counter easy hit

ایس پی طاہر خان داوڑ صرف ایک پولیس افسر نہیں تھے بلکہ ۔۔۔۔۔۔ مقتول کی زندگی کا ایک خفیہ پہلو سامنے آ گیا

پشاور(ویب ڈسک) پختون قوم میں غصہ بہت عام اور واضح بات ہے۔ گزشتہ روز ایس پی طاہر داوڑ کی لاش ملنے کے بعد پولیس اور سیاست دنوں میں غم اور حیران رہ جانے کی خبریں بھی منظرعام پر آرہی ہیں۔ اس قتل پر سب سے زیادہ غصہ پختون قوم پرستوں میں پایا جاتا ہے، جو اس قتل کے پیچھے ایک گہری سازش دیکھ رہے ہیں۔ معروف پختون دانشور ڈاکڑ سید عالم محسود کا یہ خیال ہے کہ قتل پختونوں کی نسل کشی کے ایک نئے انداز کی طرف اشارہ کرتا ہے، ’’ایسا لگتا ہے کہ خطے میں ایک اور پراکسی جنگ ہونے جا رہی ہے، جس کا مرکز ایک بار پھر پختون سر زمین ہو گی۔ یہ تو آپ سب ہی جانتے ہیں کہ پہلے مولانا سمیع الحق کو قتل کیا گیا اور اب ایس پی طاہرداوڑ کو، جو نہ صرف ایک پولیس افسر تھے بلکہ خیبر پختون کے ایک شاعر بھی تھے۔ جی ہاں! اس بات سے بہت ہی کم لوگ واقف ہوں گے کہ ایس پی طاہر ایک شاعر بھی تھے اور پختون قوم اس بات سے اچھی طرح واقف تھے۔ ایس پی طاہر نے اپنی شاعری میں پختون سر زمین کی تباہی و بربادی کا تذکرہ کیا ہے۔ طاہر داوڑ نے اپنی شاعری کے ذریعے پختونوں پر ڈھائے جانے والے ظلم وستم کے خلاف احتجاج بھی کیا۔ ان کی کچھ نظموں کو گایا بھی گیا۔ ہمارا خیال یہ ہے کہ اس قتل میں ریاستی عناصر دونوں طرح سے ملوث ہیں۔ اگر ریاست نے طاہر کو تحفظ نہیں دیا تو بھی وہ ذمہ دار ہیں اور اگر وہ اس کے اغواء کو روکنے میں ناکام ہوئے تو اس طرح بھی وہ ہی اس حادثے کے ذمہ دار ہیں۔ اس قتل پر وزیر داخلہ جو وزیراعظم عمران خان ہیں ان کا کہنا ہے کہ آئی ایس آئی چیف اور اسلام آباد کے پولیس سربراہ کو استعفیٰ دے دینا چاہیے۔‘‘ وزیراعظم عمران خان نے انکشاف کیا ہے کہ ایس پی طاہر پشتون تحفظ موومنٹ کے ہمدرد بھی تھے۔ اس قتل کے حوالے سے بہت سارے سوالات ہیں، جن کے جوابات ملنے چاہئیں۔‘‘
ٹویٹر پر بھی اس قتل کے حوالے سے خوب تبصرے ہو رہے ہیں۔ ٹویٹر پر ایمل ولی خان نے لکھا۔”وزیرِاعظم جواب دو، طاہر داوڑ کا حساب دو۔”

‘‘ آزاد پشتون قبائل نے لکھا، ’’ہم چیئرمین سینیٹ کی اس بات کی مذمت کرتے ہیں، جس میں وہ ایس پی طاہر داوڑ کی فاتحہ خوانی میں حصہ لینے سے یہ کہہ کر انکار کر رہے ہیں کہ یہ تو روز روز ہوگا۔ روز روز ہم یہ نہیں کر سکتے۔ لیکن جب پشتونوں کے سروں پر ڈالرز لینے کا وقت آتا ہے، تو یہ لوگ بالکل بھی نہیں دیکھتے کہ یہ دن ہے کہ رات۔‘‘

 

اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں
اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔