اس کائناتِ فانی میں جتنے بھی مذاہب ہیں، ان میں امیرالمومنین ابوالحسن حضرت علی کرم اللہ وجہہ مقدس، پاک اور محترم تسلیم کئے جاتے ہیں۔ کرم اللہ وجہہ حضرت علیؑ کے مبارک نام کے بعد اس لیے استعمال کیا جاتا ہے کہ حضورؐ نے حضرت علیؑ کو پیدا ہوتے ہی گود میں لیا۔ منہ میں زبان دی اور دودھ کی بجائے لعابِ دہن رسول اکرمؐ سے سیراب ہو کر لحمک لحمی حق دار بنے
یاد رہے کہ آپ پہلے عظیم ہستی ہیں جن کے منہ میں حضورؐ کا لعابِ دہن گیا۔ جس کے نتیجے میں رسول اکرمؐ کا کردار حضرت علیؑ کا کردار بنا اور پیغمبرِ اکرمؐ کا ایمان کے ایمان میں صاف صاف نظر آیا؎ رسالت اور امامت میں بڑا باریک رشتہ ہے یہ خوشبو کہہ رہی ہے شافع محشرؐ کے بشر سےجوش ملیح آبادی تحریر فرماتے ہیں کہ ’’حضرت علیؑ نے سب سے پہلے جو دیکھا، وہ محمدؐ کا چہرہ تھا اور انہوں نے جو آواز سب سے پہلے سنی وہ حضرت محمدؐ کی آواز تھی۔ حضرت محمدؐ نے حضرت علیؑ کو گود میں پالا اپنی شخصیت کے سانچے میں ڈالا، اپنے سائے میں پروان چڑھایا اور وہ ان کے وجود میں اس طرح جذب ہو گئے کہ حضرت علیؑ کو اپنے انفاس سے بوئے محمدؐ آنے لگی۔ جس کا نتیجہ نکلا کہ حضرت علیؑ حق پر اس مضبوطی سے قائم ہو گئے کہ وہ حق کا جسم، حق کی جان، حق کا اعلان اور حق کی آواز بن گئے۔‘‘شانِ حضرت علیؑ بزبان مصطفی آپؐ نے فرمایا کہ علیؑ حق کے ساتھ اور حق علیؑ کے ساتھ۔ قرآن علیؑ کے ہیں ۔ میںؐ علم کا شہر ہوں اور علیؑ اس کا دروازہ ہے۔ علیؑ مجھ سے ہیں میں علیؑ سے ہوں۔ سب سے پہلے میرےؐ ساتھ علیؑ نے نماز پڑھی۔ میرا اور علیؑ کا نورایک ہے۔ علیؑ وہ ہیں جن کا چہرہ کو دیکھنا عبادت ہے۔
روایت ہے کہ مسلمانوں کے خلیفہ اول صحابی رسول حضرت ابوبکرؓ حضرت علیؑ کیطرف غور سے بہت دیر تک دیکھتے رہتے تھے۔ کسی نے وجہ پوچھی تو حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا کہ حضرت علیؑ کو رسول اللہؐ بھی بہت دیر تک غور سے دیکھتے رہتے تھے۔حضرت ابوبکرؓ سے مروی ہے کہ میں نے رسولؐ اللہ کو یہ کہتے ہوئے سُنا ہے کہ کوئی شخص بھی صراط پر سے گزر کر فردوس میں نہ جا سکے گا۔ جب تک کہ حضرت علیؑ کا دیا ہوا پروانہ جنت اس کے پاس نہ ہو گا۔ حضرت علیؑ کے القابات و خظابات میں امیرالمومنین، المرتضیٰ ، اسد اللہ، ید اللہ، نفس اللہ ، حیدر کرار، نفسِ رسول، ساقی کوثر اور کرم اللہ وجہہ شامل تھے۔ کنیت ابو تراب اور ابوالحسن ہے۔
واصف علی واصف کے بقول حضرت علیؑ کا نام اسد اللہ علیؑ کا چہرہ وجہ اللہ، ید اللہ ہے ولی اللہ علیؑ ملت کا رہبر ہے حضرت نظام الدین اولیاؒ فرماتے ہیں علیؑ دین اسلام کے وہ امام ہیں جن کی ولادت خانہ کعبہ میں ہوئی یہ وہ شرف ہے جو کہ حضرت آدمؑ سے لیکر آج تک کسی کو نصیب نہیں ہوا اور نہ قیامت تک ہو گا۔ رسول اللہ کی نبوت کے عینی گواہ حضرت علیؑ ہیں۔ بوقت مباہلہ حضرت علیؑ خطیب منبر سلونی تھے۔ شب ہجرت بستر رسولؐ پر سوئے اور وقت ہجرت رسول اللہ نے اہل مکہ کی امانتوں کا امین آپ کو بنایا۔ حضرت علیؑ نے مسجد قبا کا سنگِ بنیاد رکھا۔ آپ سب سے بہتر فیصلے کرنے والے تھے۔ جنگ احد میں ہاتف غیبی نے مژدہ سنایا۔ لافتنی الا علی لاسیف الا ذوالفقار۔ جنگ بدر ماہِ رمضان ۲ ھ میں واقع ہوئی۔ اس کی فتح کا سہراآ پ ہی سر تھا۔ آپ کبھی کسی جنگ میں میدان سے بھاگے نہ شکست نہیں کھائی۔
حضرت علیؑ تمام مسلمانوں سے تقریباً سات سال پہلے حضورؐ کے ساتھ نماز پڑھنے والے تھے۔ آپ رسول اللہؐ کے ساتھ ساتھ سایہ کی طرح رہتے تھے۔ حضرت علیؑ سے بڑھ کر اس دنیا میں کوئی سخی نہیں۔آ پ تمام علوم کے موجد اور اُن میں کمال کا درجہ رکھتے تھے۔علم نحو کے قواعد کی ایجاد بھی آپ ہی نے فرمائی اور حروف کے تعارف کے اصول و ضوابط آپ نے تعلیم فرمائے تھے۔ یہ ساری خوبیاں حضرت علیؑ کی ذات والا صفات میں بدرجہ اتم موجود تھیں اس طرح آپکی شان میں صرف اتنا ہی کہنا ممکن ہے کہ بعد از رسول خداؐ تمام تر اوصاف و کمالات کے نقطۂ انتہا کی برتری کا دوسرا نام حضرت علیؑ ہے۔ آپ کی ذات اخلاق حسنہ کا پیکر اوراوصاف حمیدہ کا مجسمہ تھی، ان کی سیرت بنی انسان کے لیے ایک اعلیٰ نمونہ اور بہترین راہِ ہدایت ہے۔ وحید الحسن ہاشمی نے کیا خُوب کہا ہے۔