لاہور (ویب ڈیسک) چند روز قبل انتقال کر جانیوالے ایچی سن کالج کے معروف استاد میجر ڈگلس جیفری لینگ لینڈز آج کے وزیراعظم عمران خان سمیت بہت سے سیاستدان اور بیورو کریٹس کے استاد رہے ہیں ۔ ان میں سابق صدر فاروق لغاری، اعتزاز احسن، چوہدری نثار علی خان، سابق وزیراعظم ظفر اللہ خان جمالی، نامور مضون نگار آصف ڈار روزنامہ جنگ کے لیے اپنی ایک خصوصی تحریر میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اویس لغاری اور سیکڑوں دوسرے رہنما شامل ہیں۔ لاہور میں ان کو خراج تحسن پیش کرنے کےلئے 14؍اپریل2014ء کو ایک تقریب منعقد ہوئی تھی جس میں گورنر چوہدری سرور سمیت ایک ہزار کے قریب مہمانوں نے شرکت کی۔ ممتاز گلوکار راحت فتح علی خان نے اس تقریب میں اپنے فن کا مظاہرہ بھی کیا۔ برطانیہ سے بیرسٹر ہما پرائس، کرسٹیان بیکر، سانڈرا سٹرلی اور کئی دوسری کمیونٹی شخصیات نے اس تقریب کو رونق بخشی۔ میجر لینگ لینڈز نے انگریز ہوتے ہوئے بھی اپنی ساری زندگی پاکستان میں تعلیم کے فروغ میں لگا دی۔ پاکستان بننے کے بعد میجر لینگ لینڈز پاک فوج میں 6برس تک تعینات رہے۔ سابق صدرجنرل ایوب خان نے فوج سے ریٹائرمنٹ کے بعد میجر کو 1953ء میں ایچی سن کالج لاہور میں تعینات کر دیا جہاں وہ1979ء تک پڑھاتے رہے۔ اس دوران انہوں نے اپنی ذاتی زندگی اور آبائی وطن کے بارے میں کبھی سوچا ہی نہیں۔ میرے ساتھ انٹرویو کے دوران انہوں نے کہا کہ تعلیمی شعبے میں ان کا وقت کیسے گزر گیا انہیں معلوم ہی نہیں پڑا۔ نہ شادی کا سوچا، نہ کوئی جائیداد بنائی، نہ برطانیہ میں مقیم اپنے جڑواں بھائی کے پاس آئے بس وہ تھے اور پاکستان تھا ان سے جب پوچھا گیا کہ ان کو کسی سے محبت نہیں ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے ہمیشہ تعلیم سے محبت کی ہے۔ البتہ ایک پاکستانی عورت انہیں اس لئے دل دے بیٹھی تھی کہ چونکہ وہ انگریز ہیں اور اگر دونوں کی شادی ہوگئی تو وہ اسے برطانیہ لے جائیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے اس عورت کو صاف طور پر بتا دیا تھا کہ وہ پاکستان کو چھوڑ کر کبھی نہیں جائیں گے تو وہ انہیں چھوڑ کر چلی گئی۔ ایچی سن کالج کے حوالے سے انہوں نے کئی شاگردوں کا میر ےساتھ تذکرہ کیا اور بتایا کہ اس وقت جتنے بھی بڑے سیاستدان یا بیورو کریٹس ہیں وہ ان کے شاگرد ہیں، ان میں سے کئی ایک نالائق بھی تھے مگر انہوں نے اپنی عملی زندگی میں جاکر خود کو بہت منوایا، میجر صاحب62سال کی عمر میں ایچی سن کالج سے ریٹائر ہوگئے مگر چونکہ تعلیم ان کی رگ و پے میں رچی بسی تھی اس لئے انہوں نے اس سلسلے کو جاری رکھا اور 1979ء سے 1989ء تک دس سال رزمک کیڈٹ کالج میں نوجوانوں کو تعلیم دی۔ انہیں پاکستان کے پسماندہ علاقوں میں تعلیم کے نہ ہونے پر سخت رنج و غم تھا۔ خصوصاً ان علاقوں میں لڑکیوں کو تعلیم نہ دیئے جانے پر وہ سخت نالاں تھے، چنانچہ انہوں نے اپنا اگلا مشن چترال میں اپنے نام سے سکول قائم کرکے پورا کیا۔ اس مقصد کے لئے انہوں نے چترال کے لوگوں کو اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ لڑکیوں اور لڑکوں کو تعلیم دیں۔ اس میں انہیں اہستہ آہستہ کامیابی بھی ملی اور لوگوں نے اپنے بچوں کو بالآخر سکول بھیجنا شروع کیا۔ وہ آخری دم تک اس سکول کے ساتھ وابستہ رہے تاہم آخری چند برس میں انہوں نے اس سکول میں ایک انگریز کو پرنسپل تعینات کیا اور خود ایچی سن کالج کے بہاولپور ہائوس کے اس فلیٹ میں رہنے لگے جو حکومت نے انہیں دے رکھا تھا۔ وہ گذشتہ برس تقریباً کوما میں چلے گئے تھے 21؍ اکتوبر کو اپنی سالگرہ پر وہ خود ہوش میں نہیں تھے۔101 برس کی عمر میں ان کا انتقال ہوا اور یہ سارے برس انہوں نے پاکستان کو تعلیم یافتہ ملک بنانے میں صرف کئے۔ ان کے شاگردوں کی ایک طویل فہرست ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے پاکستان میں تعلیم اور دوسرے شعبوں میں ترقی کرنے کے مواقع اور اختیارات بھی دیئے مگر انہوں نے میجر لینگ لینڈز کے مشن کو اس طرح نہیں لیا جس طرح وہ چاہتے تھے میجر صاحب کے بارے میں مغربی میڈیا میں بہت کچھ شائع کیا گیا ہے وہ اپنی نوعیت کے منفرد انسان تھے جنہوں نے پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کو اپنا وطن بنانا پسند کیا۔ انہوں نے برطانیہ کی تمام تر رعنائیوں کو چھوڑ دیا۔ ایسی عمر میں جب برطانیہ کے انگریزوں کی اکثریت موج مستی کرتی ہے۔ انہوں نے اپنے لئے ایک ایسے مشن کا انتخاب کیا جو بظاہر ناممکن نظر آتا تھا اپنی ادھیڑ عمری میں وہ پاکستان کے دشوار ترین علاقوں میں گئے، زندگی کے کئی قیمتی برس سہولیات اور آسائشوں کے بغیر گذارے مغربی میڈیا کو اس بات پر حیرت تھی کہ آخری پاکستان میں ایسا کیا ہے کہ میجر صاحب اسے نہیں چھوڑ رہے۔ مگر انہوں نے تعلیم کو اپنا مشن بناکر ثابت کیا کہ ایک شخص حالات کو تبدیل کرسکتا ہے۔ پاکستان کے لئے میجر صاحب کی خدمات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ آج وہ اس دنیا میں نہیں رہے اور اس وقت بھی ان کے شاگردوں کی بڑی تعداد وزیراعظم عمران خان سمیت اعلیٰ عہدوں پر فائز ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ میجر لینگ لینڈز نے پاکستان کو جو کچھ دیا اس کے جواب میں تھوڑا بہت پاکستان کی حکومت اور عوام بھی کرے، پہلے تو یہ ہونا چاہئے کہ ان کو سرکاری اعزاز کےساتھ سپرد خاک کیا جائے اور ان کی آخری رسومات کو ان کے شایان شان ادا کیا جائے کیونکہ ان کی آخری رسومات میں مغربی میڈیا بھی موجود ہوگا اور ساری صورتحال کو مانیٹر کیا جائے گا۔ دوسرا یہ کہ کسی یونیورسٹی کو میجر صاحب کے نام سے منسوب کیا جائے۔ ان کے نام پر تعلیمی فنڈ قائم کیا جائے اور تعلیم کے شعبے میں ان کے نام سے ایوارڈز کا سلسلہ شروع کیا جائے جس شخص نے اپنی ساری زندگی پاکستان کو دی، اس کیلئے پاکستانیوں کو بہت کچھ کرنا چاہئے۔