لاہور (ویب ڈیسک) یہ سنہ 1999 کی بات ہے جب ایک دن مقامی شخص تاشی نامگیال کارگل کے بالٹک سیکٹر میں اپنے نئے یاک کی تلاش میں سرگرداں تھے۔ ایک خطیر رقم سے خریدے جانے والے یاک کے گھر واپس نہ آنے پر وہ پہاڑیوں پر چڑھ کر دیکھ رہے تھے کہ ان کا یاک کہاں کھو گیا ہے۔ بی بی سی کی ایک خصوصی رپورٹ کے مطابق ۔۔۔ بہرحال ان کی کوشش رنگ لائی اور انھیں ان کا یاک نظر آ گيا۔ لیکن اس کے ساتھ انھوں نے جو منظر دیکھا اسے کارگل جنگ کا پیش خیمہ کہا جا سکتا ہے۔ ‘اگر وہ میرا نیا یاک نہ ہوتا تو شاید میں اس کی تلاش بھی نہ کرتا، اور پھر شاید میں پاکستانی دراندازوں کو بھی نہیں دیکھ سکتا تھا۔’ 55 سالہ تاشی نامگيال ممکنہ طور پر وہ شخص ہیں جنھوں نے سب سے پہلے انڈیا کی جانب کارگل کی پہاڑیوں میں چھپے ہوئے پاکستانی فوجیوں کو دیکھا۔ انھیں یہ معلوم تو نہیں تھا کہ یہ پاکستانی فوجی ہیں مگر مشتبہ محسوس ہونے پر انھوں نے فوراً ہی اس بارے میں انڈین فوج کو آگاہ کیا۔ انھوں نے کہا ‘میں ایک غریب چرواہا تھا، اس وقت میں نے اس یاک کو 12 ہزار روپے میں خریدا تھا اور جب پہاڑوں میں میرا یاک کھو گیا تو میں پریشان ہو گیا۔ عام طور پر یاک شام تک واپس آ جاتے ہیں۔ لیکن وہ نیا یاک تھا اسی لیے مجھے اس کی تلاش میں جانا پڑا۔ اس دن مجھے یاک تو مل گیا لیکن مجھے پاکستانی فوجیوں کو دیکھنے کا موقع بھی ملا۔’ بدھ مت کے پیروکار تاشی کارگل سے 60 کلومیٹر کے فاصلے پر دریائے سندھ کے کنارے گارکون گاؤں میں رہتے ہیں۔ وہ مجھے اس جگہ بھی لے گئے جہاں انھوں نے دراندازوں کو دیکھا تھا۔ انھوں نے بڑے فخر کے ساتھ مجھے اپنا وہ کھیت دکھایا جہاں وہ خوبانی اگاتے ہیں۔ چلتے چلتے جب ہم ایک جگہ پہنچے تو انھوں نے چیخ کر کہا ‘وہ یہیں پر تھے اور یہ وہ جگہ ہے جہاں سے میں نے انھیں دیکھا تھا۔’ ’پہلے مجھے خیال آیا کہ شاید یہ لوگ شکاری ہیں۔ اس کے بعد میں نے دوڑ کر اس کے متعلق فوج کو بتایا۔’ اس اطلاع کے بعد کارگل میں انڈیا اور پاکستان کے درمیان ایک جنگ لڑی گئی جس میں تقریباً 600 انڈین فوجی ہلاک ہوئے۔ تاشی اور اس گاؤں کے دوسرے افراد فخر کے ساتھ کہتے ہیں کہ انڈیا کی اس فتح میں انھوں نے اپنا کردار ادا کیا ہے۔ اپنی تہذیبی شناخت والی مخصوص ٹوپی پہننے والے تاشی اس جنگ کے بعد حکومت کی جانب سے دیے گئے اعزاز کو دکھاتے ہیں۔ ان میں سے بیشتر ایوارڈ ان کی ہوشیاری اور بہادری کے لیے انھیں دیے گئے ہیں۔لیکن کارگل جنگ کے 20 سال بعد ان اعزازات سے ان کا دل بھر چکا ہے۔ وہ کہتے ہیں ‘میرے چار بچے ہیں، لیکن ایک بیٹی کی تعلیم میں مدد کرنے کے علاوہ مجھے کوئی مالی مدد نہیں ملی اور نہ ہی کسی سے عزت ملی۔ بہت سے وعدے کیے گئے لیکن ان میں سے ایک بھی پورا نہیں کیا گیا۔’ تاشی نے کہا کہ انھیں انڈین وزیر اعظم نریندر مودی سے بڑی توقعات ہیں، لیکن کسی کو ان تک پیغام پہنچانے کی ضرورت ہے۔ تاشی سمیت اس گاؤں کے دوسرے لوگ بھی ترقی کی کمی سے ناراض ہیں۔ اس گاؤں میں رہنے والی تاشی پنچوک کہتی ہیں کہ ‘ہم نے اپنے کھانے کی فکر کیے بغیر اپنے فوجیوں کے کھانے پینے کا خیال رکھا، لیکن کسی نے ہمارے لیے کچھ بھی نہیں کیا۔’ اپنے گاؤں کی ضروریات کو بیان کرتے ہوئے پنچوک نے کہا ‘ہمارے یہاں مواصلات کی سہولت بھی موجود نہیں ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ ہم عزت اور خصوصی سلوک کے مستحق ہیں کیونکہ ہم نے بہت سی جانیں بچائیں اور انڈین فوج کی عزت بچائی۔’ جب ہم نے اس گاؤں کے بارے میں کارگل کے نائب کمشنر بصیرالحق چودھری سے بات کی تو انھوں نے کہا کہ اس گاؤں کو فوج سے ملنے والی امداد پر وہ کوئی تبصرہ نہیں کرسکتے۔ تاہم انھوں نے کہا کہ حکومت 15 اگست کو تاشی سمیت دیگر گاؤں والوں کے لیے اعزاز و اکرام کا منصوبہ بنا رہی ہے جبکہ اس علاقے میں سیاحت کے فروغ کے لیے انتظامات میں اضافے پر بھی غور کر رہی ہے۔