شہر میں شور برپا ہے
صفیں ماتم کی ہیں ہر سو
کسی فاسق درندے نے
کسی بےزور بازو کو
جسم سے روح کی مانند
کچل کر کھینچ ڈالا ھے
ملائم پھول جیسے ھیں
جو کمسن چہچہاتے ھیں
مگن پرواز ہےانکی
یہ نغمے گنگناتے ھیں
بدن میلا ھے نا جن کا
نا جن پر داغ رھتا ھے
بلوغت جن پر نا حاوی
نا وہ عاقل نا وہ دانا
نگاہ سے جن کی پنہاں ہیں
سبھی قصے انسانوں کے
وہی بے زور بازو اب
ہوس کی بھینت چڑھتے ہیں
پڑے ساکن وہ ملتے ہیں
غلاظت کے جب ڈھیروں پر
تو روح بھی کانپ جاتی ہے
بدن بھی لرزہ خیز ہو کر
خدا سے پوچھتا ہے کہ
تیرے بندے کیوں ظالم ہیں
کیوں اتنی بھوک یے ان کو
کہ سب کچھ بھول جاتے ہیں
وہ ننھے پھول جو اب تک
نرم ہاتھوں کی زینت تھے
اںھیں بازور اور کمتر
نجس فاسق درندوں نے
بڑی بے رحم حسرت سے
دبا کر نوچ ڈالا ہے
ویرانے ہو گئے برپا
کہ اب تو سب جہانوں میں
کہ ہر اک خلق خالق کی
ہے محوِ سوچ آخر کیوں
وہی اشرف ہے یہ جس کی
فراست ناز تھا سب کا
حقیقت بھول بیٹھا ہے
محض یہ خاک کا پتلا
کہ مسکن خاک ہے جسکا
ازل تک خاک ہی رہنا
وہی ناداں ہے یہ جسکو
زعم ہے اپنے بازو پر
کہ کھویا جسنے ہے اپنے
مقام نائبیت کو
یہ واقف ہی نہں اس سے
جو قادر ہے جہانوں کا
وہ مالک بادشاہ وہ رب
مسل کر توڑ ڈالے گا
زمیں میں گاڑ دے گا وہ
سبھی باطل کے افسانے
نا ہو گی پھر کوِئی زینب
سرے بازار بے پردہ
کہ جسکی آہ سننے کو
نہ تھا کوئی بھی اک قاسم