لاہور(ویب ڈیسک)میں اک لڑکی ہوں اسی لئے تو ڈرتی ہوں ۔ہر اجنبی کی نظر ،مسکراہٹ، التفات ۔۔۔میرے لئے ہے بدنامی کا پیامبر میں امی ابا کی اچھی بیٹی ہوں ۔اسی لئے مجھے جدھر بیاہا جائے میں سر جھکا دیتی ہوں ۔میرے ویروں کے شملے اونچے رہیں اسی لئے سسرال ے غم چھپا کر رکھتی ہوں۔شریک حیات مجھے مسکرا کر روز کہتا ہے:آہستہ آہستہ حالات بدل جائنگے،تمھیں سب اپنا لیں گے ۔پھر اپنا حق وصول کرکے وہ سو جاتا ہے۔ میں آہستہ آہستہ سسکیاں لیتی ہوں کہیں اس کی نیند نہ خراب ہوجائے۔میں روز اس امید پر اٹھتی ہوں کہ شاید آج مجھے بھی انسان تسلیم کرلیا جائے گا جو کبھی تھک جاتا ہے ، کبھی بیمار بھی ہوجاتا ہے مگر روز میں تھوڑا سا مر جاتی ہوں ۔میری ساس بہت نماز قرآن کی پابند ہیں اپنے بیٹوں کو اپنی بہنوں کا خیال رکھنے کو کہتی ہیں۔اپنی بیٹیوں پر جان نثار کرتی ہیں ۔ان کی بیٹیاں آئے دن میکے آئی رہتی ہیں میں سخت گرمی میں سب کے لئے پکاتی ہوں اور آخر میں بچا ہوا کھانا کھاتی ہوں ۔ میں حیران سی ہر ایک کا منہ تکتی ہوں میں بھی تو کسی کی بیٹی اور بہن ہوں۔ مجھ پر اکثر میری ساس اور میاں کا ہاتھ اٹھ جاتا ہے ۔میں اپنیچیخیں ضبط کرتی ہوں ۔نیلوں کو ٹکور کرتی ہوں ۔کوئی اگر پوچھے تو میز یا کرسی کے کونے کو ذمہ دار ٹھہراتی ہوں۔اب تو میں کسی کی ماں بھی ہوں مگر نہ کسی کی بیوی ہوں نہ کسی کی بہو ہوں ۔میرے بچے میری کمزوری ہیں کیونکہ میرےسسرال کے مطابق یہ تو ان کی نسل ہیں۔ان کے بچے ہیں ۔ میری ساس نندیں بڑی محبت سے ان کے منہ چومتی ہیں مگر میرا منہ چومنے کے لائق نہیں ہے۔ماں کے پاس جب بھی آتی ہوں وہ یہی پوچھتی ہیں “اپنے گھر کب واپس جاؤ گی؟میں اب بہت کم میکے جاتی ہوں ۔بھلا اپنی زرد رنگت،بدحال کپڑوں کا کیا جواز دوں؟مجھے سسرال میں جب بھی کوسا جاتا ہے تو میرے ماں باپ کو بھی گالیوں میں شامل کرلیا جاتا ہے۔ میری ساس مجھے ہر بار یہ جتاتی ہیں کہ میں ان کے بیٹے کا مال کھارہی ہوں۔ شادی کے بعد میرا کھانا پینا یا جوتا کپڑا کس کی ذمہ داری ہے؟میں پتھرائی ہوئی آنکھوں سے چپ کرکے سنتی ہوں ۔میرا میاں اکثر جھلا کر کہتا ہے کیا مٹی کا مادھو میرے ساتھ باندھ دیا ہے۔ کوئی رنگ اور خوبصورتی نہیں ہے ۔میں ہو لے سے مسکراتی ہوں اور سوچتی ہوں۔لڑکیاں تو تتلیوں کی طرح ہوتی ہیں ۔پھولوں کی مانند ہوتی ہیں ۔اگر کوئی ان کو سخت ہاتھ لگا دے تو وہ بےرنگ اور چرمرا جاتی ہیں۔ عورت میں رنگ اور خوشبو تو اس کے میاں کے مان،محبت اور تحفظ سے آتی ہے ۔میں کسی رشتے کو کمتر نہیں قرار دیتی مگر میرا بھی تو جیون ساتھی تجھ سے کوئی رشتہ ہے۔ کیا نکاح کا بندھن تمھیں میری عزت و آبرو کا محافظ نہیں بناتا ہے؟ میرے دو آنسو روز کی طرح ڈائری پر گر کر روشنائی پھیلا دیتے ہیں ۔میں سرد آہ بھر کر ڈائری چھپا دیتی ہوں۔