لاہور (ویب ڈیسک) اخلاقیات کے موضوع پر لکھے جانے والے کالموں کی تیسری وآخری قسط لکھتے ہوئے اب میں اصل مقصد کی طرف آتا ہوں جو یہ ہے کہ جب تک شریف برادران اقتدار میں رہے ان کے روایتی تکبر اور ہربدعملی پر کُھل کر تنقید کی، اور ظاہر ہے گزشتہ کالموں میں تفصیل نامور کالم نگار توفیق بٹ اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔سے لکھ چکا ہوں اِس کے نتائج بھی میں نے بھگتے، اب جبکہ وہ اقتدار میں نہیں ہیں، وہ گرے پڑے ہیں۔ سخت قسم کی آزمائش سے دوچار ہیں، کرپشن کے نتائج بھگت رہے ہیں، یا یوں کہہ لیںکرپشن کے نتائج نہیں بھگت رہے اِس ملک کی ”اصل قوتوں“ کے سامنے سراُٹھانے کے نتائج بھگت رہے ہیں، حالانکہ اُصولی اور قانونی طورپر نتائج اُنہیں کرپشن کے ہی بھگتنے چاہئیں، سکون اُن کی زندگی اور سیاست سے مکمل طورپر ختم ہوتا جارہا ہے، کچھ لوگ یہ اندازے بھی لگارہے ہیں اُن کے اقتدار کا سورج ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اب ڈوب گیا ہے، ….اِن حالات میں اُن پر تنقید کرتے ذرا شرم آتی ہے۔ کم ازکم میرے اخلاقیات مجھے اِس کی اجازت نہیں دے رہے، سو گزشتہ بہت عرصے سے میں نے اُن پر بہت کم تنقید کی، میرا ضمیر مجھے اجازت نہیں دے رہا کہ جنہیں قدرت سزا دے رہی ہے میں بھی پتھر اُٹھا اُٹھا کر اُن پر پھینکوں۔ یہ کام اُن کے اقتدار میں ہم بہت کرچکے، البتہ مجھے کچھ مزاحیہ قلم کاروں کے حالیہ رویے پر بڑی حیرت ہوتی ہے جنہوں نے شریف برادران کے دور میں کروڑوں اربوں کے فائدے اُٹھائے، اعلیٰ ترین عہدے و مراعات انجوائے کیں، آج شریف خاندان شدید مشکلات کا شکار ہے اور ہمارے یہ مزاحیہ کالم نگار ”غیر سیاسی موضوعات“ پر لکھ لکھ کر اپنا بچاﺅ کررہے ہیں، اُن کی قلمی عزت کب کی لُٹ چکی، اب شاید وہ چاہتے ہیں جو مال اُنہوں نے بنایا ہے کم ازکم وہی بچا لیں، شریف برادران نے جتنا کچھ اُنہیں ”عطا“ فرمایا اُس کا اخلاقی و بنیادی تقاضا یہ ہے شریف برادران کی مشکل کی اِس گھڑی میں غیرسیاسی کالم لکھنے کے بجائے کھل کر اُن کے حق میں لکھیں، مگر وہ اپنے پرانے غیر سیاسی کالموں میں تھوڑی بہت تبدیلی کرکے اِس یقین کے ساتھ لکھتے ہی جارہے ہیں کہ عوام کی یادداشت بڑی کمزور ہے اور اِس کا فائدہ اُٹھانے کا یہ سنہری موقع ہے ،….جہاں تک میرا معاملہ ہے آج بہت عرصے بعد مریم نواز کی اُس پریس کانفرنس پر مجبوراً مجھے لکھنا پڑ رہا ہے جس میں احتساب عدالت کے ایک انتہائی غیر سنجیدہ جج کی مبینہ ویڈیو صحافیوں کو دکھاتے ہوئے اپنے والد محترم کو اُنہوں نے بے گناہ قرار دیا ہے، وہ مسلسل یہ راگ الاپ رہی ہیں اُن کے والد اور خاندان نے اپنے اقتدار کے دوران ایک پیسے کی کرپشن نہیں کی، گو یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے اُن کے والد کو سزا کرپشن کی نہیں مِل رہی، مگر یہ کہنا ہرگز جائز نہیں کہ انہوں نے یا اُن کے خاندان کے دیگر افراد نے اپنے اقتدار میں ایک پیسے کی کرپشن نہیں کی ، ان کے اس مو¿قف کی تردید کے لیے یہی کافی ہے کہ اسی کی دہائی میں پورا شریف خاندان ایک فیکٹری ”اتفاق فاﺅنڈری“ کا مالک تھا، میاں شریف کے تمام بھائی اِس میں حصہ دارتھے، اُن کے جو بھائی سیاست یا اقتدار میں نہیں آئے مال وزر کے لحاظ سے وہ آج بھی وہیں کھڑے ہیں جہاں پہلے تھے، یا شاید اُس سے ذرا ہی آگے بڑھے ہوں گے۔ میاں شریف کے بیٹے اقتدار میں آگئے اور آج جتنا پیسہ اُن کے پاس ہے، وہ کہاں سے آیا؟ اِس کا کوئی باقاعدہ حساب کتاب دینے کے لیے وہ تیار نہیں، اِس کے باوجود وہ یہ چاہتے ہیں اُن کے اِس بیانیے کو پذیرائی ملے کہ اپنے اقتدار میں ایک پیسے کی کرپشن اُنہوں نے نہیں کی، ….البتہ میں بے شمارلوگوں کے اس مو¿قف سے مکمل اتفاق کرتا ہوں کہ اِس ملک میں کرپشن صرف سیاستدانوں نے ہی نہیں کی، سیاستدانوں کے علاوہ جنہوں نے کرپشن کی اور سیاستدانوں سے شاید بہت بڑھ کر کی، اُن کا کوئی علاج کیوں نہیں ہورہا ؟ احتساب کا عمل جب تک مکمل طورپر شفاف اور غیرجانبدارانہ نہیں ہوگا اِس کے وہ نتائج ہرگز نہیں نکلیں گے جن سے ملک ترقی کی جانب رواں دواں ہو جائے۔ موجودہ حکمران کرپشن کے خلاف جتنی چاہیں دہائی دے لیں، ایک دو سیاسی خاندانوں کو جتنا چاہیں چور ڈاکو کہہ لیں جب تک احتساب کا عمل ہر شعبے اور ادارے تک وسیع نہیں ہوگا بات نہیں بنے گی۔ یہ بات وزیراعظم عمران خان بھی جانتے ہیں کہ ڈاکے صرف ایک دوسیاسی خاندانوں نے نہیں ڈالے۔ البتہ اپنی کچھ ”مجبوریوں“ کے باعث وہ اِس کا اظہار نہیں کرتے تو یہ الگ بات ہے اور یہی وہ بات ہے جس سے اُن کی سیاسی ساکھ روز بروز گرتی جارہی ہے، جہاں تک سیاسی چوروں اور ڈاکوﺅں کا معاملہ ہے محض اُن کی گرفتاریوں سے کچھ حاصل نہیں ہوگا، اُن کے پاپی پیٹوں سے ایک روپیہ بھی برآمد نہیں ہوگا، زرداری نے تو حامد میر کو دیئے گئے حالیہ انٹرویو میں صاف صاف کہہ دیا ہے ” میں ایک پائی کسی کو نہیں دُوں گا“ ….یہ بات اتنے جوشیلے انداز میں وہ شاید اِس لیے کہہ رہا ہے اُسے پتہ ہے اُس نے اکیلے لُوٹ مار نہیں کی، اُسے لُوٹ مار کی کھلی اجازت دینے والے اور اُس کی آڑ میں خود بھی لُوٹ مار کرنے والے جب تک احتساب کے عمل سے نہیں گزرتے گرفتار شدہ چوروں اور ڈاکوﺅں کا چاکاایسے ہی کُھلا رہے گا ،….اُوپر سے بلکہ اُوپر سے لے کر نیچے تک جو ہماری عدلیہ کا حال ہے اُسے اگر بُرا حال نہیں کہا جاسکتا تو اچھا حال بھی نہیں کہا جاسکتا، احتساب عدالت کے ڈگمگاتے اور لڑکھڑاتے کردار کے مالک جج کے حالیہ عمل نے عدلیہ کے کردار کو ایک بار پھر کٹہرے میں لاکھڑا کیا ہے، ….اِس ملک میں برسہا برس سے عجیب وغریب کھیل کھیلے جارہے ہیں، …. اب لوگوں کی آواز دبانے کا نیا شوق حکمرانوں کو چڑھ آیا ہے۔ ہم تو اُمیدیں بڑھاکے اور لگاکے بیٹھے ہوئے تھے سب کچھ ٹھیک ہونے والا ہے۔ فی الحال ہماری حالت منیر نیازی کے اس شعر جیسی ہے ، ایک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو ۔۔ میں ایک دریا کے پار اُترا تو میں نے دیکھا۔