لاہور (ویب ڈیسک) کسی سیانے کا قول ہے کہ :”کسی کو نصیحت نہ کرو کیوں کہ بے وقوف سنتا نہیں اور عقل مند کو اس کی ضرورت نہیں“….لیکن ہم ایسے کچھ سر پھرے ایسے بھی ہوا کرتے ہیں کہ وہ جو محسوس کرتے ہیں، کہتے رہتے ہیں کوئی سُنے یا نہ سُنے۔ ویسے اچھی بات بھی
نامور کالم نگار ڈاکٹر اختر شمار اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔ صدقہ جاریہ کی طرح ہوتی ہے۔ بات میں وزن ہو، اور اس میں ذاتی مشاہدہ تجربہ اور وہ مدلل ہوتو لہو میں گُھل جانے کی قدرت رکھتی ہے ….مگر اس کے لیے ”سماعت“ کا درجہ بھی اہمیت کا حامل ہوتا ہے ۔جس طرح ہمیں سرد اور گرم ہوا لگتی ہے اور ہم اس سے متاثر ہوتے ہیں اسی طرح بات بھی بندے کو لگ جاتی ہے۔ جسے بات نہیں لگتی یعنی اس پر اثر نہیں کرتی اسے خود پر غور کرنا چاہیے کہ کیوں:”مرد ناداں پر کلام نرم ونازک بے اثر “جیسے سورج اور رات ایک مقام پر کبھی اکٹھے نہیں ہوتے، خواہشات نفسانی اور ”اللہ“ کا نُور اکٹھے نہیں ہوسکتے اگر ہم مسلمان ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کو مانتے ہیں تو ہمیں سب سے پہلے خود احتسابی کی طرف آنا ہوگا۔ بدقسمتی سے ہمیں ہمیشہ دوسروں کے عیوب اور برائیاں کوتاہیاں دکھائی دیتی ہیں۔ اپنی ذات میں موجود کجیاں محسوس نہیں ہوتیں۔“یہ ساری باتیں ہم نے گزشتہ شام ایک عام سے شخص کے منہ سے سنیں وہ داتا صاحب دربار پر سلام کے لیے آیا ہوا تھا …. اس کے ساتھ دونوجوان بھی تھے جن میں سے ایک کے ہاتھ میں اخبار تھا، جس میں دھرنے کی خبریں اور تصاویر چھپی ہوئی تھیں۔ ادھیڑ عمر عام سا شخص اس نوجوان سے محوگفتگو تھا۔ میرے کان میں بھی اس کی باتیں پڑ رہی تھیں۔ بات جب دل کو لگتی ہے تو بندہ پوری توجہ سے ”باتوں“ پر دھیان دینے لگتا ہے ….وہ عام شخص شکل سے پڑھا لکھا بھی نہیں لگتا تھا
مگر اس کی باتوں میں تاثیر کی ایسی خوشبو تھی کہ میں باقاعدہ متوجہ ہوگیا۔ اس کے پاس بیٹھے ہوئے نوجوان نے اچانک اسے پوچھ لیا۔”بابا کیا یہ دھرنا ختم ہو جائے گا ؟اس اچانک سوال پر بابے کے چہرے کا رنگ بدل گیا شاید وہ کچھ سنجیدہ گفتگو کرنے میں محوتھا سیاسی سوال پر وہ کافی دیر تک سوال کرنے والے نوجوان کے چہرے کو دیکھتا رہا اور پھر بولا: سب ”خواہشات“ اور حرص کے معاملات ہیں۔ دھیان رہے کہ یہ چودھویں صدی کے علماءہیں۔ علم عمل کے بغیر ”اندھیرا“ ہے۔ اندھیرا ہے۔زندگی کی سمجھ آجائے یا بندے کو اپنی اوقات اور اصل کا پتہ لگ جائے تو ہرحال اور ہر بات پر راضی ہوکر بیٹھ جائے ہاں مایوسی کے بغیر، اپنا صراط مستقیم کبھی نہ چھوڑے، مسلسل محنت اور مثبت طرزعمل کے نتائج کچھ بھی نکلیں اس پر سرتسلیم خم کردے۔مگر ہم تو اللہ کو مانتے ضرور ہیں اس کی نہیں مانتے۔بیٹا !یہ جو بہت بولتے ہیں ناں ان کی کوئی بات کم ہی یاد رہا کرتی ہے۔ہم دنیا اور دین دونوں میں نہایت کامیاب ہونا چاہتے ہیں ہم جس رسول کو مانتے ہیں ان کی زندگی پر نظر نہیں ڈالتے انہوں نے ”دنیا“ میں رہ کر کیسی گزر بسر کی، کھانے پینے، پہننے سے لے کر شب وروز میں کیا اعمال کیے۔ اسوہ¿ حسنہ سے زیادہ ہمیں رہنمائی کہیں سے مل ہی نہیں سکتی۔لیکن ہمارے ہاں تو اکابرین اور علمائے دین کو پیٹ کے پٹھو لگے ہوتے ہیں۔ اللہ کا عذاب ہی تو ہے اتنا وزن اور پیٹ کی پنڈ اٹھا کر چلنا صاحب علم تو اپنے
علم وعمل سے سب سے پہلے ہمیشہ خود مستفید ہوتا ہے۔ اگر انسان کو اپنی صحت کی فکر نہیں وہ کھانے پینے کی محبت میں نفس کا غلام بنا ہوا ہے تو ایسے علم کا اسے کوئی فائدہ نہیں۔ہمارے بیشتر دانشور اور رہنمائے سیاست ، علمائے دین کیسی کیسی اعلیٰ غذائیں کھاتے ہیں، سواعتدال کو مدنظر رکھ کر ہروقت تعیش کی راہ پر گامزن رہنا کہاں کی بصیرت ہے۔سہل پسندی، تعیش کے لیے ہمیں حرص وہوس کا جبہ اوڑھنا پڑتا ہے یوں حرص اور لالچ اور دنیاوی شہرت دولت ہمیں حسد ،بغض، کینہ، جھوٹ نفرت کے راستوں پر لے جاتے ہیں اور پھر ہم من مانیاں کرتے ہیں۔ زیادہ دولت کے لیے زیادہ شہرت کے لیے، اقتدار کے لیے…. سو میرا چن !یہ دھرنے، جلسے جلوس احتجاج جمہوریت کے نام پر ڈراما ہیں۔ اصل میں ہماری حرص ختم نہیں ہوتی ہمیں مرنا یاد نہیں رہتا۔ سو لیڈر بھی عام آدمی اور عوام کے نام پر دراصل اپنے اقتدار، اختیار اثرورسوخ اور پیسے کے لیے کیا کیا پاپڑ بیلتے ہیں۔آخر میں تمہارے سوال کا جواب یہ ہے کہ دھرنا کل تک ختم ہوجائے نوجوان نے آمین کہا بولا: اور آخر میں یہ بھی بتادیں ….” مریم کا مستقبل کیا ہے؟“ پلیز مائنڈ مت کیجئے گا؟مریم کے نصیب میں اقتدار تو ہے مگر محنت کے بغیرنہیں ملے گا “ ….واللہ اعلم بالصواب۔۔اٹھنے سے قبل اس عام سے شخص نے پنجابی اکھان بولا اور چادر کندھے پر دھر کے ان لڑکوں کے ساتھ نظروں سے اوجھل ہوگیا اکھان یہ تھا :گل من کے ضمیر دے ٹریئے۔۔کُلی دا بھانویں ککھ نہ رہوے۔