہ ایک روائتی فوجی حکمران سے ہٹ کر تھا جس کو اس نے کئی مواقع پر ثابت بھی کیا خاص طور پر ازلی دشمن بھارت کے ساتھ تعلقات کو وہ اپنی شاطرانہ چالوں سے ہی جیتتا رہا اور دھمکیوں سے ہی ہندوؤں کے دلوں میں ایسا خوف بٹھا دیا کہ بھارت ایک بڑی فوجی قوت رکھنے کے باوجود جارحیت سے باز رہا ۔ ضیاء جب تک زندہ رہا اپنے دشمن کے لیے خطرناک ترین شخص رہا اور اس نے دشمن قوتوں کے لیے اپنی اس خطرناکی میں کمی نہیں آنے دی۔
یہ نمازی اور عبادت گزار فوجی جنرل ماضی کے بعض مسلمان جرنیلوں کی طرح تھا لیکن وہ ہر معرکے میں کامیاب رہا اور اس نے کسی میدان میں شکست نہیں کھائی ۔ وہ کسی فوجی زمانے اور معرکے میں پیدا نہیں ہوا تھا اس نے کسی جنگی فضاء میں آنکھ کھولی تھی اور فوجی قسم کی سرگرمیوں میں مصروف رہا لیکن اﷲ جانے اس کے دل میں نظریاتی جذبہ کہاں سے پیدا ہو گیا کہ وہ اس جذبے کی صداقت کے لیے لڑ پڑا اور واقعی لڑ مرا۔ ہمارے فوجی نوجوانوں میں شہداء کی کمی نہیں لیکن ان میں ضیاء نے ایک تاریخی اضافہ کر دیا جو اپنے نظریات کے نعرے لگاتا ہوا اس دنیا سے گزر گیا اور جاتے جاتے تاریخ بنا گیا اپنی سپاہ کی اور اپنی فوج کی جو اس مقصد پر پورا اتری جس کے لیے اسے قائم کی گیا تھا۔ فوجیں ہوتی تو جان لڑانے کے لیے ہیں لیکن جان لڑانے کا موقع ہر ایک کو نہیں ملتا ہے۔ خوش نصیب تھا یہ سپاہی جو دنیا کو اپنا نعرہ سناتے اور لگاتے ہوئے اس پر مر مٹا۔ یہ یاد رہے کہ وہ پاکستان کی تاریخ میں زندہ رہے گا اور اسلامی فوج کی تاریخ میں بھی ۔ یہ ایک خوش قسمت سپاہی تھا جو اس میدان میں اپنی جان فدا کر گیا ۔ زندہ باد جنرل ضیاء الحق، پاکستانی فوج کا ایک سپاہی۔ اس فوج کی عزت اور وقار۔