اتر پردیش (یو پی) کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے کہا ہے کہ وہ ہر مہینے پانچ دن کی چھٹی پر جایا کریں گے تا کہ گورکھناتھ مندر میں مہنت یعنی پجاریوں کے سربراہ کی حیثیت سے اپنے فرائض ادا کر سکیں۔ ٹیلی ویژن نیٹ ورکس نے اس تقریر کا یہ حصہ صرف ایک مرتبہ نشر کیا۔ یا تو بی جے پی نے ٹی وی چینل پر دباؤ ڈالا ہو گا کہ یہ خبر ہٹا لی جائے یا پھر وزیراعلیٰ خود ہی اتنے شرمسار ہوئے ہونگے کہ انھوں نے اپنا بیان واپس لے لیا۔ یہی وجہ ہو سکتی ہے کہ یہ تقریر صبح کے اخبارات میں شایع ہونے سے بھی محروم رہی۔
جوگی آدتیہ ناتھ نے جو کہا ہے وہ یہ ہے کہ وہ ریاست کے وزیراعلیٰ کے ساتھ ساتھ پجاریوں کے سربراہ یعنی مہنت کے طور پر بھی اپنی ذمے داریاں ادا کرتا رہے گا۔ لیکن یہ بات صرف عوام کو بتانے کے لیے کہی گئی ہے۔ بصورت دیگر وہ پہلے ہی مہنت کے طور پر کام کر رہا ہے۔ البتہ ایک چیز جو کہ باعث تشویش ہے وہ یہ ہے کہ یوگی کے ایسے بیانات کی وجہ سے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان خلیج میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ریاست میں فرقہ وارانہ کشیدگی کی فضا پیدا ہو گئی ہے۔
اتر پردیش ریاست کے آدھے سے زیادہ حصے پر پولیس کا کنٹرول ہے کیونکہ کئی جگہوں پر فسادات کی صورت حال پیدا ہو گئی ہے۔ مرکز پر اگرچہ بی جے پی کی حکمرانی ہے لیکن اس نے بھی حالات پر تشویش ظاہر کی ہے۔ بدقسمتی سے وزیراعلیٰ یوگی کھلے عام مہنت کی حیثیت سے مندر کے فرائض انجام دے رہا ہے اور ساتھ ہی ریاست کے وزیراعلیٰ کا کام سنبھالے ہوئے ہے۔
ریاست کی صورت حال طرفہ تماشا محسوس ہوتی ہے جب کہ اپوزیشن پارٹیاں یوگی پر ہندوتوا کو فروغ دینے کا الزام لگا کر تنقید کر رہی ہیں۔ لیکن آر ایس ایس کی حمایت اتنی مضبوط ہے کہ وزیراعلیٰ جو چاہے کرتا رہے اس کا محاسبہ کرنے والا کوئی نہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ یوگی کا یوپی کا وزیراعلیٰ بننا سیاسی مبصرین کے لیے باعث حیرت تھا۔ ریاست کی انتخابی مہم کے دوران وزیراعظم مودی خود انتخابی مہم چلانے والوں میں شامل تھے۔ اگرچہ بظاہر وہ اپنے تعمیر و ترقی کے ایجنڈے پر زور دے رہے تھے لیکن اصل میں ان کا مقصد زعفرانی لبادوں والوں کا فروغ تھا جو ہندو انتہا پسندوں کی پہچان ہے اور ان کا بنیادی مقصد ہندوؤں کے ووٹ اکٹھے کرنا تھا جو کہ ان کی فرقہ پرستانہ تقاریر سے واضح بھی تھا۔
یہ اطمینان بخش بات ہے کہ اتنی فرقہ وارانہ تقاریر کے باوجود فرقہ وارانہ فسادات کا کوئی بڑا واقعہ پیش نہیں آیا جیسا کہ 2014ء کے قومی انتخابات سے پہلے پیش آئے تھے۔ اس حوالے سے یہ وجہ بھی ہو سکتی ہے کہ بی جے پی ریاست کی تعمیر و ترقی کے اپنے پروگرام پر عمل درآمد کرے گی جو کہ 2019ء کے عام انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے۔ یوگی آدتیہ ناتھ قومی سیاست میں ایک جانا پہچانا چہرہ ہے کیونکہ وہ وقتاً فوقتاً فرقہ وارانہ ریمارکس دیتا رہتا ہے۔
ریاست اترپردیش کے مغربی علاقے میں وہ فرقہ وارانہ بنیادوں پر ہندوؤں کے ووٹوں کے علاوہ ’’او بی سی‘‘ (دیگر پس ماندہ طبقات) کے ووٹ حاصل کرنا چاہتے ہیں جب کہ انھیں مخالفت کے طور پر جاٹوں کے ووٹ کا سامنا ہے۔ تو یہ بات واضح ہو گئی کہ بی جے پی کی طرف سے تعمیر و ترقی کے وعدے کے باعث اسے کامیابی مل سکتی ہے۔
واضح رہے کہ 1998ء کے انتخابات میں گورکھ پور کا 5 مرتبہ رکن اسمبلی بننے والا جاٹ برادری سے تعلق رکھنے والا گورکھ ناتھ مکٹ تھا جو کہ طویل عرصے تک انتخاب جیتتا رہا لیکن اس کو ویسی شہرت نہیں ملی جیسی 1990ء کے عشرے میں یوگی آدتیہ ناتھ کو ملی اور اس کا علاقائی سیاست پر مکمل قبضہ ہو گیا۔ اس وقت ایک ایسا مافیا بن گیا تھا جس کا سیاسی پارٹیوں میں بہت اثرورسوخ تھا۔ اس مافیا کا زوال یوگی کی فتح کی صورت میں ہوا۔ آدتیہ ناتھ کو راجپوت ہونے کا بھی ایک فائدہ ہے جس کے اونچی ذات والوں سے مضبوط روابط ہیں تاہم وہ ’’او بی سی‘‘ اور دلتوں کے ووٹ بھی حاصل کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 26 سالہ یوگی کو بی جے پی نے گورکھ پور کے لوک سبھا کے لیے انتخابی حلقے سے اپنا امیدوار نامزد کیا۔
آدتیہ ناتھ سے بہتر بی جے پی کے لیے اور کوئی امیدوار نہیں ہو سکتا جو 2019ء کے انتخابات میں لوک سبھا کی 80 نشستیں بی جے پی کے لیے جیت سکتا ہے لیکن مودی اور بی جے پی کے صدر امیت شاہ ایسے امیدوار کو انتخاب میں متعارف کرانا چاہتے ہیں جو ریاست کی تعمیر و ترقی کے ایجنڈے کو بھی پروان چڑھا سکے لیکن آر ایس ایس کا اپنا انداز ہے جس کے ذریعے وہ مودی اور امیت شاہ کو متاثر کرنا چاہتی ہے۔
آدتیہ ناتھ کو ریاست کا وزیراعلیٰ بنانے میں آر ایس ایس کا کردار نمایاں ہے۔ یوگی آدتیہ ناتھ کو نامزد کرنے کی بہت سی وجوہات ہیں کہ جس کی بنا پر بھارتیہ جنتہ پارٹی نے یوگی کو نامزد کیا۔ 2000ء کے عشرے میں بی جے پی نے ایسے ہندوتوا کو متعارف کرایا جس میں برہمنوں کی اکثریت نہیں تھی اور یہ کام اترپردیش میں ہی نہیں بلکہ ملک کی اور بھی کئی ریاستوں میں کیا گیا۔
1980ء اور 1990ء کے عشروں میں بی جے پی کو اونچی ذات کے ہندوؤں کی پارٹی سمجھا جاتا تھا لیکن 1990ء کے اواخر میں اتر پردیش میں نچلی ذات کے ہندوؤں کے علاوہ دلتوں کے ووٹ بھی حاصل کیے گئے جن کی ریاست میں بھاری اکثریت ہے۔ اس طرح انھوں نے سماج وادی پارٹی اور بہو جن سماج پارٹی کو کامیابی سے چیلنج کیا۔
وزیراعلیٰ ریاست کو درپیش ایسے مسائل کے حل کی کوشش کر رہا ہے جن میں گورکھ پور اسپتال میں ہونے والی ہلاکتیں اور بنارس ہندو یونیورسٹی کے طلبہ کا مسئلہ سرفہرست ہے جو اس بات پر احتجاج کر رہے ہیں کہ تاج محل کا تعلق بھارت کی وراثت سے نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اترپردیش کے محکمہ سیاحت نے تاج محل کو ملک کے پُرکشش مقامات کی فہرست سے خارج کر دیا ہے۔
اس سے قبل ہمیں پارٹ ٹائم وزرائے اعظم کے حوالے سے تلخ تجربہ ہو چکا ہے جب انھوں نے اپنی پارٹی اور دیگر پارٹیوں کے اتحاد کے حوالے سے زیادہ کامیابی سے فرائض ادا نہیں کیے جس سے پارٹی کی پوزیشن خراب ہوئی اور کئی مسائل اپنے حل ہونے کا انتظار کرتے رہے۔ یہ وہ چیز ہے جو بی جے پی اور وزیراعلیٰ آدتیہ ناتھ کو بخوبی یاد رہنی چاہیے کیونکہ ان کی پارٹی نے ریاست کی تعمیر و ترقی کے وعدے پر انتخاب جیتا لیکن وزیراعلیٰ کے منصب کو سب سے زیادہ نقصان اس وجہ سے پہنچ رہا ہے کیونکہ وہ جزوقتی وزیراعلیٰ کے طور پر کام کر رہے ہیں۔
یوپی کے وزیراعلیٰ لکھنو میں اپنے دفتر سے غائب رہتے ہیں۔ اس کے بجائے وہ 5 دن مندر کی ذمے داریاں نبھاتے ہیں جو کہ سپریم کورٹ کے حکم کی صریح خلاف ورزی ہے کیونکہ انھیں وزارت اعلیٰ کی تنخواہ سرکاری خزانے سے ادا کی جاتی ہے۔ اس حوالے سے عدالت میں ان کے خلاف ایک پٹیشن بھی دائر کی جانے والی ہے بصورت دیگر یہ بات سوچنے والی ہے کہ آدتیہ ناتھ بنیادی طور پر مندر کے پجاریوں کا مہنت ہے یا ریاست کا وزیراعلیٰ۔